عبد الرشید غازی
عبدالرشید غازی ( 1964 - جولائی 2007) ایک پاکستانی مذہبی سکالر، عالمی ادارے یونیسکو کے سفیر اور جامعہ فریدیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر/نائب مہتمم تھے۔ وہ لال مسجد کے بانی مولانا عبداللہ کے بیٹے اور خطیب عبدالعزیز کے بھائی۔ دادا کی مناسبت سے نام عبد الرشید غازی رکھا گیا۔ ابتدا میں اپنے بڑے بھائی عبد العزیز سے کافی مختلف زندگی گزاری رہے۔[1]
Abdul Rashid Ghazi عبدالرشيد غازی | |
---|---|
![]() | |
وائس چانسلر/نائب مہتمم جامعہ فریدیہ | |
قلمدان سنبھالا 1998–2007 | |
ذاتی | |
پیدائش | 29 جنوری 1964 |
وفات | 10 جولائی 2007 | (عمر 43 سال)
موت کی وجہ | Gunshot injury |
مدفن | بستی عبداللہ، پنجاب، پاکستان 28°32'49"N 69°47'25"E |
مذہب | اسلام |
قومیت | پاکستان |
شہریت | ![]() |
دستخط | ![]() |
ابتدائی زندگیترميم
وہ نسلی طور پر بلوچ تھے، جو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے سرحدی ضلع راجن پور کے قصبے روجھان میں مزاری قبیلے کے سے تعلق رکھتے تھے۔[2]
انہوں نے اپنی جوانی میں کسی قسم کی دینی تعلیم حاصل کرنے سے انکار کر دیا۔ والد کے دباؤ پر فیصل مسجد کے قریب ان کے مدرسے جامعہ فریدیہ میں درس نظامی کے لیے داخلہ تو لے لیا لیکن بعد میں تعلیم ادھوری چھوڑ کر قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد میں داخلہ لیا۔[3]
انہوں نے 1987-1988 میں قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد سے تاریخ میں ایم ایس سی مکمل کیا۔ ان کی اور ان کے ہم جماعت کی ایک تصویر آج بھی محکمہ تاریخ (History Department) کی دیوار پر لگی ہوئی ہے۔[4]
ان کے دوست کے مطابق، انہیں ہمیشہ عالمی سفارت کاری میں ایک بین الاقوامی شخصیت بننے کا شوق تھا، اور وہ اس پر توجہ مرکوز تھے۔[5]
سفارتی کیریئرترميم
تاریخ میں ایم ایس سی کرنے کے بعد انہوں نے پاکستان نیشنل کمیشن میں ملازمت حاصل کی اور بعد ازاں اسلام آباد میں وزارت تعلیم میں گریڈ 17 کے افسر کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی جہاں انہوں نے وزارت تعلیم کے ماہانہ میگزین دیامی کے چیف ایڈیٹر کے طور پر بھی مختصر کام کیا۔[6]
کافی سال تک انہوں نے یونیسکو کے ساتھ فرانس کے شہر پیرس (Paris) میں ڈپٹی اسپیکر اور بعد میں بطور سفیر کی ملازمت کی۔[7][8]
شادیترميم
ان کی شادی بھی مری کے ایک متمول اور نسبتاً آزاد خیال گھرانے میں ہوئی۔ ان کی زوجہ سسرالی روایات کے خلاف گاڑی بھی ڈرائیو کرتی رہیں۔[9]
سوویت-افغان جنگترميم
سوویت افغان جنگ کے دوران غازی نے بھی ایک مختصر مدت تک روس کے حلاف لڑائی کی، غازی کے ایک دوست کے مطابق (جو جنگ کے دوران ان کے ساتھ تھے)، انہوں نے افغانستان کے صوبہ پکتیا میں کئی بار روسیوں کے خلاف لڑائی کی، اس دوران غازی نے بمشکل اپنی جان بچائی جب ان کے قریب ایک زمین میں لگی لینڈ ماین بم پھٹ گیا۔ اس واقعے کے بعد انہوں نے اپنے نام کے ساتھ غازی (جنگجو) کا لقب لگایا۔[10]
