محسن الملک

انگريزوں کے دور کے مسلمان سیاستدان

محسن الملک (ولادت: 9 دسمبر 1837ء - وفات: 16 اکتوبر 1907ء) حیدر آباد دکن کے معاشی و سیاسی معتمند تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بھی معتمند رہے۔[1] مسلم لیگ کے بانیوں میں سے ہیں۔[2]آپ سر سید احمد خان کے قریبی دوست تھے۔[3][4] محمڈن ایجوکیشن کالج کی اہم مبلغ بھی۔ نواب صاحب کئی خصوصیات، وجاہت، ذہانت، خوش بیانی اور فیّاضی کے مالک تھے جن میں سب سے پہلا ذکرو جاہت کا ہے۔ محسن الملک ایک وجیہہ شخص تھے جس سے ملنے والا بہت جلد مرعوب ہوجاتا تھا۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص ان سے ذرا دیر کو بات چیت کرے تو ان کی خوش بیانی اور ذہانت و فیاضی کا قائل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد مصنف اپنا فلسفہ پیش کرتے ہیں کہ انسان کا نام رکھتے وقت اس کی خصوصیات اور خوبیوں کو نہیں دیکھا جاتا کیونکہ اس وقت ایسی خصوصیات سامنے ہی نہیں آتی۔ لہذا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نام کا مفہوم کچھ اور ہوتا ہے اور اس شخص میں خوبیاں اور خامیاں دوسری قسم کی ہوتی ہیں۔ وہ تمام لوگوں کے لیے اپنے دل میں ہمدردانہ جذبات رکھتے تھے اور ایک ہی ملاقات میں ان کو مرعوب کردیتے۔ اسی لیے لوگ انھیں اپنا محبوب جانتے اور انھیں محسن الملک کہہ کر پکارتے۔ آپ نے عملی،، تقریری اور تحریری ہر طرح سے اردو زبان کی خدمت کی۔

نواب محسن الملک

معلومات شخصیت
پیدائش 9 دسمبر 1837
اِتاوہ ، شمال مغربی صوبہ جات ، برطانوی ہند - موجودہ اتر پردیش ، بھارت
وفات 16 اکتوبر 1907
شملہ ، پنجاب ، برطانوی ہند
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دیگر نام سید مہدی علی خان
مذہب اسلام
جماعت آل انڈیا مسلم لیگ   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان ،  مصنف ،  دانشور   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی ،  فارسی ،  ہندی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت جامعہ علیگڑھ کی تویج و ترقی میں کردار ، آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی رکن
عسکری خدمات
وفاداری ریاست حیدرآباد   ویکی ڈیٹا پر (P945) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مسلم لیگ كا قیام

ترمیم

آل انڈیا مسلم لیگ كا قیام 1906ء میں ڈھاكہ كے مقام پر عمل میں آیا۔ محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے سالانہ اجلاس كے ختم ہونے پر برصغیر كے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مسلم عمائدین نے ڈھاكہ كے نواب سلیم اللہ خاں كی دعوت پر ایك خصوصی اجلاس میں شركت كی۔ اجلاس میں فیصلہ كیا گیا كہ مسلمانوں كی سیاسی راہنمائی كے لیے ایك سیاسی جماعت تشكیل دی جائے۔ یاد رہے كہ سرسید نے مسلمانوں كو سیاست سے دور رہنے كا مشورہ دیا تھا۔ لیكن بیسویں صدی كے آغاز سے كچھ ایسے واقعات رونما ہونے شروع ہوئے كہ مسلمان ایك سیاسی پلیٹ فارم بنانے كی ضرورت محسوس كرنے لگے۔ ڈھاكہ اجلاس كی صدارت نواب وقار الملك نے كی۔ نواب محسن الملك; مولانامحمد علی جوہر٬ مولانا ظفر علی خاں٬ حكیم اجمل خاں٬ اور نواب سلیم اللہ خاں سمیت بہت سے اہم مسلم اكابرین اجلاس میں موجود تھے۔ مسلم لیگ كا پہلا صدر سر آغا خان كو چنا گیا۔ مركزی دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا۔ تمام صوبوں میں شاخیں بنائی گئیں۔

