محمد سلیم (انگریزی: Mohammed Salim) ایک بھارتی سیاست دان ہیں جن کا تعلق کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) سے ہے۔ ان کی پیدائش 5 جون 1957ء ہوئی۔ وہ سی پی آئی ایم کی 21 ویں پارٹی کانگریس میں پالٹ بیورو میں شامل کیے گئے۔ یہ پارٹی کانگریس وشاکھاپٹنم میں 2015ء میں منعقد ہوئی تھی۔ وہ 16 ویں لوک سبھا کے لیے رائے گنج حلقے سے منتخب ہوئے تھے۔[1] اس سے قبل وہ 14 ویں لوک سبھا کے بھی رکن رہے تھے۔ اس وقت وہ کولکاتا شمال مشرق سے منتخب ہوئے تھے جو مغربی بنگال کا ایک انتخابی حلقہ ہے۔ لوک سبھا حلقہ جات کی از سر نو حد بندی کے بعد وہ سال 2009ء کے عام انتخابات میں نو تشکیل شدہ کولکاتا کے شمالی حلقے لڑے تھے جہاں انھیں ترنمول کانگریس کے سُدیپ بندوپادھیائے کے آگے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔[2][3]

ملک میں امن کی فضا کی بحالی میں تعاون ترمیم

محمد سلیم ایک فعال شخص رہے ہیں اور ملک میں امن کی فضا کی بحالی میں تعاون کرتے رہے ہیں۔ 2002ء کے گجرات فسادات کے دوران اور اس کے بعد ایک لمبے عرصے تک بھارت کے میڈیا میں دو تصویریں بہت چھائے ہوئے تھے۔ ان میں ایک تصویر اشوک پرمار کی تھی، جس میں اس کے سر زعفرانی پٹی باندھی ہوئی تھی، ہاتھ میں لوہے کا راڈ تھا اور چہرے پر غصہ اور جنونی جوش صاف چھلکتا تھا۔ ایک اور تصویر اسی گجرات کے ایک مسلمان شخص قطب الدین انصاری کی تھی۔ اس میں قطب الدین کے چہرے پر خوف اور حواس باختگی، رونے اور رحم کی بھیک مانگتی تصویر صاف عیاں تھی۔ وہ ہاتھ جوڑ کر بھیک مانگتا ہوا دکھائی پڑتا تھا۔ میڈیا میں ان دو تصویروں کو فسادات اور ہجومی تشدد کے وقت ایک ہی جگہ بے رحمی اور لاچاری کے اجتماع ضدین کے طور پیش کی جاتی رہی ہے۔ تاہم میڈیا میں بہت کم ان تصویروں کے پیچھے کے چہروں کی کہانیاں شائع ہوئی ہیں۔ اشوک پرمار ایک موچی ہے۔ وہ اس قدر بے یار و مدد گار تھا کہ وہ ایک اسگول میں قیام پزیر تھا۔ 2002ء کے فسادات کے دوران وہ گمراہ کن سیاسی پروپگنڈا سے متاثر ہوا تھا اور ایک فسادی ہجوم کا حصہ بنا تھا۔ اس کے بر عکس قطب الدین ایک درزی تھا۔ وہ احمد آباد شہر کے نروڈا پاٹیا میں اپنی ایک خیاطی کی دکان چلاتا تھا۔ فسادات سے بڑی مشکل سے اپنی جان چھڑا کر وہ کمیونسٹ رہنما محمد سلیم کی مدد سے کولکاتا منتقل ہو گیا۔ انھوں نے اس کی کولکاتا میں بسنے میں بہت مدد کی تھی۔ تاہم کچھ وقت کے بعد جب ماحول راس نہیں آیا تو وہ احمد آباد لوٹ آیا۔ 2014ء میں پہلی بار قطب الدین اور اشوک آمنے سامنے آئے جب اپنی نفرت انگیز وابستگی پر پشیمان اشوک پرمان نے قطب الدین کی خود نوشت سوانح عمری I am Qutubuddin Ansari (میں قطب الدین انصاری ہوں) کے ملیالم ترجمے کا اس نے اجرا کیا۔ دونوں میں یہ حیرت انگیز تب سے بدستور دوستی قائم رہی۔ 2014ء سے متواتر انداز میں ملک بھر میں بے شمار ہجومی تشدد کے واقعات کے باوجود 7 ستمبر 2019ء کو جوابی دوستانہ کار روائی کے طور پر قطب الدین نے اشوک کی دکان کا افتتاح کیا جس کا نام ایکتا چپل گھر رکھا گیا تھا۔ اس موقع پر اشوک نے کہا کہ ملک میں ایکتا (اتحاد) ہی مستقبل کا راستہ ہو سکتا ہے۔[4][5] اس طرح سے فسادات اور ہجومی شدد کے ایسے دور میں جب کچھ سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں سے لوگوں کو پر تشدد کار روائیوں کے لیے اکسایا جاتا رہا ہے، ایک متاثر شخص اور ہجومی بلوہ گر نے اپنے ماضی کو فراموش کرتے ہوئے نئے دوستانہ اور تعاون کے دور کے قائم کرنے کی کوشش کی۔ اسے ممکن بنانے میں محمد سلیم جیسے رفاہی کاموں میں سرگرم محمد سلیم جیسے اشخاص ہیں۔


مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. "General Elections to Lok Sabha 2014 Constituency Wise Trends & Results"۔ West Bengal۔ Election Commission of India۔ 22 مئی 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 مئی 2014 
  2. "Selim drowns in Mamata wave"۔ The Statesman, 17 مئی 2009۔ 3 مئی 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مئی 2009 
  3. "In an unlikely friendship, face of 2002 riots fear inaugurates 'Ekta' shop of 'aggressor'"۔ ٹائمز آف انڈیا 
  4. "Photo Finish"۔ دی ہندو