ملک منور خان اعوان

ستارہ جرآت اور راجوری کا بادشاہ

ملک منور خان اعوان پاکستانی فوج کے ایک میجر رینک کے افسرتھے جن کا کیریئر برٹش انڈین فوج میں شروع ہوا اور بعد ميں انگريزوں سے بغاوت کر کے انقلابی آزاد ہند فوج ( انڈین نیشنل آرمی) ميں شامل ہوکر دوسری عالمی جنگ میں اتحادیوں کے خلاف لڑے جہاں انھوں نے امفال (Imphal) کی مشہور لڑائی کے دوران اپنے کمانڈنگ افسر کے زخمی ہونے پر آزاد ہند فوج کی دوسری گوریلا بٹالین کی کمان کی اور انگريزوں کو بھاری نقصان پہنچايا۔ 1965ء میں آپریشن جبرالٹر ميں ان کو ان کی بہادری اور کارکردگی کے عوض ستارہ جرات سے نوازا گيا۔[1]

ملک منور خان اعوان
پیدائشTalagang، برطانوی ہند
وفاداری پاکستان
سروس/شاخ برطانوی ہندی فوج
 شاہی جاپانی فوج
 پاکستان فوج
مقابلے/جنگیںدوسری عالمی جنگ، پاک بھارت جنگ 1965ء
اعزازات ستارہ جرأت، راجوری کا بادشاہ

ابتدائی زندگی ترمیم

ملک منور خان تلہ گنگ کے گاؤں جھاٹلہ میں پیدا ہوئے۔ ایک نوجوان لڑکے کے طور پر، وہ ایک ایتھلیٹکس دوڑ میں اچانک داخل ہوئے اور اسے جيت گئے، مقابلہ منقد کروٓانے والے برطانوی افسران نے انہيں فوری طور پر فوج کيلیے منتخب کرليا۔[2]

کیریئر ترمیم

منور نے 1/14 پنجاب رجمنٹ ميں کميشن ليا۔ منور ان فوجيوں ميں شامل تھے جن کو دوسری عالمی جنگ میں سنگاپور کا دفاع کرنے کی کوشش کے دوران جاپانی افواج کی طرف سے جنگی قیدی بنا ليا گيا تھا۔ قید کے دوران انھوں نے جاپانی زبان سیکھی اور ان کی جاپانی نے ان کوجاپانی فوج کی توجہ کا مرکز بناديا۔ جب مشہور ہندی ليڈر سبھاش چندرہ بوس نے جاپانيوں کی مدد سے ہندوستان کی آزادی کيلیے انگريزوں کيخلاف مسلح جدوجہد شروع کی تو اس نے جاپانی کيمپوں ميں موجود ہندی فوجی قيديوں کو برطانوی استعمار سے آزادی کيلیے انقلابی آزاد ہند فوج ميں شموليت کی دعوت دی۔ منور جنھوں نے کبھی بھی دل سے انگريز کی غلامی قبول نہ کی نے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پيش کرديں۔ جس کے بعد ان کو جیل سے تربيتی کيمپ ميں منتقل کيا گيا جہاں انھوں نے جاپانی افواج کی خصوصی پيشہورانہ تربیت حاصل کی جس کے بعد انہيں آزاد ہند فوج میں بھرتی کرليا گيا۔ سبھاش چندر بوس کی قیادت میں آزاد ہندی فوج انگريزوں کے خلاف جاپانيوں کے شانہ بشانہ لڑی۔ منور نے آزاد ہندی فوج کی دوسری گوريلا بٹالين ميں شموليت اختيار کر کے انگريزوں کو بھاری نقصان پہنچايا۔ برما (Burma) ميں امفال (Imphal) کی لڑائی کے دوران کے دوران اپنے کمانڈنگ افسر کے زخمی ہونے پر منور نے بٹالين کی کمان خود سنمبھال لی۔ دوسری جنگِ عظيم کے آخری ايام ميں جب جاپانی افواج برما سے مشرق کی جانب پسپائی اختيار کررہيں تھيں اور آزاد ہندی فوج تقريبا تباہ ہو چکی تھی تو اتحادی افواج نے منور کو آزاد ہندی فوج کے ديگربے شمارافسروں اور جوانوں کی طرح جنگی قیدی بنا ليا اور دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر ان پر بادشاہ سے غداری کا مقدمہ چلايا گيا۔[3] تاہم جب برصغير کی تقسیم واقع ہوئی تو منور کودیگر آزاد ہندی فوج کے قیدیوں کے ساتھ رہا کرديا گیا جس کے بعد وہ پاکستان چلے گئے اور محترمہ فاطمہ جناح جو کے ملتان جيل ميں قيد کے دوران بھی قائدِ اعظم محمد علی جناح کے ہمراہ ان سے ملاقات کرچکی تھيں کی دعوت پر پاکستان آرمی میں شامل ہو گئے۔ انہيں ان کی پرانی يونٹ 1/14 پنجاب جو کے قيامِ پاکستان کے بعد بطور 5 پنجاب رجمنٹ پاک فوج کا حصہ بن چکی تھی ميں پوسٹ کيا گيا۔

