پروفیسر محمد حسین آسی
ممکن ہے یہ مضمون فوری حذف شدگی کے معیار کے مطابق ہو کیوں کہ: معروف۔ اصولی معیار کے لیے فوری حذف شدگی کے معیار ملاحظہ فرمائیں۔
اگر یہ مضمون فوری حذف شدگی کے معیار کے مطابق نہیں ہے یا آپ اس میں درستی کرنا چاہتے ہیں تو اس اطلاع کو ہٹا دیں، لیکن اس اطلاع کو ان صفحات سے جنہیں آپ نے خود تخلیق کیا ہے نہ ہٹائیں۔ اگر آپ نے یہ صفحہ تخلیق کیا ہے اور آپ اس نامزدگی سے متفق نہیں ہیں، تو ذیل میں موجود بٹن پر کلک کریں اور وضاحت فرمائیں کہ اس مضمون کو کیوں حذف نہیں کیا جانا چاہیے۔ بعد ازاں آپ براہ راست تبادلۂ خیال صفحہ پر جاکر دیکھ سکتے ہیں کہ آپ کے پیغام کا کوئی جواب دیا گیا ہے یا نہیں۔ خیال رہے کہ جن صفحات میں یہ ٹیگ چسپاں کردیا جاتا ہے اور وہ حذف شدگی کے معیار کے مطابق ہو یا اس کے تبادلۂ خیال صفحہ پر اسے باقی رکھنے کی ناکافی وجوہات بیان کی گئی ہو، تو اسے کسی بھی وقت حذف کیا جاسکتا ہے۔ منتظمین: روابط، تاریخچہ (آخری ترمیم) و نوشتہ جات کی قبل از حذف جانچ کی گئی۔ گوگل کی پڑتال کے وقت ان کو ذہن میں رکھیں: ویب، تازہ ترین۔
|
پروفیسر محمد حسین آسی نقشبندی قادری ،سن1939ء کو ایک خوبصورت وادی موضع بُکْنُور (بُقعۂ نور ) تحصیل پٹھانکوٹ ضلع گورداسپور (انڈیا) کے ایک صوفیانہ گھرانہ میں پیدا ہوئے۔ والد محترم نے اپنے پیر سید جماعت علی شاہ سے اپنے نور ِنظر کا نام پوچھا، تو جواب ملا"محمد حسین"، "محمد حسن " جماعت علی شاہ ایسے صاحب ِنظر تھے کہ جن سے کوئی پوشیدہ نہ تھی ۔ ہمیشہ دیکھنے میں آیا ہے کہ آپ نےجتنے نام بتائے اللہ تعالٰی نے اتنے ہی بیٹے عطا فرمائے۔اللہ کے عظیم ولی کامل کی مبارک زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ دراصل ایک بشارت ہی تھی کہ تین چار سال بعد آپ کے چھوٹے بھاٰئی محمد حسن رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ہوئی جو کہ دس ماہ کی عمر مبارک میں ہی وصال کرگئے۔[1]
ہجرتترميم
14 اگست 1947ء کی مبارک صبح جب ملک خداداد پاکستان صفحۂ ہستی پہ رونُما ہوا تو اس وقت آپ کی عمر مبارک تقریباآٹھ سال تھی۔ آپ نے اس معصومانہ عمر میں ہجرت کی صعوبت برداشت کی اور اسکی خونیں احوال کا بخوبی مشاہدہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ہمہ وقت پاکستان کی سالمیت کیلئے دعا گو اور اپنے زمانہ میں دو قومی نظریہ کے بہت بڑے محافظ رہے۔آپ اپنے والدین کریمین کے ہمراہ ہجرت کر کے موضع پھگواڑی تحصیل شکرگڑھ میں قیام فرما ہوئے موضع پھگواڑی شہر شکرگڑھ سے جانب مشرق تقریبا پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔[2]
تعلیم وتربیتترميم
آپ رحمۃ اللہ علیہ نےابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد گرامی علیہ الرحمۃ سے حاصل کی ۔اپنی ابتدائی تعلیم کے حوالے سے آپ ارشاد فرماتے ہیں "کہ میرے والد محترم چوہدری محمد مقبول مرحوم میرے استاد بھی تھے۔ تاجدار فقر و رضا اعلیحضرت پیر سید جماعت علی شاہ لاثانی قدس سرہ کے مرید صادق اور آپ کے اولین سجادہ نشین پیر سید علی حسین شاہ نقش لاثانی قدس سرہ کے پروردہ فیض تھے۔پیر خانے سے انہیں جو سب سے بڑی دولت ملی تھی وہ محبت رسول پاک علیہ افضل الصلوة والسلام کی متاع لازوال تھی،فرائض منصبی کے علاوہ اسکول اور گھر میں اکثر ان کی محفلِ احباب گرم رہتی تھی۔ فارسی اور اردو پر خاصا عبور تھا، حضرت مولانا روم ،شیخ سعدی، نظامی گنجوی، خواجہ حافظ شیرازی، حضرت علامہ اقبال علیہم الرحمة کا اکثر نعتیہ کلام انہیں ازبر تھا، پڑھتے وقت ان پر بھی وجد طاری ہو جاتا تھا اور سننے والے بھی(جن میں بعض ان پڑھ بھی ہوتے تھے)جهومتے تھے یوں تو ان کے چھوٹے بڑے بیسیوں شاگرد تھے مگر لخت جگر ہونے کی وجہ سے مجھے انکی صحبت میں رہنے کا زیادہ شرف ملا اگرچہ اپنی قلتِ استعداد سے ان کے علم وفضل، زہد و ورع ،جودوسخا اور سادگی و بے نفسی کا وارث تو نہ بن سکا تاہم ان کی ذوقِ نعت کی چندجھلکیاں ضرور طبیعت کا حصہ بن گئیں"۔[3]اپنی بے مثال تصنیف "سیرت حضور نقش لاثانی" میں رقمطراز ہیں ۔"والد ماجد اردو اور فارسی کے مایہ ناز فاضل تھے بلکہ ایک صوفئ باصفا کے رنگ میں زاہد شب زندہ دار اور شرع و طریق کے ماہر اسرار بھی تھے۔ وہ سخاوت کے دھنی دل کے غنی اور سادگی اور اخلاص کا پیکر تھے۔ اعلیحضرت شہنشاہ لاثانی اور حضور نقش لاثانی کے دلدادہ تھے۔ان دونوں مقدس شخصیات کا ذکر اس ذوق و شوق سے فرماتے کہ سننے والوں کے دل و دماغ بھی اس میں شمیم محبت سے معطر ہو جاتے" [4]آپ کی والدہ ماجدہ نہایت زاہدہ ،عابدہ ، شب زندہ دار ،پاکبازاور سخاوت شعار خاتون تھیں ۔ والدہ محترمہ کے فیض ِ تربیت نے آپ کی شخصیت میں بہت نکھار پیدا کیا۔آپ نے مڈل تک کی تعلیم اپنے گاؤں پھگواڑی میں حاصل کی ۔مزید تعلیم کے لئے ڈی بی ہائی سکول شکر گڑھ میں داخلہ لیا جہاں علاقے کے نامور شاعر مولانا نور عالم خالد اور بلند پایہ شاعر ہیڈ ماسٹر چوھدری غلام حسن طور مرحوم سے اکتساب کیا ۔ مولانا نور عالم خالد مر حوم جن کی شاعری کے میدان میں نعت کی گونج زیادہ تھی۔ فروری 1954ء میں اینگلوروینکلر امتحان پاس کیا ۔ اور 1956 ء میٹرک کا امتحان پاس کیا۔19 رمضان المبارک 1376ھ بمطابق 30 اپریل 1956ء والد گرامی کا وصال ہوگیا ان کی وفات حسرت آیات کے ایک مہینہ بعد میٹرک کا رزلٹ آیا تو جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ میں داخلہ لے لیا ۔ایف اے کا امتحان1958ء میں پاس کیا یہ حضور نقش لاثانی قدس سرہ کی کرامت تھی کہ لاہور بورڈ میں جو اس وقت تقریبا پورے مغربی پاکستان تک پھیلا ہوا تھا ایک نمبر سے دوسری پوزیشن حاصل کی ۔[5]اس کے بعد 1960ء میں جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ سے بی اے کیا ۔اور پھر 1961ء میں سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے بی ایڈ کی ڈگری حاصل کی ۔ اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے دو مختلف مضامین اسلامیات اور اردو میں ایم اے کیا۔[6]
بیعتترميم
حضور مفکّرِ اسلام رحمۃ اللہ علیہ اپنی بے مثال تصنیف "سیرت حضور نقشِ لاثانی " اپنی بیعت کی بابت فرماتے ہیں۔"جولائی ۱۹۵۲ء کا وہ دن کتنا عظیم و مبارک تھا جب نوشتۂ بزم علی پور، پاسبان شریعت و طریقت ، تاجدار حقیقت و معرفت ، شہنشاہ اقلیم ولایت، قاسم زہدوسعادت اعلیٰحضرت سرا پا برکت الحاج پیر سید علی حسین شاہ صاحب نقشِ لاثانی قدس سرہ ہم فقیران ِبے دست و پا کو نوازنے کے لئے موضع پھگواڑی(تحصیل شکر گڑھ )میں جلوہ فرما ہوئے ۔ اللہ! اللہ بقول غالب
وہ آئیں گھر میں ہمارے، خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم اُن کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں!
