نوشی گیلانی

اردو زبان کی شاعرہ

نوشی گیلانی پاکستان سے تعلق رکھنے والی اردو زبان کی نامور شاعرہ ہیں۔ ان کا اصل نام نشاط گیلانی ہے۔ وہ 14 مارچ 1964 میں پاکستان کے شہر بہاولپور کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔[1] اُن کے والد مسعودگیلانی پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے۔ نوشی نے اپنی تعلیم بہاولپور میں ہی مکمل کی۔ انھیں بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا۔ ان کا پہلا مجموعہ "محبتیں جب شمار کرنا" منظرِ عام پرآیا تو اسے خوب پزیرائی حاصل ہوئی۔ 1995 میں نوشی کی شادی فاروق طراز کے ساتھ ہوئی اور وہ سان فرانسیسکو، امریکا چلی گئیں۔مگرکچھ عرصے بعد اُن سے علیحدگی ہو گئی۔نوشی اسلامیہ یونیورسٹی بہالپور میں اردو کی اُستاد کی حیثیت سے کام کرتی رہیں 1997 میں نوشی کا دوسرا مجموعہ "اداس ہونے کے دن نہیں" منظرِ عام پر آیا۔25 اکتوبر 2008 میں نوشی سڈنی میں مقیم اردو سوسائٹی آف آسٹریلیا کے سابق جنرل سیکرٹری سعید خان(جو خود بھی شاعر ہیں) کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور سڈنی،آسٹریلیا چلی گئیں۔[2]

نوشی گیلانی
معلومات شخصیت
پیدائش 14 مارچ 1964ء (60 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہاولپور،  پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد ایم اے  ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

انھوں نے پاکستانی گلوکار پٹھانے خان کو خراجِ تحسین پیش کیا جسے پاکستان نیشنل کونسل آف دا آرٹ(PNCA) نے اسپانسر کیا۔ امریکا میں قیام کے دوران ان کے تجربات و مشاہدات بھی ان کی شاعری سے جھلکتے ہیں۔ "ہوا" اور "محبت" کے الفاظ مضبوط استعارے کے طور پہ ان کی شاعری میں بہت استعمال ہوئے ہیں۔اسی بنا پر انھیں ہوا کا ہم سُخن بھی کہا جاتا ہے۔[3]

ان کی شاعری کے سات مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی بہت سی نظموں کے انگریزی،ملائی اور یونی زبانون میں ترجمے بھی ہو چکے ہیں۔نوشی گیلانی نے آسٹریلین شاعر Les Murray کی شاعری کو اردو میں ترجمہ کیا ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے خود بھی انگریزی میں شاعری(7) کی ہے۔ان کی مشہور نظم ہے،"To Catch Butterflies". نوشی گیلانی اردو اکیڈمی آسٹریلیا کی شریک بانی بھی ہیں جس کی بنیاد 2009 میں رکھی گئی۔ یہ اکیڈمی اردو شاعری و ادب کی ترویج کے لیے ہر ماہ سڈنی میں ایک نشست کا اہتمام کرتی ہے۔ ان کی نئے مجموعہ "ہوا چپکے سے کہتی ہے"(2011) کو اس قدر پزیرائی ملی کہ اردو بازار میں آنے کے دو گھنٹوں میں ہی پہلا ایڈیشن لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ خرید لیا۔

اعزازات ترمیم

  • خواجہ فرید ایوارڈ [4]

تصانیف ترمیم

نوشی گیلانی کی شائع ہونے والی کتابیں درج ذیل ہیں۔

1:محبتیں جب شمار کرنا (1993)

2:اداس ہونے کے دن نہیں(1997)

3:پہلا لفظ محبت لکھا(2003)

4:ہم تیرا انتظار کرتے رہے (2008)

5:نوشی گیلانی کی نظمیں(2008)

6:اے میرے شریکِ رسال جاں (2008)

7: ہوا چپکے سے کہتی ہے (2011)

اشعار ترمیم

اس شہر میں کتنے چہرے تھے کچھ یاد نہیں سب بھول گئے

اک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہوا

بند ہوتی کتابوں میں اڑتی ہوئی تتلیاں ڈال دیں

کس نے رسموں کی جلتی ہوئی آگ میں لڑکیاں ڈال دیں

میں تنہا لڑکی دیار شب میں جلاؤں سچ کے دیے کہاں تک

سیاہ کاروں کی سلطنت میں میں کس طرح آفتاب لکھوں

ہمارے درمیاں عہدِ شبِ مہتاب زِندہ ہے

ہَوا چْپکے سے کہتی ہے ابھی اِک خواب زِندہ ہے

نوشی گیلانی کی ایک نظم ترمیم

ہوا کو آوارہ کہنے والو

کبھی تو سوچو، کبھی تو لکھو

ہوائیں کیوں اپنی منزلوں سے بھٹک گئی ہیں

نہ ان کی آنکھوں میں خواب کوئی

نہ خواب میں انتظار کوئی


اب ان کے سارے سفر میں صبح یقین کوئی

نہ شام صد اعتبار کوئی

نہ ان کی اپنی زمین کوئی نہ آسماں پر کوئی ستارہ

نہ کوئی موسم نہ کوئی خوشبو کا استعارہ

نہ روشنی کی لکیر کوئی، نہ ان کا اپنا سفیر کوئی


جو ان کے دکھ پر کتاب لکھے

مسافرت کا عذاب لکھے

ہوا کو آوارہ کہنے والو

کبھی تو سوچو!

بیرونی روابط ترمیم

حوالہ جات ترمیم