جبرالٹر آپريشن 1965 ترمیم

ميجر منور کی خدمات بعد ازاں آزاد کشمير ريگولر فورس(موجودہ آزاد کشمير رجمنٹ) کے سپرد کردی گئيں جو کے اس وقت تک ايک نيم فوجی فورس تھی جہاں انہيں آزاد کشمير ريگولر فورس کی اکيسويں بٹالين ميں پوسٹ کيا گيا (بعد ميں 21 آزاد کشمير رجمنٹ). آپریشن جبرالٹر جولائی 1965ء میں شروع کیا گیا اس کا مقصد مقبوضہ کشمير جس پر پاکستان کا علاقائی دعوٰی ہے ميں خفيہ طريقے سے مسلح کاروائياں کرنا تھا تاکہ وادی ميں بھارت سے آزادی کی راہ ہموار کی جاسکے اور ايسے حالات پيدا کر ديئے جائيں کے وہاں موجود بھارتی فوجی قوت کمزور پڑ جائے اور پھر براہ راست فوجی حملہ کرکے کشمير حاصل کرليا جائے۔ اس آپريشن کيلیے پاک فوج کے جوانوں پر مشتمل 9 گروپ تشکيل ديئے گئے جنہيں مجاہدين کے روپ ميں مقبوضہ وادی ميں داخل ہوکر اپنے اپنے ذمہ داری کے علاقوں ميں کاروائياں کرنا تھيں۔ ہر گروپ کو فورس کا نام دے ديا گيا۔ منور جو کے میجر رينک پے تھے کو غزنوی فورس کی کمان دی گئی (يہ فورس خصوصی طور پر تشکيل دی گئی 9 فورسز ميں سے ايک تھی اور آزاد کشمير ريگولر فورس کے جوانوں اور ايس ايس جی کے کمانڈوز پے مشتمل تھی) ديگر فورسز صلاح الدين، قاسم، طارق، بابر، خلجی، نصرت، سکندر اور خالد تھيں۔ منور غزنوی فورس کے ہمراہ جولائی کے آخر ميں مقبوضہ کشمير ميں داخل ہوئے اور سب سے پہلی کارروائی کرکے بدھل پے قبضہ کر ليا اور جھاڑ بھڑياں مرگ کے قريب سناسر ندی کے آس پاس وسيع ميدان ميں آپريشنل ہيڈ کواٹر قائم کيا۔ اس کے بعد مشن کے مطابق تمام علاقائی عمائدين کا جرگہ منعقد کروايا گيا جہاں ميجر منور کی ولولہ انگيز تقريروں کے نتيجے ميں سينکڑوں کشميری جوان جوق در جوق غزنوی فورس ميں شامل ہونے لگے۔ دوسری مرحلے ميں غزنوی فورس کو سونپے گئے کاروائيوں کے علاقے ميں مقامی انقلابی کونسليں قائم کی گئيں۔ سردار حسين بخش کو بدھل اور فقير محمد کو کنڈی کی مقامی انقلابی کونسل کا سربراہ لگايا گيا۔ منور نے 14 اگست 1965ء کو اپنی پہلی کارروائی کے دوران دريائے توی پے موجود پل تباہ کر کے بھارتی فوج کی سپلائی لائن کاٹ دی جس پے بھارتی فوج نے بدھل کا تين اطراف سے محاصرہ کرکے جوابی حملہ کيا ليکن غزنوی فورس کی شديد مزاحمت کے باعث پسپا ہو گئی۔ بھارتی فوج کی بدھل سے پسپائی کی خبر جنوب مغربی کشمير ميں آگ کی طرح پھيل گئی اور اس نے لوگوں ميں آزادی کی جدوجہد تيز کردی۔ پہلے بھارتی انتقامی کاروائيوں کی وجہ سے غزنوی فورس کا ساتھ دينے سے انکاری لوگ بھی فورس کا ساتھ دينے لگے۔ اگلے مرحلے ميں کنڈی پہ قبضہ کيا گيا۔ اس وقت تک جبرالٹر آپريشن کی ديگر تمام فورسز ناکام ہونے کے بعد يا تو تباہ ہو چکی تھيں يا واپس پاکستان پسپا ہو گئی تھيں، ان ميں سے کچھ فورسز کے فورس کمانڈر بھی جاں بحق ہو چکے تھے۔

