سکردو کے تاریخی قلعے ’ ’ کھر پوچو ‘ ‘ (قلعوں کا بادشاہ) سے کچھ پہلے گاڑی کی آخری حد ہے۔ یہ قلعہ بلندی پر اور دشوار چڑھائی پر ہے۔ اس کے نیچے سے گزرتے ہوئے راجا کی رانی کا محل بھی ہے جو قلعے سے کم بلندی پر ہے اور جس کے بارے میں ایک داستان بھی چلی آتی ہے۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ گلگت سکاؤٹس اور بلتی مجاہدین نے 14 اگست 1948ء کو کھر پوچو قلعہ فتح کیا۔ پاکستان بننے کے ٹھیک ایک سال بعد۔ نانگ سوق کا راستہ بہت خطرناک اور بے پناہ خوب صورت ہے۔کافی نیچے پہاڑی دیوار سے دریائے سندھ ٹکراتا ہے۔سامنے سکردو کی وادی اور شہر پھیلا ہوا ہے اور ہر موڑ پر نیا منظر نظر آتا ہے،

سکردو میں واقع قلعوں کا راجا یعنی کھرپوچو اپنی مثال آپ ہے۔ اس تاریخی قلعے کو مقپون خاندان کے نامور راجا بوخا مقپون نے بنوایا تھا۔ اسی راجا نے سکردو شہر بھی آباد کیا تھا، یوں قلعہ کھرفوچو اور سکردو ہم عمر وہم عصر ہیں۔سکردو شہر پھیلتا پھیلتا بہت دور نکل گیا ہے جبکہ کھرفوچو عدم توجہی کا غم سینے سے لگائے اپنے ہی ڈھیر میں گم ہوتا جارہا ہے۔

شروع میں اس قلعے کو کھر پوچھے کہا جاتا تھا‘دھیرے دھیرے کثرتِ استعمال سے کھرپوچو کہا جانے لگا۔ چند مورخین نے اسے کھرپوچو بھی لکھا ہے۔ آج کل اس کے صدر دروازے کے ساتھ والی دیوار پہ انگریزی حروف میں لکھا’’ KHARPHOCHO ‘‘ دور ہی سے نظر آتا ہے ۔

بوخامقپون کے بعد کے حکمرانوں نے بھی عصری ضروریا ت اور اپنے مزاج کے مطابق اس کو وسعت دی اور اسے مضبوط سے مضبوط تر بنایا۔کسی زمانے میں یہ قلعہ ناقابلِ تسخیر تھا۔ کھرفوچو نے بہت سے حملہ آوروں کو نامراد واپس جانے پر مجبور کیا۔ علی شیر خان انچن کے دور میں اس قلعے کو بہت زیادہ توسیع دی گئی۔قلعے کے درمیان ایک سات منزلہ محل تعمیر کیا گیا۔ اس محل کے سامنے پانی کا حوض تھا جو ہمیشہ لبالب بھرا رہتا تھا ۔ خوراک ذخیرہ کرنے اور اسلحہ رکھنے کے لیے پہاڑ کاٹ کر کمرے بنائے گئے تھے۔ ایک عالیشان مسجد‘ سپاہیوں کے رہنے کے لیے بیرکیں اور زندان بھی یہاں موجود تھا۔ قلعے کی حفاظت کے لیے مختلف مقامات پہ حفاظی چوکیوں‘ برجیوں اور مورچوں کا اعلیٰ انتظام موجود تھا۔ مورچوں اور چوکیوں پہ مسلح پہرہ دار اُس زمانے کے جدید ہتھیاروں سے لیس ہمہ وقت پہرے پہ مامور رہتے تھے۔

کھرپوچو کا صدر دروازہ سنگے ستاغو کہلاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس پہ شیر کی تصویر کندہ تھی۔ جب دروازہ بند ہوتا تو یہ شہر بہت ہیبت ناک دکھائی دیتا تھا۔یہ دروازہ بہت مضبوط تھا۔ یہاں حفاظت کے دیگرخاطر خواہ انتظامات بھی موجود تھے۔ کھرپوچو تک آنے کا باقاعدہ راستہ موجود نہیں تھا‘ مقامی روایات کے مطابق زیرِ زمیں سرنگوں کے ذریعے قلعے تک آمد و رفت ہوتی تھی۔

