روحانی اقدار،خوش کلامی، حوصلہ افزائی اجیسے طریقوں کے استعمال پر مبنی طریقہ علاج کو پالیاٹو تھراپی کہتے ہیں۔ اس کے طبی سوالنامے اور معیارات بھی بن چکے ہیں۔[1]

ماہرین کا ایک بڑا گروہ اب اس موضوع کو سائنس کے دائرے میں لے کر آیا ہے جسے مدت سے سائنس کا مخالف سمجھا جاتا رہا تھا

جرنل JECC ہارٹ فیلور میں شائع ہونے والی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق روحانیت دل کی ناکامی کے مریضوں کے معیار زندگی کو بہتر بنا سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسے مریضوں کے علاج میں روحانی مشق کو حصہ بنا کر انفرادی مریضوں کے لیے بہت سے فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

ڈیوک یونیورسٹی ہسپتال کی ڈاکٹر ریچل ایس ٹوبن کا کہنا ہے کہ دل کی ناکامی کے مریضوں کی زندگی دوسروں کی نسبت زیادہ مشکل ہو سکتی ہے کیونکہ دل کی خون پمپ کرنے کی صلاحیت شدید متاثر ہوتی ہے اور معمولات متاثر ہوتے ہیں۔ مریض مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں، تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں اور خود کو حقیر سمجھتے ہیں۔

امریکن کالج آف کارڈیالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دل کے مریضوں کو ان کے مذہبی عقائد کے لحاظ سے اللہ سے امید رکھنی چاہیے۔ اس سے انھیں ہمت اور امید ملتی ہے۔

تجزیاتی تحقیق میں کل 47 تحقیقی مضامین اور سروے کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کچھ سائنسدانوں نے ایسے آلات کا بھی ذکر کیا ہے جن کی تعداد 10 کے قریب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ آلات روحانیت کے درجات کی پیمائش کرتے ہیں۔

ایک سروے میں، 12 ہفتوں کے لیے ای میل کے ذریعے ایسے مریضوں سے سوالنامے پُر کروائے گئے جنہیں روحانیت سے مدد طلب کرنے کو کہا گیا تھا۔ پچاسی فیصد شرکاء نے بامعنی زندگی، خدا پر بھروسا اور روحانی مدد کو مفید پایا۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس سے ان کا ڈپریشن کم ہوا ہے اور انھیں سکون ملا ہے۔[2]

حوالہ جات ترمیم