حضور اس سے پہلے بھی کئی بار قدم رنجہ فرما چکے تھے بلکہ تقسیمِ برعظیم سے قبل بُکْنُوْر( بُقعۂ نور) تحصیل پٹھانکوٹ ضلع گورداسپور جہاں سے ہم ہجرت کر کے یہاں (پھگواڑی میں )آئے تھے، کو بھی بار ہا آپ کی اور اس سے پہلے آپ کے جِدِامجد قطب الاقطاب، غوث الاغیاث ، مخدوم الاولیاء، مقدام الاصفیاء، فخر اعصار ودہور حضور پُر نور پیر سید جماعت علی شاہ صاحب لاثانی علیهما الرحمة والرضوان کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہو چکا تھا۔ میرے نانا چو دھری علی محمد مرحوم حضور شہنشاہ لاثانی کے خاص خادم و مقرب تھے اور والدین سمیت سارا خانوادہ حلقۂ ارادت میں شامل تھا۔ مگر آج حضور نقش لاثانی قدس سرہ کی تشریف آوری خصوصا میرے لئے باعث صد ہزار برکت ثابت ہوئی۔ مجھے دراصل ایک عرصے سے (کہیں نہ کہیں )مرید ہونے کا بہت شوق تھا اور میرے والد مرحوم بھی اس بیتا بئ ِ دل سے آگاہ تھے۔ غریب خانے پر جہاں احباب واقارب کا جمگھٹا رہتا تھا، وہیں وہ پیر حضرات بھی جن کے والد ماجد کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے، اکثر و بیشتر آتے رہتے تھے۔ مجھے ایسے نا سمجھ شائقین اگر مناسب رہنمائی سے محروم رہیں تو کسی تاریک گڑھے میں بھی گر سکتے ہیں۔ چنانچہ والد ماجد نے حضور پر نورعلیٰحضرت نقش لاثانی قدس سرہ کے قدومِ میمنت کو غنیمت جانا اور چاشت کے وقت جب کئی اور خوش نصیب حضرات بھی طوقِ غلامی کو اپنے گلے کی زینت بنا رہے تھے، مجھے بھی اس شہباز طریقت کی خدمت میں پیش کر دیا۔ تو سرکار رحمہ اللعلمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وارثِ رحمت نے اس محتاجِ رحمت کو سایۂ رحمت میں لے لیا اور چرخِ ولایت کے آفتاب نے اس ذرۂ تاریک کو نسبتِ نقشبندیہ کے نور سے نواز دیا۔ سیدنا حضرت مجددالف ثانی رضی اللہ عنہ کے ارشادات کی روشنی میں یہ میری ولادتِ روحانی کا دن تھا اور گویا اسی سے میری اصل زندگانی کا آغاز ہوا۔ "[7]
خلافتترميم
مشائخ عظام پہلے سالکین کو مراتب و مدارج ِسلوک طے کرواتے ہیں ، ان کی روحانی پرورش کرتے ہیں ۔پھر کوئی خوش نصیب ہوتا ہے جسے کامل شیخ اپنے سلسلہ کی اجازت عطا فرماتے ہیں ۔ شیخ کریم حضور نقش ِلاثانی رحمۃ اللہ علیہ کی توجہ وبرکت سے حضور مفکر اسلام رحمۃ اللہ علیہ اس حوالے سے بھی بہت بے مثال ہیں ، کہ آپ اپنے ازلی جوہر ولایت کی وجہ سے بچپن میں ہی نگاہِ شیخِ کریم کے اسیر ہوگئے ،1956ء کی بات ہے کہ ابھی آپ کا میٹرک کا نتیجہ نہیں آیا تھا کہ والدِ ماجد رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوگیا ۔تو شیخ ِ کریم نے اپنی آغوشِ محبت اور سایۂ عاطفت میں لیکر اپنے نور ولایت سے آپکی ظاہری و باطنی پرورش کرتے ہوئے آپ کو تمام علوم ومعارف فضائل وکمالات عطاکرکے آپ کو ہر جہت ہر وصف میں ممتاز، کامل ، اکمل بلکہ مکمل کردیا، آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ گرامی ہے جنہیں یہ کہا جائے " پروردۂ آغوشِ ولایت" کہ فارسی مصرع ہے 'جااینجااست' (یہی تو جگہ ہے)آپ مرید ہی نہیں بلکہ اپنے شیخ کی مراد بھی تھے۔ 2 اکتوبر 1986 کو سالانہ عرس مبارک کی تقریب میں شیخ کریم نے سب سے پہلے آپ کو دستارِ خلافت عطا فرمائى اور تمام سلاسل میں بیعت لینے کی اجازت مرحمت فرمائى۔ یوں آپ اپنے شیخ کے خلیفۂ اعظم کہلائے۔[8]
