مفتی محمود
مفتی محمود ایک با اثر مذہبی رہنما اور سیاست دان تھے۔ کانگریس پارٹی کے سابقہ رکن اور جمیعت علمائے اسلام کے بانی رکن تھے۔
مفتی محمود | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | جنوری 1919 کلاچی |
||||||
وفات | 14 اکتوبر 1980 (60–61 سال) کلاچی |
||||||
شہریت | ![]() ![]() |
||||||
جماعت | انڈین نیشنل کانگریس جمیعت علمائے اسلام |
||||||
اولاد | مولانا فضل الرحمٰن، عطاالرحمان، لطیف الرحمان، ضیاءالرحمن | ||||||
مناصب | |||||||
سیکرٹری جنرل (1 ) | |||||||
برسر عہدہ 19 اکتوبر 1959 – 15 مئی 1978 |
|||||||
در | وفاق المدارس پاکستان | ||||||
| |||||||
صدر نشین (4 ) | |||||||
برسر عہدہ 15 مئی 1978 – 14 اکتوبر 1980 |
|||||||
در | وفاق المدارس پاکستان | ||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی | ||||||
استاذ | محمد میاں دیوبندی | ||||||
تلمیذ خاص | عبداللہ کاکا خیل، عبد المجید لدھیانوی، مولانا نور محمد، محمد ضیاء القاسمی، محمد موسٰی روحانی بازی | ||||||
پیشہ | سیاست دان | ||||||
مادری زبان | اردو | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | اردو | ||||||
ملازمت | قاسم العلوم ملتان | ||||||
درستی - ترمیم ![]() |
پیدائش ترمیم
وہ سال 1919ء میں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے عبد الخیل گاوؑں میں پیدا ہوئے۔ وہ لسانی طور پر مروت پشتون قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد کا نام مولانا خلیفہ محمد صدیقؒ تھا۔
تعلیم ترمیم
آپؒ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے اپنے گھر پر حاصل کی۔ آپ نے ان سے فارسی اور عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ مزید دینی تعلیم کے لیے آپ حضرت مولانا سید عبد الحلیم شاہؒ کے بھائی حضرت مولانا عبد العزیزشاہؒ کے پاس اباخیل(لکی مروت)چلے گئے اور ان سے صرف و نحو کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ مفتی محمود صاحب نہایت ہی ذہین واقع ہوئے تھے اور ذوق و شوق علم بھی رکھتے تھے، لہٰذا اپنے استاد محترم مولانا عبد العزیزؒ اور دیگر بزرگوں کے مشورے سے مدرسہ شاہی مرادآباد میں داخل ہوئے۔ ایک مرتبہ مولانا عبد الرحمٰن امروہیؒ تعطیلات کے ایام میں تشریف لائے اور مفتی صاحب سے پوچھا کیا تم نے تحصیل علم مکمل کر لیا ہے، جب انہوں نے مثبت میں جواب دیا تو مولانا صاحب نے انکا امتحان لیا اور اپنی طرف سے حدیث کی سند عطا فرمائی۔
درس و تدریس ترمیم
مفتی صاحب جب تحصیل علم سے فارغ ہو کر واپس آئے تو شاہ عبد العزیزؒ اور دیگر احباب نے اجلاس بلایا اور مشورہ کیا کہ علاقے میں ایک دینی درسگاہ تائم کرنی چاہیے، پس جامعہ عزیزیہ کے نام سے ایک درسگاہ قائم کی گئی اور مفتی صاحب تین سال تک اس میں پڑھاتے رہے۔ بعد میں وسائل کی عدم دستیابی کے وجہ سے مدرسہ بند کرنا پڑا اور آپ نے پڑھانے کی خدمات عیسیٰ خیل کے ایک دینی مدرسے کے سپرد کر دیں۔ کچھ عرصہ بعد یہاں سے مستعفی ہو کر واپس عبد الخیل آئے اور صاحبان کی تجویز پر اس نے یہاں مسجد کی امامت اور درس کا انتظام سنبھال لیا۔ علاقہ بھر سے طلبہ ان کے پاس آتے اور علم کے نور سے منور ہوتے۔ مقیم طلبہ کی بھی اچھی خاصی تعداد تھی۔ ان کے شاگردوں میں سے ایک ان دنوں مدرسہ قاسم العلوم ملتان میں زیر تعلیم تھے۔ انہوں نے اپنے اساتذہ کے سامنے مفتی صاحبؒ کی تدریسی صلاحیتوں اور علمی عظمت کا ذکر کیا تو مدرسہ کے ارباب انتظام و اہتمام نے مفتی صاحب کو اپنے مدرسے میں پڑھانے کی دعوت دی اور آپ ملتان تشریف لے گئے۔ یہاں سے ان کی علمی وسیاسی ترقی کا سفر شروع ہوا اور ملتان آنے کے بعد ان کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔ اس میں خود ان کی اپنی محنت، سعی وتوجہ اور دوڑدھوپ کا بہت عمل دخل تھا۔ ان کی علمی و سیاسی زندگی کا آغار یہاں سے ہوا۔
