وارڈر کریسن (جولائی 13، 1798ء - 6 نومبر، 1860ء) یروشلم میں پہلا امریکی قونصل تھا۔ اسے 1844ء میں مقرر کیا گیا تھا۔ [2]

وارڈر کریسن

زندگی اور کام ترمیم

وارڈر کریسن (بعد ازاںمیکوئل بواز یسرویل بن اوراہام) فلاڈیلفیا ،پنسلوانیا میں ، کویکر خاندان میں پیدا ہوا۔ [3] وہ پیری کیرسن کی نسل سے تھے جو ہرلیم، نیا یارک میں آکر آباد ہوئے،جس کا پوتا سلیمان، 18ویں صدی کے آغاز میں فلاڈیلفیا ہجرت کر گیا تھا۔ وارڈر کریسن کے والد، جان ایلیٹ کریسن (1773ء–1814ء) نے 1795ء میں مریم وارڈر سے شادی کی۔

1830ء میں اس نے ایک کتابچہ بانی کے ’’عظیم بابل گررہا ہے ‘‘نے کا شائع کیا۔ ستارہ صبح یا عالی روشنی ، جس میں انھوں نے وقت کے بدترین اور برے رجحانات کی مذمت کی اور تمام کویکروں کو بہتر اور کم گمراہ کن زندگی گزارنے کی نصیحت کی۔ وہ سخت اندرونی مذہبی خلفشار سے گذرے، حق کی تلاش میں وہ بہت سے فرقوں میں شامل ہوا۔

1840ء میں، اس نے اسحاق لیسرسے ملاقات کی اور اس کی یہودیت میں گہری دلچسپی ظاہر کی۔ وارڈر کریسن کو موردیکائی مینوئل نوح کی تحریروں نے اثر انداز کیا ، جو اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ یہودی جلد ہی اپنے قومی وطن فلسطین میں رہیں گے۔ [4]

17 مئی، 1844ء کو، اس کا تقرربطور امریکی ایلچی (کونسل) یروشلم ہوا ، اس منصب پر فائز ہونے والا وہ پہلا شخص تھا ۔ تاہم، اس تقرر کو اس کے یروشلم میں پہنچنے سے قبل ہی منسوخ کر دیا گیا، جو اس کے لیے ناقابل فہم تھا ۔ وہ یروشلم روانگی کا ذکر یوں کرتا ہے۔

’’ میں نے 1844ء کے موسمِ بہار میں دنیا میں اپنی تمام ہردلعزیز اشیاء چھوڑ دیں۔ میں نے اپنی نوجوانی کی بیوی اور چھ پیارے بچے (مجھے میری زندگی سے زیادہ پیارے)چھوڑ دئے اور میری آسائش و سکون کی تمام اشیاء کا حامل بہترین مزرع (فارم) چھوڑ دیا۔ میں نے اس سب کو حق کی جستجو میں اور صرف حق کی خاطر چھوڑا۔‘‘

روانگی سے قبل وہ فلاڈیلفیاء کے مضافاتی علاقے گوائینیڈ میں زراعت میں مصروف رہا۔

وہ یروشلم کے گردوپیش سے بہت متاثر ہوا اور یہودیت کی جانب مائل ہوا، اس نے اپنا نام میکوئل بواز یسرویل رکھا۔ 1844ء–1848ء میں، وہ اسحاق لیسر کے جریدے اوسیڈینٹ (المغرب) کے لیے اکثر لکھتا، جس میں اس نے یہود میں عیسائیت کے فروغ کے لئے لندن انجمن کی تبلیغی تدابیر پر تنقید کی تھی۔

دورانِ قیام یروشلم میں وہ سفاردی طبقے کے قریب تر ہوتا گیا۔ وہ حاکھام(اردو مساوی:مولانا) یہییل کوہن اور اگلے سربراہ ربی، الیاشار کا دوست بنا۔ 1848ء میں، اس نے قبول یہودیت کی کوشش کی۔ اس سال مارچ میں، اس کا ختنہ کیا گیا اور یہودی ہوا۔ وہ ستمبر 1848ء میں اپنے معاملات کا بندوبست کرنے اور یروشلم میں مستقل نقل مکانی کے لیے فلاڈیلفیا واپس آ گیا ۔

اس کے خاندان نے اسے اپنے عزائم پورے کرنے سے روکنے کی کوشش کی اور دعوی کیا کہ اس نے اپنی عقل کھو دی ہے۔ اس کے اپنے بیٹے کے سوا سب سے رنجش پیدا ہوئی۔ مئی 1849ء میں، اس کی بیوی، الزبتھ ٹاؤنسینڈ اور اس کے بیٹے یعقوب نے عدالت میں درخواست کی اور اس کو پاگل قرار دیا۔ [3] اس نے اس فیصلے کیخلاف اپیل کی اور 1851ء میں چھ دن تک مقدمہ چلتا گیا، یہ مقدمہ اپنے وقت میں بہت مشہور ہوا۔ دونوں فریقین کی جانب سے نامور وکیل کیے گئے اور تقریبا سو گواہوں کو بلایا گیا۔ نچلی عدالت کا فیصلہ بدلایا گیا تھا اور کیریسن کو الزامات سے بری کیا گیا ۔ اس کے وکلا میں سے ایک، ہوراشیو ہبل اصغرکے دلائل اسحاق لیسر کے تبصرے کے ساتھ 1863 ء میں اسحاق لیسر کے جریدے اوسیڈینٹ (المغرب) ،میں شائع ہوئے تھے۔

فلاڈیلفیا میں اپنے قیام کے دوران وہ کنیسہمیکوی اسرائیل میں باقاعدگی سے حاضری دیتا، یہودی سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتا اور یہودی شریعت پر سختی سے عمل پیرا ہوتا۔ اس نے ’’ جریدے اوسیڈینٹ (المغرب) ‘‘ کے لیے لکھا اور1851 ء میں، کلیدِ داؤد کلید شائع کی : داؤد سچا مسیحا یا یعقوب کے خدا کا وقف کردہ ۔

  1. "ترجمہ سکھلائی" 
  2. "Former Principal Officers and Consuls General"۔ Consulate General of the United States - Jerusalem۔ 21 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  3. ^ ا ب "Warder Cresson"۔ www.jewishvirtuallibrary.org 
  4. "Warder Cresson: From Shaker to Quaker to Orthodox Jew" (PDF)۔ stevens.edu