تدریسی خدماتترميم
حضور مفکر اسلام رحمۃ اللہ علیہ نے تقریباً ۳۹ سال تدریس کے فرائض سر انجام دیئے۔ ۱۹۶۱ء میں اشاعت اسلام ہائی سکول شکر گڑھ میں شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہوئے ۔ تاہم ۳ جنوری ۱۹۶۲ء کو گورنمنٹ سروس کا با قاعدہ آغاز گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری سکول سیالکوٹ سے ہوا ۔ مئی ۱۹۶۳ء میں گورنمنٹ ہائی سکول چک ڈی بی تحصیل منڈی یزمان ضلع بہاولپور تبادلہ ہو گیا۔ دو تین ماہ رہنے کے بعد نور پور نورنگا (بہاولپور) تشریف لائے ۔ تقریب چھ ماہ گورنمنٹ ہائی سکول ڈسکہ بھی تعینات رہے۔ ۱۹۶۵ ء میں پنڈی بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ میں قلیل عرصہ اے ای او کے فرائض سرانجام دیئے ۔ ۱۹۶۶ء تا ۱۹۶۸ ء قریباً پونے دو سال گورنمنٹ ہائی سکول علی پور چٹھہ سے وابستہ رہے۔ بعد ازاں مارچ ۱۹۶۸ء میں گورنمنٹ ہائی سکول شکر گڑھ تبادلہ ہوا۔ ساڑھے سات سال شکر گڑھ میں قیام رہا۔ نومبر ۱۹۷۵ء میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ میں بطور لیکچرر تقرر ہوا۔ پندرہ سال شہر خودی میں قیام رہا۔ بالآخر اکتوبر 1990ء میں گورنمنٹ ڈگری کالج شکر گڑھ تشریف لائے اور یکم جنوری ۲۰۰۰ء کو ریٹائر ڈ ہوئے۔[9]شعبۂ تدریس سے وابستگی سے لیکر وصال مبارک تک آپ نے ہزاروں طلباء کی نہ صرف قیام وطعام کیساتھ ساتھ تعلیمی اخراجات برداشت کیے بلکہ انہیں دینی و عصری تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کیا ۔ آپ کے تربیت یافتگان اور صحبت سے مشرف رہنے والوں نے آگے چل کر تقریر اور تصنیف وتالیف کے میدان میں بہت زیادہ دین کی خدمت کی۔ اور آپ کے فیض یافتگان ابھی آپ کے مشن کو وظیفۂ حیات بنائے ہوئے ہیں ۔
شاعریترميم
حضور مفکّرِ اسلام رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانے میں نعتیہ شاعری کے وسیع میدان میں امام مانے جاتے تھے ، بہت سے بڑے بڑے شعراء اپنے کلام کو اصلاح کیلئے آپکے خدمت میں پیش کرتے ،آپ نے فنِ شاعری کی تقریباً ہر صنف و بحر میں بہت سی حمد یں اور نعتیں لکھیں جنہوں نے پوری دنیا میں بہت شہر ت اور قبولیت حاصل کی اسکے علاوہ آپکی شاعری اہل بیت وصحابہ کرام علیھم الرضوان اور اولیاء ِ امت کے مناقب عالیہ پر مشتمل ہے۔آپ نے حمد و نعت کے میدان میں ایک نئی صنف کو متعارف کروایا جس میں حمد ونعت کو ایک ہی کلام میں متحد کرکے پیش کیا جس کی مثال آپ سے پہلے نظر نہیں آتی ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کوئی روایتی اور تخیلاتی ، شاعر نہیں ، بلکہ آپکی شاعری اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی نعتیہ شاعری کی طرز پہ تحقیقی اور قرآن و حدیث کے دلائل سے مزین ہے۔
