ناصر شہزاد

پاکستانی اردو شاعر

ناصر شہزاد (پیدائش: 21 دسمبر، 1937ء - وفات: 22 دسمبر، 2007ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور شاعر تھے۔

ناصر شہزاد
پیدائشسید ناصر شہزاد
21 دسمبر 1937(1937-12-21)ء

شیخوشریف، ضلع اوکاڑہ، صوبہ پنجاب (برطانوی ہند)
وفات22 دسمبر 2007(2007-12-22) (عمر  70 سال)

ضلع اوکاڑہ،پاکستان
قلمی نامناصر شہزاد
پیشہشاعر
زباناردو
نسلپنجابی
شہریتپاکستان کا پرچمپاکستانی
اصنافغزل، دوہا، گیت
نمایاں کامچاندنی کی پتیاں
بن باس
کون دیس گئیو

حالات زندگی ترمیم

ناصر شہزاد 21 دسمبر، 1937ء کو شیخو شریف، ضلع اوکاڑہ، صوبہ پنجاب (برطانوی ہند) میں پیدا ہوئے[1][2][3]۔

ان کا وطن ساہیوال ہے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد وہ بہ سلسلہ تعلیم ساہیوال منتقل ہو گئے۔ اپنی تعلیمی منازل وہیں کے اسکول اور کالج سے طے کیے۔ ناصر شہزاد کی شاعری نسیم انور، شبنم دل اور پروفیسر صلاح الدین جیسے قابل اساتذہ کے علاوہ مجید امجد جیسے معتبر لوگوں کی صحبت میں پروان چڑھی۔

وہ غزل کے ساتھ ساتھ دوہے اور گیت نگاری میں بھی اختصاص رکھتے تھے۔ ان کے شعری مجموعے چاندنی کی پتیاں اور بن باس کے نام سے اشاعت پزیر ہوئے جبکہ مجید امجد کی شاعری اور شخصیت پر لکھی ہوئی ان کی کتاب کون دیس گئیو کے نام سے شائع ہوئی۔[1]ان کی وفات کے بعد ان کی باقیات شاعری "پکارتی رہی بنسی"کے نام سے منظرعام پرآئی۔

تصانیف ترمیم

  • بن باس (شاعری)
  • چاندنی کی پتیاں (شاعری)
  • کون دیس گئیو (تنقید)
  • پکارتی رہی بنسی(شاعری)

نمونۂ کلام ترمیم

غزل

تجھ سے ملنے کی التجا کیسیہونٹ پر آ گئی دعا کیسی
جھڑ گئے بال ڈھیلی پڑ گئی کھالدل میں اب خوشبوئے حنا کیسی
سیج کیا ہے بغیر سیاں کےپانیوں کے بناں گھٹا کیسی
کوئی ہنگامہ کوئی سر نامہورنہ اس زیست میں بقا کیسی
رشوتیں رہزنی ڈکیتی قتللگ گئی شہر کو ہوا کیسی
حرف حق ظرف کائنات بناکربلا ہو گئی کتھا کیسی[4]

غزل

حسرت عہد وفا باقی ہےتیری آنکھوں میں حیا باقی ہے
بات میں کہنہ روایات کا لطفہاتھ پر رنگ حنا باقی ہے
ابھی حاصل نہیں ظالم کو دوامابھی دنیا میں خدا باقی ہے
پاؤں کے نیچے سرکتی ہوئی خاکسر میں مسند کی ہوا باقی ہے
بیچ میں رات، بچن، بیتے ملناوٹ میں جلتا دیا باقی ہے
دیکھ یہ چاند ندی پھول نہ جارت میں رس شب میں نشہ باقی ہے[5]

وفات ترمیم

ناصر شہزاد 22 دسمبر، 2007ء کو ضلع اوکاڑہ، پاکستان میں وفات پاگئے۔[1][2][3]

حوالہ جات ترمیم