مشہور شاعر، افسانہ نگار، کہانی کار اور ماہر تعلیم

پیدائش ترمیم

19 جنوری 1927ء کو لاڑکانہ کے مشہور قادری خاندان میں پیدا ہوئے۔[1]

والد ترمیم

آپ کے والد کا نام فقیر غلام سرور قادری تھا۔ وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ انھوں نے صحافت کے میدان میں بے شمار خدمات انجام دیں اور ہفتہ وار اخبار "الحقیقت" نکالا۔

تعلیم ترمیم

ایاز قادری نے لاڑکانہ مدرسہ ہائی اسکول سے گریجویشن کیا اور کراچی سے گریجویشن کیا۔ اے (آنرز)، ایم۔ اے (فارسی)، ایم۔ اے (سندھی) اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ انھوں نے علامہ غلام مصطفیٰ قاسمی کی نگرانی میں سندھی غزل پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

تدریس ترمیم

ایاز قادری- 1950ء سے 1970ء تک کراچی میں لیکچرار تھے۔ 1971ء میں وہ کراچی یونیورسٹی کے سندھی ڈیپارٹمنٹ کے پہلے چیئرمین مقرر ہوئے اور دس سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔ وہ جامعہ کراچی میں ’’شاہ لطیف چیئر‘‘ کے بانی ڈائریکٹر بھی تھے۔

ادبی زندگی ترمیم

ان کی یادگار تصنیف پروفیسر سید وقار رضوی کے تعاون سے شاہ لطیف کی مکمل نظم کا نثری اردو ترجمہ ہے، جسے اکادمی ادبیات پاکستان نے چار جلدوں میں شائع کیا ہے۔ انھیں اردو، سندھی اور فارسی زبانوں کا اچھا علم تھا۔ ڈاکٹر صاحب ان کی شاعری کا ایک مجموعہ مرتب کر رہے تھے لیکن زندگی نے ان کا ساتھ نہ دیا جسے حال ہی میں ان کے بھتیجے ذو الفقار قادری نے ایڈٹ کر کے 2007ء میں ’’زلف ایاز‘‘ کے نام سے شائع کیا۔

ایاز قادری نے شعر گوئی کا آغاز 1946ء میں کیا ،جب کہ فکشن 1954ء سے لکھنا شروع کردی، ان کی کہانی بلو دادا مقبول ہوئی ۔ افسانے اور کہانیاں ملا کر بلو دادا کے نام سے ان کی پہلی کتاب 1957ء میں شایع ہوئی جسے سندھی ادب میں ایک بہترین اضافہ قرار دیا گیا۔ سندھ کی عظیم شخصیت غلام مصطفی شاہ کی زندگی پر انگریزی میں بھی کتاب لکھی۔ ایاز کا کیا ہوا ترجمہ میکسم گورکی کی کتاب My Childhood, My Universitiesجی اے الانہ کی انگریزی میں لکھی ہوئی کتاب Freedom Fithters، Dangerous Stories Pakistani Culture، History of Karachi Universitiy اور شاہ جو رسالو کا اردو میں ترجمہ شامل ہیں جنھیں ہم بھلا نہیں سکتے۔[2] 1950ء کی دہائی میں ڈاکٹر ایاز قادری اپنی رہائش گاہ پر ’سندھی لٹریری سوسائٹی‘ کے ہفتہ وار ادبی اجلاس منعقد کیا کرتے تھے۔ وہ تقسیم ہند کے بعد 'سندھی ادبی سنگت' کے پہلے سیکرٹری جنرل بنے۔ ڈاکٹر صاحب جمعیت الشعراء سندھ کے بانی رکن بھی تھے۔ وہ سندھی کے چوٹی کے افسانہ نگاروں میں سے ایک تھے۔ ان کی منتخب کہانیوں کا مجموعہ ’’بلو دادا‘‘ 1956ء میں شائع ہوا جس کے بعد دیگر ایڈیشن بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ایاز قادری نے میکسم گورکی کے مشہور ناول ’آٹو بائیوگرافی‘ کی دو جلدوں کا سندھی میں ترجمہ بھی کیا، جنہیں سندھی ادبی بورڈ نے شائع کیا۔ ان کا تحقیقی مقالہ 'سندھی غزل جی - اوسر' دو جلدوں میں شائع ہو چکا ہے۔ ان کی کتاب نہ صرف سندھی شاعری کی ایک جامع تاریخ ہے بلکہ سندھی شاعروں کا ایک مستند ریکارڈ بھی ہے جو تین صدیوں پر محیط ہے۔ الانا کی انگریزی زبان کی کتاب کا سندھی میں 'آور لیڈرز آف فریڈم' (1980ء) کے عنوان سے ترجمہ کیا گیا۔ان کی دیگر کتابوں میں 'مٹے لدھو منو' (1970ء)، 'عشقیہ داستان' (1985ء) اور 'پریوں کی کہانیاں' شامل ہیں۔ (لوک ادب: 1981ء) مثالی ہیں۔[3]

وفات ترمیم

ڈاکٹر ایاز قادری 15 دسمبر 1997ء کو انتقال کر گئے اور ان کی تدفین ان کے آبائی گاؤں لاڑکانہ میں ہوئی۔[4]

  1. https://sindhsalamat.com/threads/45054/
  2. https://www.express.pk/story/2031218/268
  3. https://sindhsalamat.com/threads/45054/
  4. https://www.express.pk/story/2031218/268