مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ پاکستان کے اہل تشیع کے دوسرے قائد تھے۔ وہ 1912ء میں پاکستان کے شہر گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔[1] آپ کے والد ماجد حکیم چراغ دین نے آپ کی تربیت اور پرورش کی ذمہ داری آپ کے تایا حکیم شہاب الدین کے سپرد کر رکھی تھی۔ پانچ برس کی عمر میں تایا نے آپ کو قرآن کریم کے علاوہ عربی زبان کی تدریس بھی شروع کر دی تھی، جس کے بعد تقریباً سات سال کی عمر میں آپ نے حدیث و فقہ کی تعلیم کا آغاز کیا ۔

جناب مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ نے قران حکیم ،عربی ،حدیث اور فقہ کی تعلیم اپنے تایا حکیم شہاب الدین کے علاوہ، مولانا چراغ علی خطیب جامع مسجد اہل سنت اور حکیم قاضی عبدالرحیم، جو ندوی لکھنؤ کے فارغ التحصیل تھے، سے بھی حاصل کی۔ آپ نے بارہ برس کی عمر تک طب، حدیث، فقہ اور عربی زبان میں کافی حد تک عبور حاصل کر لیا تھا۔ 1926ء میں مرزا احمد علی مرحوم آپ کو اپنے ہمراہ لکھنؤ لے گئے جہاں آپ نے مدرسہ ناظمیہ میں مولانا ابوالحسن عرف منن صاحب، جناب سعید علی نقوی، جناب مولانا ظہورالحسن اور جناب مفتی احمد علی مرحوم سے کسب علم وفیض فرمایا۔ مدرسہ ناظمیہ میں تحصیل علم کے دوران آپ اپنی ذہانت کے باعث کافی معروف ہوئے۔ آپ نے وہاں امتحانات میں نہ صرف یہ کہ امتیازی اور نمایاں حیثیت حاصل کی بلکہ کچھ اعزازی سندیں بھی حاصل کیں ۔

نو سال تک لکھنؤ میں تحصیل علم کے بعد آپ 1935ء میں اعلی تعلیم کے لیے باب العلم حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے شہر نجف اشرف (عراق) میں تشریف لے گئے جہاں پانچ سال تک جوار امام علی علیہ السلام میں حوزہ علمیہ کے جید علما کرام وفقہاء عظام سے کسب فیض کیا کہ جن میں دیگر علما کرام کے علاوہ صاحب شریعت، عالم باعمل جناب آیت اللہ العظمی آقای سید ابوالحسن اصفہانی رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی شامل ہیں۔ نجف اشرف (عراق) سے پانچ سال کے بعد آپ فارغ التحصیل ہوکر 1940ء میں گوجرانوالہ میں تشریف لائے تو آپ حجۃ الاسلام مفتی جعفر حسین کے نام متعارف ہوئے آپ جید عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین ادیب، مبلغ اور مقرر بھی تھے۔ آپ کے لکھنؤ میں طالبعلمی کے دور کے دوست مولانا ملک محسن علی عمرانی (ڈیرہ اسماعیل خان)  جو خود بھی ایک جید عالم دین اور معروف خطیب تھے نے مل کر ملک کے گوشے گوشے اور قریہ قریہ میں علوم آل محمد ص اور عزاداری کی ترویج کی خاطر کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ جہاں بھی خطابت و تبلیغ کے سلسلے میں جاتے وسیع پیمانے پر لوگ مذہب شیعہ میں داخل ہو جاتے۔ آپ ایک نڈر، بے باک، راست گو اور سادہ انسان تھے، آپ پر جو بھی مذہبی فرائض عائد ہوئے آپ نے انھیں ہمیشہ لگن، محنت اور دیانتداری سے انجام دیا۔ بالآخرہ بروز پیر 29 اگست 1983ء کو داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اس دارفانی سے ایک قوم کو گریاں چھوڑتے ہوئے وفات فرما گئے، کربلا گامے شاہ (لاہور) میں تدفین کی گئی،[2]