اس کے بعد کامياب گوريلہ کاروائيوں کے زريعے مينڈھر، منڈی، تھانہ منڈی،پنچہی، موہر ملائی اور ارناس کو بھارتی تسلط سے آزاد کروايا گيا- غزنوی فورس کی گوريلہ کاروائيوں سے پريشان جموں ميں بھارتی فوج کی مغربی کمان کے سربراہ ليفٹيننٹ جنرل ہربخش سنگھ نے منور کے سر کی قيمت ايک لاکھ روپے مقرر کر دی۔ ستمبر کے اوئل ميں منورنے راجوری کے نزدیک ایک پہاڑی درے پے شدید لڑائی میں غزنوی فورس کی قیادت کی اوراس پے قبضہ کرليا،اس درے کی تنزويراتی اہميت يہ تھی کے اس سے راجوری وادی کا علاقہ صاف دکھائی ديتا تھا، اس کے بعد بھارتی فوج کی راجوری ميں موجود چھاونی پے قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی، ستمبر 1965ء کی درميانی تاريخوں ميں غزنوی فورس نے راجوری چھاونی پر حملے کيلیے پيش قدمی کی اور پلما کے قريب بھارتی فوج سے دو بدو لڑائی ہوئی اس لڑائی ميں بھارتی فوج 200 کے قريب لاشيں چھوڑ کے پسپا ہو گئی اور غزنوی فورس نے راجوری چھاونی پے قبضہ کرکے پاکستانی پرچم لہرا ديا۔ بھارتی فوج جو کے جبرالٹر آپريشن ميں موجود باقی 8 فورسز کو کشمير سے مار بھگانے کے بعد کشمير پر دوبارہ بھارتی تسلط قائم کرنے ميں کامياب ہو چکی تھی علاوہ ازيں اس نے مزيد کارروائی کرکے سرحد پر پاکستان سے درہ حاجی پير بھی چھين ليا تھا کيلیے اندرون کشمير راجوری چھاونی پے قبضہ انتہائی غير متوقع تھا اور اس نے بھارتی ہائی کمان کو جھنجھوڑ کے رکھ ديا تھا۔ قبضہ چھڑانے کيلیے بھارتی فوج نے تيسری کماون رجمنٹ کو مع توپ خانے اور مسلح جين سکھ جتھہ ,ليفٹيننٹ کرنل سنہا کی کمان ميں بھيجا۔ جونہی يہ کانوائے رامبان پل پے پہنچا تو گھات لگائے موجود غزنوی فورس نے اس پے چار اطراف سے حملہ کرديا، 3 کماون بھاری نقصان اٹھا کے بھاگ نکلی جبکہ کمانڈنگ افسر ليفٹيننٹ کرنل سنہا بھی مارا گيا۔[2][4]

جولائی سے ستمبر تک منور گوريلہ کاروائيوں کے ذريعے بھارتی فوج کے اسلحہ اور سپلائی ڈيپوں،۔نقل وحمل اور رسد اور کمک کو مسلسل نشانہ بنا کر دشمن کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچاتے رہے۔ انھوں نے تین ماہ تک راجوری اور مينڈھر اور اس کے ارد گرد 500 مربع میل کے علاقے پر کنٹرول حاصل کيے رکھا[2].

