ہم ایک شخص سے کوئی بات کہنا چاہیں اور و ہ ہمارے سامنے موجود نہ ہو تو اپنی بات اور گفتگو اُسے لکھ بھیجنا مکتوب نگاری کہلائے گا۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: ” خط دلی خیالات و جذبات کا روزنامچہ اور اسرارِ حیات کا صحیفہ ہے۔“

مکتوب نگاری ادب کی قدیم صنف ہے مگر یہ ادبی شان اور مقام و مرتبہ کی حامل کب ہوتی ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر سید عبداللہ کا خیال ہے: ”خطوط نگاری خود ادب نہیں مگر جب اس کو خاص ماحول خاص مزاج، خاص استعداد ایک خاص گھڑی اور خاص ساعت میسر آجائے تو یہ ادب بن سکتی ہے۔“

جہاں تک اردو کا تعلق ہے۔ تو اس میں بھی خطوط نویسی کا دامن بہت وسیع ہے۔ اور خطوط نویسی کی روایت اتنی توانا ہے کہ بذات خود ایک صنف ادب کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال غالب کے خطوط ہیں۔ ابو الکلام آزاد بھی مکتوب نگاری میں ایک طرز خاص کے موجد ہیں۔ مولانا کے خطوط کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں غبار خاطر” مکاتیب ابولکلام آزاد “، ”نقش آزاد“، ”تبرکات آزاد“اور ”کاروانِ خیال“ قابل ذکر ہیں۔ لیکن ان میں سب سے زیادہ شہرت ”غبار خاطر “ کے حصے میں آئی۔