اردو زبان کی خدمت

ترمیم

1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں میں بڑھتے ہوئے اختلافات کے پیش نظر سر سید احمد خاں نے محسوس کرنا شروع کر دیا تھا کہ سیاسی بیداری اور عام ہوتے ہوئے شعور کے نتیجہ میں دونوں قوموں کا اکٹھا رہنا مشکل ہے۔ مولانا حالی نے حیات جاوید میں سرسید کے حوالے سے بھی ان خدشات کا اظہار کیا ہے ان کے خیال میں سرسید احمد نے 1867 میں ہی اردو ہندی تنازع کے پیش نظر مسلمانوں اور ہندوؤں کے علاحدہ ہوجانے کی پیش گوئی کر دی تھی۔ انھوں نے اس کا ذکر ایک برطانوی افسر سے کیا تھا کہ دونوں قوموں میں لسانی خلیج وسیع ترہوتی جا رہی ہے۔ اور ایک متحدہ قومیت کے طور پر ان کے مل کے رہنے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ اور آگے چل کر مسلمانوں اور ہندوؤں کی راہیں جدا ہوجائیں گی۔[5]

اردو زبان كی ترقی و ترویج كا آغاز مغلیہ دور سے شروع ہوا اور بہ زبان جلد ہی ترقی كی منزلیں طے كرتی ہوئی ہندوستان كے مسلمانوں كی زبان بن گئی۔ اردو كئی زبانوں كے امتزاج سے معرض وجود میں آئی تھی۔ اس لیے اسے لشكری زبان بھی كہا جاتا ہے۔ اس كی ترقی میں مسلمانوں كے ساتھ ہندو ادیبوں نے بھی بہت كام كیا ہے۔ سرسید احمد خان نے بھی اردو كی ترویج و ترقی میں نمایاں كام كیا لیكن چونكہ ہندو فطری طور پر اس چیز سے نفرت كرتا تھا جس سے مسلمانوں كی تہذیب و تمدن اور ثقافت وابستہ ہو لہٰذا ہندووٕں نے اردو زبان كی مخالفت شروع كر دی۔

1867ء میں بنارس كے چیدہ چیدہ ہندو رہنماوٕں نے مطالبہ كیا كہ سركاری عدالتوں اور دفاتر میں اردو اور فارسی كو یكسر ختم كر دیا جائے اور اس كی جگہ ہندی كو سركاری زبان كے طور پر رائج كیا جائے۔ ہندووٕں كے اس مطالبے سے سرسید احمد خان پر ہندووٕں كا تعصب عیاں ہو گیا اور انھیں ہندو مسلم اتحاد كے بارے میں اپنے خیالات بدلنے پڑے۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا كہ :

٫٫ مجھے یقین ہو گیا ہے كہ اب ہندو اور مسلمان بطور ایك قوم كے كبھی نہیں ایك دوسرے كے ساتھ مل كر نہیں رہ سكتے۔٬٬

سرسید احمد خان نے ہندووٕں كی اردو زبان كی مخالفت كے پیش نظر اردو كے تحفظ كے لیے اقدامات كرنیكا ارادہ كیا۔ 1867ء میں آپ نے حكومت سے مطالبہ كیا كہ ایك ٫٫ دار الترجمہ٬٬ قائم كیا جائے تاكہ یونیورسٹی كے طلبہ کے لیے كتابوں كا اردو ترجمہ كیا جا سكے۔ ہندوؤں نے سرسید احمد خان كے اس مطالبے كی شدت سے مخالفت كی لیكن آپ نے تحفظ اردو كے لیے ہندوؤں كا خوب مقابلہ كیا۔ آپ نے الٰہ آباد میں ایك تنظیم سنٹرل ایسوسی ایشن قائم كی اورسائنٹیفك سوسائٹی كے ذریعے اردو كی حفاظت كا بخوبی بندوبست كیا۔

