مہاراشٹرا فلم کمپنی ایک بھارتی فلم پروڈکشن کمپنی تھی۔ اس کمپنی کو بابو راؤ پینٹر نے بنایا تھا۔ مہاراشٹر فلم کمپنی کا قیام 1918 میں عمل میں آیا تھا۔ یہ ایک خاموش فلم سٹوڈیو تھا۔ ساہو مہاراج کی سرپرستی یہ فلم سٹوڈیو مہاراشٹر اور مراٹھی سینما میں بانی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ساہو مہاراج کولہا پور کے مہاراجا تھے۔ اس اسٹوڈیو نے اپنی پہلی تاریخی فلم سیراندھری کو پونے میں 7 فروری 1920 کوریلیز کیا۔ آنے والی دہائی میں اس کمپنی کے مقابلے کی کمپنی دادا صاحب پھالکے کی ہندوستان فلم کمپنی تھی۔ جس نے 1931 میں ٹاکیز کے آنے تک بے شمار فلمیں بنائیں۔ مہاراشٹر فلم کمپنی 1929 میں وی شانتا رام کے چھوڑ جانے اور پرابھارت فلم کمپنی بنانے سے بیٹھ گئی اور باآخر 1931 میں بند ہو گئی۔[1][2]

تاریخ ترمیم

بابو راؤ پینٹر کے ساتھی وی شانتا رام، کیشیوراؤ دھائیبر اور قریبی ساتھی وشنو پنڈٹ ڈملے ور فتح الال (دملے ماما اور صاحب ماما) کمپنی کے اعلیٰ عہدوں پر کام کر رہے تھے۔ یہ سب لوگ بتدریج مہاراشٹر فلم کمپنی کو چھوڑ کر جانے لگے۔ 1929 میں انھوں نے پرابھارت فلم کمپنی بنا لی۔ جس کے بعد بتدریج مہاراشٹر فلم کمپنی بند ہوتی چلی گئی۔[3]

فلمیں ترمیم

سیرندھری (1920ء ) ترمیم

سیرندھری (1920ء ہندی فلم) ہدایتکار، لکھاری و سنیماٹوگرافر بابو راؤ پینٹر کی پہلی فلم تھی۔ یہ اس سال کی سب سے کامیاب فلم تھی۔ ایس فتح لال اس فلم کے معاون سنیماٹوگرافر تھے۔ فلم کے اداکاروں میں بالا صاحب یادو(بھیم)، زنزاراؤ پوار(کیچک)، کملا دیوی(سیرندھری)،کشا باپو باکرے(راجا ویراٹ)، بابو راؤ پندھاکر(شری کرشنا)، روی مہاسکر، گنپت باکرے، سشیلا دیوی، سیتا رام پنت کلکرنی، شیو رام وشیکر اور وی جی داملے شامل تھے۔ تقریباً 5 ہزار فیٹ ریل پر مشتمل اس فلم کی کہانی مہابھارت کی ایک داستان پر مبنی ہے۔ مہابھارت کے عہد میں ایک راجا ویراٹ تھا جس کی سلطنت بیراتنگر (موجودہ نیپال) میں تھی اور اس کی ایک بڑی فوج تھی۔ اگیات واس (مہابھارت میں پانڈووں کے دنیا سے کٹ کر چھپے رہنے کا دور ) کے دورا ن جب پانڈو اپنے پہلے سال راجا ویراٹ کے یہاں گزار رہے تھے۔ وہاں دروپدی سیرندھری نام کی ایک داسی کے روپ میں بادشاہ ویراٹ کی بیوی سدیشنا کی خدمت میں کام کر رہی تھی۔ راجا ویراٹ کا سالا کیچک، سیرندھری یعنی دروپدی پر بُری نظر رکھتا تھا اور سیررندھری کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا۔ ایک دن راجا ویراٹ کے محل میں کیچک نے موقع پاکر دروپدی کے ساتھ بردستی کرنے کی کوشش کی تو بھیم (پانڈوؤں میں پانچ بھائیوں میں سے ایک) نے کیچک کا قتل کرکے دروپدی کی عزت بچائی۔ اس فلم کو دوبارہ 1933ء میں وی شانتا رام نے بنایا تھا۔

حوالہ جات ترمیم

  1. Richard Abel (2005)۔ Encyclopedia of early cinema۔ Taylor & Francis۔ صفحہ: 589۔ ISBN 0-415-23440-9 
  2. Geoffrey Nowell-Smith (1996)۔ The Oxford history of world cinema۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 399۔ ISBN 0-19-811257-2۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مئی 2018 
  3. "Baburao Painter"۔ Upperstall۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مئی 2018 

بیرونی روابط ترمیم

سانچہ:Kolhapur district topics