اپنی کتاب "ہسٹری آف انڈوپاک وار 1965" میں لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد کے مطابق، منور کو وادی کی مقامی آبادی کی طرف سے مکمل حمایت حاصل تھی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے اختتام کے وقت بھی راجوری منور کے مؤثر کنٹرول میں تھا اور جنگ بندی کی نگرانی کے لیے راجوری وادی میں آنے والے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین نے بھی وہاں منوراورغزنوی فورس کے ديگر جوانوں سے ملاکات کی۔ تاہم بھارت اور پاکستان کے درمیان تاشقند معاہدے کے بعد منور کو واپس پاکستان پہنچنے کے احکامات دے ديے گئے۔ باوجود شديد احتجاج کے علاقہ خالی کر کے واپس پاکستان جانا پڑا۔ ميجر منور کو يہ خدشہ لاحق تھا کہ علاقوں سے نکلتے ہی بھارتی فوج دوبارہ قابض ہوکر مقامی آبادی کو بدترين انتقامی کاروائيوں کا نشانہ بنائے گی، اس ليے انھوں نے اس فيصلے پر شديد احتجاج کيا تاہم جی ايچ کيو فيصلے پر قائم رہا اور ڈسپلن کی پابند غزنوی فورس واپس آگئی۔ غزنوی فورس کے نکلتے ہی بھارتی فوج ان تمام علاقوں پے دوبارہ قابض ہو گئی اور مقامی آبادی کو آپريشن کلين اپ کے نام پے بدترين انتقامی کاروائيوں کا نشانہ بنايا۔ اس وقت کے جی او سی 12 ڈويژن ميجر جنرل اختر حسين ملک نے ميجر منور کے کارناموں کے اعتراف ميں صدر پاکستان فيلڈ مارشل محمد ايوب خان سے ان کے لیے نشان حيدر کی سفارش کی تاہم ايوب خان نے بعد از شہادت کی پاليسی جاری رکھتے ہوئے يہ سفارش نامنظور کردی۔ منورکوآپریشن جبرالٹر ميں بہادری کے عوض ستارہ جرات سے نوازا گيا، علاوہ ازيں صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی طرف سے " راجوری کے بادشاہ " کا خطاب بھی دیا گیا .

1981ء ميں منور نے راولپنڈی ميں وفات پائی اور آپ کو آپ کے آبائی گاؤں جھاٹلہ تحصیل تلہ گنگ ميں سپردِ خاک کرديا گيا .

يادگار ترمیم

منور درہ، بھارتی کشمیر میں راجوری قصبے کے شمال ميں، پیر کی گلی پیر پنجال کے پہاڑی سلسلے میں واقح پہاڑی درہ جس پے منور 1965ء کی لڑائی ميں قابض ہوئے تھے کا نام مقامی لوگوں کی طرف سے میجر منور کا نام پے درہ منور رکھا گيا اور يہ آج بھی اسی نام سے جانا جاتا ہے۔

ایوارڈ ترمیم

 

  ستارہ جرات

حوالہ جات ترمیم

  1. James Smith (12 January 2015)۔ "INA Operations"۔ Southeast Asia:World War II۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جنوری 2016 
  2. ^ ا ب پ Anjum Niaz (21 April 2013)۔ "The 20-watt fountain of energy"۔ Dawn۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جنوری 2016 
  3. Professor Nazeer Ahmed (20 December 2007)۔ "Muslim contributions to india's freedom struggle a different narrative"۔ historyofislam۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جنوری 2016 
  4. Brigadier Chitranjan Sawant (21 April 2013)۔ "PAKISTANI MILITARY LEADERS LOVE TO GO TO WAR BUT COMMONERS SUFFER۔"۔ vedicupvan۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جنوری 2016