اسامہ بن لادن سے ملاقاتترميم
1998 میں غازی اور ان کے والد اور کچھ دیگر علماء نے افغانستان کے صوبہ قندھار میں اسامہ بن لادن اور ملا عمر سے ملاقات کی۔ غازی نے اس میٹنگ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ملاقات کے اختتام پر انہوں نے ایک گلاس اٹھایا جس میں سے بن لادن پانی پی رہا تھا اور بقیہ پانی خود پی لیا۔ تو اسامہ بن لادن نے غازی سے پوچھا، "اپ نے ایسا کیوں کیا؟" جس پر غازی نے جواب دیا: میں نے آپ کے گلاس میں اس لئے پیا تاکہ اللہ مجھے آپ جیسا (عظیم) آدمی بنائے۔[11]
مولانا عبداللہ کا قتلترميم
غازی اور ان کے والد کے قندھار سے واپسی کے ایک ہفتہ بعد، 17 اکتوبر 1998 بروز ہفتہ کو غازی کے والد جن کا ہر روز کا معمول تھا کہ وہ لیکچر دینے کے لیے اسلام آباد کے سیکٹر E-7 میں واقع اپنے مدرسے جامعہ فریدیہ جاتے، دوپہر کو ظہر کے وقت جب وہ واپس آئے تو مسجد کے دروازے کے سامنے کھڑے ایک شخص نے بندوق نکالی اور ان کے طرف فائرنگ کی ، جس سے مولانا بری طرح زخمی ہوگئے۔ اس کے بعد اس نے قریب ہی موجود مولانا عبدالعزیز پر فائرنگ کی جو بمشکل جان بچا سکے۔ قاتل مسجد کے باہر کار میں بیٹھے ساتھی کی مدد سے فرار ہو گیا۔ مولانا عبداللہ ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔[12]
عبدالرشید غازی نے ایف آئی آر درج کرائی اور پولیس نے کیس کی تفتیش کی۔ انتھک کوشش کے بعد ایک شخص کو گرفتار کیا گیا اور اس کے بعد آئی ڈی پریڈ کے دوران کئی عینی شاہدین نے قاتل کو پہچان لیا۔ تاہم اسے اگلے دن بغیر کسی وجہ کے رہا کر دیا گیا۔ غازی کے دوست کے مطابق یہ غازی کی زندگی کا اہم موڑ تھا اور وہ نظام انصاف سے مایوس ہو گیا۔[13]
2001 کے بعدترميم
رفتہ رفتہ انہوں نے مسجد اور مدرسے کے معاملات میں دلچسپی لینا شروع کی پھر بھی ان کی سرکاری ملازمت بہرحال چلتی رہی۔ بڑے بھائی نے ان کی بدلتی سوچ کی حوصلہ افزائی کی اور مدرسے اور مسجد میں اپنا نائب اور جانشین مقرر کر دیا۔[14]
عبد الرشید غازی پہلی بار منظر عام پر سال دو ہزار ایک میں اس وقت آئے جب ملک کی مذہبی جماعتوں نے امریکی حملے کے خلاف افغانستان کے دفاع کے لیے ایک تنظیم کا اعلان کیا۔ عبد الرشید غازی، جو اب اچانک، مولویوں کے اس اتحاد کے مرکزی رہنما قرار پائے۔ اسلام آباد میں ہر روز ایک جلسہ ہوتا اور مولانا عبد الرشید غازی دیگر مذہبی رہنماؤں کے ساتھ کھڑے جذباتی انداز میں خطاب کرتے۔[15]
2003، میں انہوں نے لال مسجد کے اندر سپاہ صحابہ کے سربراہ اور سابق MNA مولانا اعظم طارق کا جنازہ پڑھایا۔[16]
جامعہ فریدیہ یونیورسٹیترميم