آپ کی خدمات درج ذیل ہیں۔

ترجمہ نہج البلاغہ ترمیم

یہ کتاب حضرت علی علیہ السلام کے خطبات، خطوط اور کلمات قصار پر مشتمل ہے۔ چوتھی صدی ہجری میں سید شریف رضی رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت امیر کے یہ خطبات ،خطوط اور کلمات قصار کہ جو ان کی نظر میں فصاحت وبلاغت کے انتہائی آخری درجہ کو پہنچے ہوئے تھے، جمع کیے اور اسی مناسبت سے اس کتاب کانام نہج البلاغہ (یعنی بلاغت کا راستہ) رکھا۔ یہ کتاب پوری دنیا میں اپنا ثانی نہ رکھنے کی بنا پر مشہور ہے۔ اس کتاب پر زبان عربی ،فارسی اورانگریزی میں بہت سی شروحات اور ترجمہ لکھے جاچکے ہیں۔ مفتی صاحب نے اہل اردو زبان پر احسان کرتے ہوئے اس عظیم شہ پارے کو اردو زبان میں ترجمہ اور مختصر شرح کے ساتھ پیش کیا۔ آج تک جس کسی نے اس کتاب کو ایک مرتبہ پڑھا ہے پھر اس کا گرویدہ ہو گیا ہے۔

ترجمہ صحیفہ کاملہ ترمیم

یہ کتاب چوتھے امام حضرت علی زین العابدین علیہ السلام کی دعاؤں پر مشتمل ہے ان تمام دعاؤں کی سند بلکہ اس تمام صحیفہ کی سند اورخود امام عالی مرام علیہ السلام سے ہم تک پہنچنے کی تمام تاریخ اس کے مقدمہ میں موجود ہے۔ یہ کتاب جو زبور آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام سے مشہور ہے۔ تمام مسلم دنیا میں معروف ہے۔ اس کتاب کے بارے مصر کے مشہور عالم دین طنطاوی جوہری مصری خداوند کی بارگاہ میں شکوہ کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں : خداوندا یہ تیری کتاب موجود ہے قران اور یہ اہل بیت علیہم السلام میں سے ایک مشہور بزرگ ہستی کے کلمات ہیں۔ یہ دونوں کلام، وہ آسمان سے نازل شدہ کلام اور یہ اہل بیت علیہم السلام کے صدیقین میں سے ایک صدیق کی زبان سے نکلا ہوا کلام دونوں بالکل متفق ہیں۔ اب میں بلند آواز سے پکارتا ہوں ہندوستان اور تمام اسلامی ممالک میں اے فرزندان اسلام، اے اہل سنت، اے اہل تشیع۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ تم قران اور اہل بیت علیہم السلام کے مواعظ سے سبق حاصل کرو۔ یہ دونوں تم کو بلا رہے ہیں ان علوم کے حاصل کرنے کی طرف، جن سے عجائب قدرت منکشف ہوتے ہیں اور خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ تفرقہ انگیز مباحث سے باز آؤ اور ان ہدایات پر عمل کرو۔ ان علوم سے استفادہ کرو اور سورج کے نیچے، زمین کے اوپر زندہ رہنے کا سامان کرو۔

آپ نے اس صحیفہ کا اردو زبان میں ترجمہ کرکے مسلمانان برصغیر پر عظیم احسان کیا ہے۔

یہ دونوں ترجمے اردو ادب کا شہکار بھی ہیں۔

سیرت امیر المومنین علیہ السلام ترمیم

یہ کتاب آپ کی تالیف ہے اور دوضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ جس میں آپ مولا علی علیہ السلام کی زندگی اورسیرت پر تمام جوانب سے روشنی ڈالی ہے۔

ملت جعفریہ کی قیادت ترمیم

علمی میدان کے علاوہ سیاسی میدان میں بھی آپ نے کافی خدمات انجام دی ہیں جن میں سے صرف شیعیان پاکستان کی عظیم الشان رہبری سرفہرست ہے آپ ہی وہ عظیم ہستی ہیں کہ جنھوں نے شیعیان پاکستان کے حقوق کے تحفظ کے لیے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کی سب سے پہلی صدارت قبول فرمائی اور قائد ملت جعفریہ پاکستان کے نام سے بہترین قیادت فرمائی۔ ہمیشہ آپ کا احسان شیعیان پاکستان پر باقی رہ جائے گا۔

”تو جا چکا ہے پھر بھی میری محفلوں میں ہے “

حوالہ جات ترمیم

  1. تذکرہ علما امامیہ پاکستان از سید حسین عارف نقوی، صفحہ نمبر73
  2. تذکرہ علما امامیہ پاکستان از سید حسین عارف نقوی، صفحہ نمبر73