جب علی شیر خان انچن گلگت تا چترال کی مہم پہ گیا ہوا تھا تو اس مدت میں اس کی مغل ملکہ’’ گل خاتون‘‘ نے کھرپوچو کا راستہ بنوایا۔اپنی رہائش کے لیے کھرپوچو کے دامن میں دریائے سندھ کے کنارے ایک خوبصورت محل تعمیر کیا۔ مقامی لوگوں نے ملکہ کے نام ’’میندوق رگیالمو ‘‘یعنی گل خاتون یا پھول ملکہ کی نسبت سے اسے میندوق کھر(پھول محل)کا نام دیا۔ اس محل کی پانچ منزلیں تھیں۔ اس میں چوبی کام دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا جبکہ مختلف اقسام کے سنگِ مرمر کا استعمال اس قرینے سے کیا گیا تھا کہ دیکھنے والے حیرت میں مبتلا ہوجاتے تھے۔ اس محل کے سامنے موجود باغ اپنی ہیئت کی وجہ سے ہلال باغ کہلاتا تھا۔ملکہ نے اس باغ تک پانی پہنچانے کے لیے گنگوپی نہر بنوائی جو اپنی جگہ فنِ تعمیرات کا حیرت انگیز نمونہ ہے۔

کھرفوچو کے شمال میں نانگمہ ژھر کے نام کا ایک بڑا باغ تھا جو ننگ ژھوق تک پھیلا ہوا تھا۔ جنوب مغرب میں ایک باغ رگیہ ژھر نام کا تھا۔ گنگوپی نہر کے اُس پار غورو ژھر یعنی پتھروں والا باغ موجود تھا۔ کرفوپی ٹوق یا کرٹوق سے سٹیلائٹ ٹاون تک ایک بڑا باغ چہار باغ کے نام سے مشہور تھا۔ان باغات میں انواع و اقسام کے پھلدار و غیر پھلدار درخت ‘طرح طرح اور رنگ برنگ کے خوشبو بکھیرتے پھول دیکھنے والے کو مسحور کردیتے تھے۔ یہاں بڑے سلیقے سے روشیں ‘ تالاب‘حوض اور فوارے بنائے گئے تھے‘ جنہیں دیکھنے والے کا جی خوش ہوجاتا تھا۔

عروج و زوال ہر شے کا مقدر ہے۔ مختلف وجوہات کی وجہ سے یہاں کے خوبصورت باغات کوبھی اجڑنے میں دیر نہیں لگی۔محل ویران ہو گئے۔ کھرپوچوبھی لامحالہ ان تبدیلیوں سے متاثر ہوتا رہا۔رہی سہی کسر 1840ء میں ڈوگروں کی آمد اور ان کے ظلم و ستم نے پوری کردی۔اس قلعے نے ڈوگروں کو کئی ماہ تک روکے رکھا لیکن سازش کے ذریعے اس پر قبضہ کیا گیا۔ قلعے میں گھمسان کی جنگ ہوئی، خون کے دریا بہائے گئے۔ انسانیت روتی، چیختی اور لرزتی رہی جبکہ درندگی اپنی تمام تر خباثتوں کے ساتھ انسانوں کا خون بہاتی اور قہقہے لگاتی رہی۔ لہو سے زمیں کو گل رنگ کرنے کے بعد کھرفوچو قلعے کو آگ لگا دی گئی ۔ برسوں کی مشقت کے بعد بننے والی عظیم عمارت سے اٹھنے والے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔

کھرفوچو ایک سو آٹھ سالوں تک ڈوگرہ افواج کے زیرِ استعمال رہا۔ انھوں نے اپنی ضرورت کے مطابق اس کو دوبارہ تعمیر کیا اور تبدیلیاں کیں۔ 1948ء میں آزادی کا جذبہ مقامی لوگوں کی رگوں میں خون بن کر دوڑا تو انھوں نے بے سروسامانی کے عالم میں مضبو ط اور جدید ہتھیاروں سے لیس ڈوگرہ افواج کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔آزادی کی یہ جنگ کھرفوچو کے دامن میں لڑی گئی۔

قلعہ کھرفوچو سکردو کی پہچان ہے۔ یہاں کے لوگ بھی اس سے بہت پیار کرتے ہیں اور اس کے کھنڈر میں اپنے درخشاں ماضی کی بکھری تصویروں کو تصور کی آنکھ سے دیکھتے ہیں ۔ اس قلعے کے چاہنے والوں کے لیے اس کا ہر ذرہ محترم اور معتبر ہے۔یہاں سے سکردو کا نظارا ناقابلِ بیان حد تک خوبصورت ہے۔دیکھنے والا مسحور ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔میں بھی دیر تک اس حیرت کدے کے کھنڈر پہ بیٹھا ماضی کی خاک کریدتا رہا

حوالہ جات ترمیم

حوالہ جات