ہندووٕں نے اردو كی مخالفت میں اپنی تحریك كو جاری ركھا۔1817ء میں بنگال كے لیفٹیننٹ گورنر كیمبل نے اردو كو نصابی كتب سے خارج كرنے كا حكم دیا۔ ہندوؤں كی تحریك كی وجہ سے 1900ء میں یو پی كے بدنام زمانہ گورنر انٹونی میكڈانلڈ نے احكامات جاری كئے كہ دفاتر میں اردو كی بجائے ہندی كو بطور سركاری زبان استعمال كیا جائے۔

اس حكم كے جاری ہونے پر مسلمانوں میں زبردست ہیجان پیدا ہوا۔ 13مئی 1900ء كو علی گڑھ میں نواب محسن الملك نے ایك جلسے سے خطاب كرتے ہوئے حكومت كے اقدام پر سخت نكتہ چینی كی۔

اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن

ترمیم

نواب محسن الملك نے 1901ء كو اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن قائم كی جس كے تحت ملك میں مختلف مقامات پر اردو كی حمایت میں جلسے كئے گئے اور حكومت كے خلاف سخت غصے كا اظہار كیا گیا۔ اردو كی حفاظت كے لیے علی گڑھ كے طلبہ نے پرجوش مظاہرے كئے جس كی بنا پر گونر میكڈانلڈ كی جانب سے نواب محسن الملك كو یہ دھمكی دی گئی كہ كالج كی سركاری گرانٹ بند كر دی جائے گی۔

اردو كے خلاف تحریك میں كانگریس اپنی پوری قوت كے ساتھ شامل كار رہی اور اسے قبول كرنے سے انكار كر دیا۔

اردو زبان كی مخالفت كے نتیجے میں مسلمانوں پر ہندو ذہنیت پوری طرح آشكار ہو گئی۔ اس تحریك كے بعد مسلمانوں كو اپنے ثقافتی ورثے كا پوری طرح احساس ہوا اور قوم اپنی تہذیب و ثقافت كے تحفظ كے لیے متحد ہوئی۔

1900ء میں یوپی کے لیفٹنینٹ گورنر سر انٹونی میکڈانل نے اردو کے خلاف مہم شروع کی تو نواب محسن الملک نے اس کا جواب دینے کے لیے لکھنؤ میں ایک بڑا جلسہ کیا۔ محسن الملک نے اس جلسے میں جس جوش و خروش سے تقریر کی، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ یوں سمجھیے کہ الفاظ کا ایک لاوا تھا جو ابل ابل کر پہاڑ سے نکل رہا تھا۔ آخر میں نواب محسن الملک نے یہ کہتے ہویے کہ:

اگر حکومت اردو کو مٹانے پر ہی تل گئی ہے تو بہت اچھا۔ہم اردو کی لاش کو گومتی دریا میں بہا کر خود بھی ساتھ ہی مٹ جائیں گے

اور والہانہ انداز میں یہ شعر پڑھا۔

چل ساتھ کہ حسرت دل محروم سے نکلے

عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔

نواب محسن الملک نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بڑے زور و شور سے اردو زبان کی مدافعت جاری رکھی۔

وفات

ترمیم

محسن الملک 16 اکتوبر 1907ء کو برطانوی ہند کے پنجاب کے شہر شملہ میں وفات پاگئے۔[6][7]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Profile of Mohsin-ul-Mulk on Pakistan Herald newspaper آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ pakistanherald.com (Error: unknown archive URL) Retrieved 1 September 2019
  2. حیات محسن از امین زبیری
  3. Sir Syed's importance in the emerging situation (scroll down to read under this title) Dawn (newspaper), Published 16 October 2002, Retrieved 1 September 2019
  4. Profile of Mohsin-ul-Mulk on paknetmag.com website Retrieved 1 September 2019
  5. الطاف حسین حالی (1901)۔ حیات جاوید۔ صفحہ: 267 
  6. 'Dawn of freedom' Dawn (newspaper), Published 20 June 2017, Retrieved 1 September 2019
  7. Profile of Mohsin-ul-Mulk on Pakistan Herald newspaper آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ pakistanherald.com (Error: unknown archive URL) Retrieved 1 September 2019