تعارف ترمیم
مفتی محمود صاحب تحریک پاکستان کے سخت مخالف رہے لیکن قیام پاکستان کے بعد اسے قبول کیا اور اپنی غلطی تسلیم کی پاکستان کے صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ رہے اور آپکا شمار ملک کے نامور سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ آپ جمعیت علمائے اسلام کے قائد اور مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے والد ہیں۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا سید میاں محمدرحمۃ اللہ علیہ جیسے مایہ ناز علما ہیں۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس کے سرگرم رکن تھے۔ لیکن بعد میں مسلمانوں کی اپنی جماعت جمیعت علما اسلام میں شمولیت اختیار کی اور سال 1940 میں ھندوستان کی آزادی کی تحریک میں شامل رہے۔ برصغیر پاک وھند کے دوسرے مسلمان سرکردہ لیڈروں کی طرح انہوں نے بھی پاکستان کے قیام کی نظریاتی بنیادوں پر مخالفت کی لیکن پاکستان بن جانے کے بعد انہوں نے اپنی توانائیاں پاکستان کے لیے وقف کر دیں۔ سال 1970 ء کے انتخابات کے بعد وہ مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب کے قائم کردہ جمیعت علما اسلام پاکستان کے صدر بنے۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ اتحاد کا حصہ بھی رہے۔ 1 مارچ 1970کو وہ صوبہ سرحد (موجودہ صوبہ خیبر پختونخوا) کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ انہوں نے اپنی کابینہ کے ساتھ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمیعت علما اسلام کی مشترکہ حکومت کے جبراً اختتام کے خلاف 14 فروری 1973 کو احتجاجاً استعفا دیا۔ مفتی صاحب نے پالستان میں ختم نبوت کے موضوع پر بحث میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے ایک ٹیم کی قیادت میں جسکے سرکردہ لیڈر شاہ احمد نورانی تھے قادیانیوں (احمدیوں اور لاھوری گروپ) کو غیر مسلم ثابت کرنے پر کام کر رہے تھے۔ انہیں اس موضوع کے بعد بہت شہرت اور پزیرائی ملی۔ انہوں نے روس کے خلاف افغان جہاد کی حمایت کی۔[1]
تصانیف ترمیم
عربی کتب ترمیم
- زبدۃ المقال فی رویۃ الہلال
- المتنبی الفادیانی من ھو؟
- التسھیل لاحکام الترتیل
اردو ترمیم
- تفسیر محمود (تین جلدیں)
- فتاویٰ مفتی محمود (11 ضخیم جلدیں)
- زادالمنتھی شرح سنن الترمذی[2]
وفات ترمیم
انہوں نے 14 اکتوبر 1980ء کو وفات پائی اور اپنے آبائی گاوؑں عبد الخیل پنیالہ میں مدفون ہیں۔
حوالہ جات ترمیم
- ↑ Mufti Mahmud – Wikipedia
- ↑ اکبری، عبدالحکیم (2010ء). مفتی اعظم مولانا مفتی محمود کی علمی،دینی اور سیاسی خدمات،صفحہ 244-264. مکتبہ الحمید ڈیرہ اسماعیل خان.
سیاسی عہدے | ||
---|---|---|
ماقبل | وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا (صوبہ سرحد) 1972–1973 |
مابعد |
سیاسی جماعتوں کے عہدے | ||
ماقبل مولانا عبداللہ درخواستی
|
امیر جمیعت علمائے اسلام 1968 – 1980 |
مابعد |