نعیم نحام رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابتدا ہی میں اسلام قبول کر لیا تھا ۔ میں مدینہ ہجرت کی ہجرت کے بعد تمام غزوات میں شریک ہوئے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ اجنادین میں شہادت پائی ۔

نعیم نحام
معلومات شخصیت
والد عبد اللہ بن اسید
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں تمام غزوات

نام ونسب ترمیم

نعیم نام، نحام لقب، نسب نامہ یہ ہے،نعیم بن عبد اللہؓ بن اسید بن عوف بن عبید بن عویج بن عدی بن کعب عدوی قرشی،نحام کے لقب کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ آنحضرت نے ایک مرتبہ فرمایا کہ میں نے جنت میں نعیم کی "نحمہ" یعنی آواز سنی اسی وقت سے نحام ان کا لقب ہو گیا۔ [1]

اسلام ترمیم

نعیمؓ نے اس وقت توحید کی دعوت پر لبیک کہا جب کل 9یا 10 بندگان خدانے اس دعوت حق کا جواب دیا تھا، حتیٰ کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس وقت تک کفر کی تاریکی میں محصور تھے،[2] لیکن اس زمانہ میں اسلام کا اظہار تعزیراتِ مکہ میں شدید ترین جرم تھا، اس لیے عرصہ تک اسلام کا اعلان نہ کرسکے، ہجرت کے اذن کے بعد جب مسلمانوں کے لیے بیت الامن مدینہ کا دروازہ کھلا تو انھوں نے بھی ہجرت کا ارادہ کیا، مگر بنی عدی کی جن بیواؤں اور یتیموں کی پرورش اور خبر گیری کرتے تھے ،انھوں نے التجا کی کہ ہم کو چھوڑ کر نہ جائیے، جس مذہب میں دل چاہے رہیے مگر جانے کا قصد نہ کیجئے،آپ سے کوئی شخص تعرض نہیں کر سکتا، پہلے ہم سب کی جانیں قربان ہوجائیں گی، اس وقت آپ کو کوئی گزند پہنچ سکے گا، اس مجبوری کی بنا پر ابتدا میں ہجرت کا شرف حاصل نہ ہو سکا،[3] امام حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے کہ حبشہ کی ہجرت میں شریک تھے؛ لیکن اور تمام ارباب سیر اس کے مخالف ہیں) لیکن یتیموں اور بیواؤں کی پرورش خود ایسی فضیلت ہے،جس کے مقابلہ میں ہجرت کی تاخیر چنداں اہمیت نہیں رکھتی۔

ہجرت ترمیم

6ھ میں اپنے چالیس اہل خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ گئے، آنحضرتﷺ نے گلے لگا کر بوسہ دیا،[4] اورفرمایا نعیم تمھارا قبیلہ تمھارے حق میں میرے قبیلہ سے بہتر تھا، انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ کا قبیلہ بہتر تھا، فرمایا یہ کیسے ؟میرے قبیلہ نے تو مجھ کو نکال دیا، مگر تمھارے قبیلہ نے تم کو ٹھہرائے رکھا، عرض کیا یا رسول اللہﷺ آپ کی قوم نے آپ کو ہجرت پر آمادہ کیا اور میری قوم نے مجھ کو اس شرف سے محروم رکھا۔ [5]

غزوات ترمیم

حضرت نعیم نحام رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ آنے کے بعد تمام غزوات میں آنحضرت کے ہمرکاب رہے۔

وفات ترمیم

بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہدِ خلافت میں اجنادین کے معرکہ میں شہادت پائی اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ 15ھ میں یرموک میں شہید ہوئے۔ [6]

اولاد ترمیم

وفات کے بعد اولادذکور میں ابراہیم اوراناث میں امہ چھوڑیں، اول الذکر زینب بنت حنظلہ کے بطن سے تھے اور ثانی الذکر عاتکہ بنت حذیفہ کے بطن سے تھیں۔ [7]

عام حالات ترمیم

نہایت فیاض،رحم دل، یتیموں کا ملجا،بیواؤں کا ماوی اور غریبوں کے مددگار تھے،بنی عدی میں یتیموں اور بیواؤں کے علاوہ اور جس قدر فقراء تھے،ان سب کو مہینہ مہینہ کرکے کھانا کھلاتے تھے۔ [8]

حوالہ جات ترمیم

  1. (مستدرک حاکم :3/259)
  2. (استیعاب:1/311)
  3. (اسد الغابہ:5/33،
  4. (ابن سعد،جلد4،ق1:102)
  5. (اصابہ:6/48)
  6. (اسد الغابہ:5/34)
  7. (ابن سعد،جزو4،ق 1:102)
  8. (ابن سعد،جزو4،ق1:102)