عبدالرشید غازی جامعہ فریدیہ یونیورسٹی(جو کہ فیصل مسجد کے قریب واقع ایک اسلامی یونیورسٹی) کے جنرل منیجر (نائب مہتمم) بھی رہے۔ انہوں نے مدرسے کی روایتی درس نظامی کے ساتھ ساتھ عالمی تاریخ، اسلامی معیشت، علم طبیعی اور دیگر نئے کورسیز بھی دینا شروع کیئے- انہوں نے مدرسے میں ایک ریسرچ سینٹر بھی قائم کیا جو مدرسے کا ماہانہ میگزین فریدیہ ایڈیٹوریل میگزین بھی شائع کرتے۔[17]
2002 ، میں انہوں نے فیصل مسجد اور جامعہ فریدیہ کے درمیان جنگل میں ایک ہائیکنگ ٹریل بنوایا، جس میں پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان کی مالی مدد شامل تھی، اس لیے اس ٹریل کا نام "اے کیو خان ٹریل" رکھا گیا۔[18]
2003 میں، غازی نے الفریدیہ ماڈل اسکول کا افتتاح کیا، جو جامعہ فریدیہ کے اندر ہی موجود ہائی اسکول ہے۔ جس میں ساتویں سے میٹرک تک مفت کلاسز دی جاتی ہے۔[19]
القاسم فاؤنڈیشن (جس کا نام اب فریدیہ ویلفیئر ٹرسٹ ہے) غازی نے 2005 کے زلزلے کے فوراً بعد قائم کی تھی اور ان کی نگرانی میں 100 million روپے کا امدادی سامان متاثرین تک پہنچایا تھا۔[20]
عالمی ادارے یونیسف میں شمولیتترميم
2005 میں، غازی نے یونیسیف میں شمولیت اختیار کی، جو اقوام متحدہ کی زیر قیادت ایک تنظیم ہے، جہاں وہ وبائی امراض کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے رکن تھے۔[21]
2006 میں، وہ اقوام متحدہ کی سفیر، بیٹینا شنٹر کے ساتھ مذہبی رہنماؤں کے ایک وفد میں شامل ہوئے۔ جس نے ایچ آئی وی سے بچاؤ کے بارے میں آگاہی کے لیے جنوبی افریقا (South Africa) کا دورہ کیا۔[22]
قاتلانہ حملہترميم
2005 میں ایک صبح، غازی اپنے معمول پر جامعہ فریدیہ میں درس دے کر واپس آ رہے تھے، وہ مارگلہ کی پہاڑیوں کے قریب ایک ہائی وے پر گاڑی چلا رہے تھے کہ انہوں نے اچانک دیکھا کہ قریب ایک گاڑی میں سوار شخص ان کی طرف بندوق تان رہا ہے۔ . غازی نے اپنے لائسنس یافتہ پستول سے خبردار کرنے کےلئے گولیاں چلائیں۔ اس واقعے کے بعد غازی نے اپنی حفاظت کے لیے پستول کی بجائے AK-74 اپنے ساتھ رکھنا شروع کردی-[23]
وفاتترميم
لال مسجد کے محاصرے کے دوران، غازی اپنے چند طلبہ اور ساتھیوں کے ساتھ مسجد کے اندر رہے۔ انہوں نے ایک محفوظ راستہ کا مطالبہ کیا، لیکن حکام نے ان کی درخواستوں کا انکار کردیا۔ پاکستان کی وزارت داخلہ کے مطابق وہ 10 جولائی 2007 کو آپریشن سائیلنس کے دوران لال مسجد میں مارے گیے۔[24]
انہوں نے وصیت کی کہ ان کو اِن کے والد کے پہلو میں جامعہ فریدیہ،اسلام آباد میں دفن کیا جائے لیکن انہیں روجھان مزاری کے قریب بستی عبداللہ میں واقع مدرسہ عبداللہ بن غازی میں دفن کیا گیا۔ غازی کے بڑے بھائی عبدالعزیز نے اِن کا جنازہ پڑھیا، جس میں ملک کے تمام صوبوں سے بڑی تعداد میں لوگ اس گاؤں میں جنازے کے لیے آئے۔[25]
مزید دیکھیےترميم
حوالہ جاتترميم
- ↑ Farooqui، Asif (10 July 2007). "Obituary: Abdul Rashid Ghazi". BBC News.
- ↑ Tadfeen Islamabad mein ki jaey BBCUrdu, 11 July 2007, retrieved 21 July 2009 آرکائیو شدہ 8 نومبر 2012 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ "Islamabad Red Mosque Cleric Killed" آرکائیو شدہ 2007-07-12 بذریعہ وے بیک مشین پاکستان ٹائمز, 11 July 2007, retrieved 27 July 2009
- ↑ Nadeem F. Paracha (3 November 2013), "Red handed", Dawn News. Retrieved 3 June 2019.
- ↑ Nadeem F. Paracha (3 November 2013), "Red handed", Dawn News. Retrieved 3 June 2019.
- ↑ Qandeel Siddique, The Red Mosque Operation and Its Impact On the Growth of the Pakistani Taliban, report for Norwegian Defence Research Establishment (FFI), p. 13. Link.
- ↑ "Islamabad Red Mosque Cleric Killed" آرکائیو شدہ 2007-07-12 بذریعہ وے بیک مشین پاکستان ٹائمز, 11 July 2007, retrieved 27 July 2009
- ↑ Farooqui، Asif (10 July 2007). "Obituary: Abdul Rashid Ghazi". BBC News.
- ↑ Qandeel Siddique, The Red Mosque Operation and Its Impact On the Growth of the Pakistani Taliban, report for Norwegian Defence Research Establishment (FFI), p. 13. Link.
- ↑ Walsh، Declan (2021). The Nine Lives of Pakistan: Dispatches from a Divided Nation. Bloomsbury Publishing. صفحات 32–33.
- ↑ Zahid Hussain, The Scorpion's Tail: The Relentless Rise of Islamic Militants in Pakistan-And How It Threatens America, Simon and Schuster (2010), p. 112
- ↑ Zahid Hussain, The Scorpion's Tail: The Relentless Rise of Islamic Militants in Pakistan-And How It Threatens America, Simon and Schuster (2010), p. 112
- ↑ Farooqui، Asif (10 July 2007). "Obituary: Abdul Rashid Ghazi". BBC News.
- ↑ Syed، Baqir Sajjad (2007-07-11). "Maulana Abdul Rashid: A Ghazi who died a 'Shaheed'". Dawn. اخذ شدہ بتاریخ 01 فروری 2021.
- ↑ Michelle Shephard (9 July 2007), "Mosque crisis highlights Pakistan's turmoil", The Star. Retrieved 4 June 2019.
- ↑ "Azam Tariq's murder could have huge repercussions". gulfnews.com (بزبان انگریزی). اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2021.
- ↑ Walsh، Declan (2020). Nine Lives Of Pakistan. صفحہ 35. ISBN 978-0-393-24991-0.
- ↑ Nadeem F. Paracha (3 November 2013), "Red handed", Dawn News. Retrieved 3 June 2019.
- ↑ Walsh، Declan (2020). Nine Lives Of Pakistan. صفحہ 35. ISBN 978-0-393-24991-0.
- ↑ "Opinion | Lessons From The Lal Masjid Tragedy". Common Dreams (بزبان انگریزی). اخذ شدہ بتاریخ 02 مارچ 2021.
- ↑ The Pulse with Jasmeen Manzoor (Maulana Ghazi Interview) (انگریزی میں)، اخذ شدہ بتاریخ 2021-05-06
- ↑ Walsh، Declan (2020). Nine Lives Of Pakistan. صفحہ 35. ISBN 978-0-393-24991-0.
- ↑ Baqir Sajjad Syed (11 July 2007), "Maulana Abdul Rashid: A Ghazi who died a 'Shaheed'", Dawn News. Retrieved 3 June 2019.
- ↑ Baqir Sajjad Syed (11 July 2007), "Maulana Abdul Rashid: A Ghazi who died a 'Shaheed'", Dawn News. Retrieved 3 June 2019.
- ↑ روزنامہ ایکسپرس، 16 جولائی 2007ء،
بیرونی روابطترميم
- بی بی سی، 10 جولائی 2007ء، Obituary: Abdul Rashid Ghazi
- روزنامہ نیشن، 11 جولائی 2007ء،آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ nation.com.pk (Error: unknown archive URL) "Abdul Rashid Ghazi"