مصنفِ کتبِ کثیرہ فیض ِ ملت علامہ فیض احمد اویسی صاحب رحمۃ اللہ علیہ(بہاولپور ) اپنی کتابوں میں جگہ جگہ حضور مفکر اسلام رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار یوں عقیدت سےذکر کرتے ہیں کہ"اس مقام پر فاضل علامہ آسی سیالکوٹی نے فرمایا"۔[10]جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ میں اردو ڈیپارٹمنٹ کے صدر اور بہترین شاعر پروفیسر تجمل سلیمی صاحب فرماتے ہیں حضور مفکراسلام رحمۃ اللہ علیہ امیر مینائی اور آفتابی چشتی حضور قبلہ عالم پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پائے کے شاعر ہیں۔ محقق اسلام علامہ ضیاء اللہ قادری صاحب رحمتہ اللہ علیہ سیاکوٹ فرمایا کرتے تھے۔ اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد عقائد کی اسلامی کی صحیح ترجمانی اگر کہیں بھرپور نظر آتی ہے تو وہ علامہ آسی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری میں نظر آتی ہے۔
شاعری کے حوالے سے آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
"شاعری کے ساتھ فطری سالگا ؤ ابتدا ہی سے تھا۔ چھٹی جماعت میں با قاعدہ اس طرف رخ ہوا تو پہلا شعر جو تیار ہوا حسب ذیل تھا
تو قیر جس نے کی ہے خدا کے حبیب کی
مولا نے اُس کو جنت اعلیٰ نصیب کی
ساتویں جماعت میں تھا کہ سکول میں بچوں کے مشاعرے شروع ہو گئے ۔ آٹھویں میں ذوقِ سخن اور تیز اور میٹرک میں تیز تر ہو گیا ۔ والد مرحوم کی وفات سے درد وسوز کا تجربہ بھی ہوا۔ کالج میں فضا تو کچھ مختلف تھی ، اپنی ڈگر وہی رہی۔ طبیعت کا جوش بدیہہ گوئی تک لے گیا۔ سیدی حضور نقش لاثانی قدس سرہ النورانی غازی پور یا سیالکوٹ میں تشریف فرما ہوتے تو یہ عاجز کوئی نہ کوئی منقبت لکھ کر پیش کر دیتا اور کبھی پڑھ کر سنانے کی کوشش کرتا۔ اگر چہ حضور کو اپنی مدح سننے سے سخت احتر از تھا اور اکثر سختی سے روک دیتے مگر اپنا وظیفہ جاری رہا اور پنجابی یا اردو میں منظوم ہدیہ عقیدت لکھنے کی ریت با قاعدہ ہو گئی۔ افسوس یہ سارا دفتر گاؤ خورد ہو گیا، تاہم بعض اشعار اب بھی حافظے کا سرمایۂ عزیز ہیں ۔"[11]
تصانیفترميم
1. انوارِ لاثانی
2. سیرت حضور نقشِ لاثانی رحمۃ اللہ علیہ
3. سیرت حضور نقشِ لاثانی (برکات و کرامات)
4. موجودہ فرقہ واریت اور حضور نقشِ لاثانی قدس سرہ کا مذہبی تعامل
5. سورج اُلٹے پاؤں پلٹے
6. شاہِ ابرار زندہ ومختار
7. امام حسین رضی اللہ عنہ کی حقانیت
8. میلاد شریف اور بعض روایات
9. حضور ﷺ کے والدین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما
10. حضرت مجدد الف ثانی رضی اللہ عنہ کی مجددیت و قیومیت
11. تبرکات ِ حرمین
12. توحید اور محبوبانِ خدا کے کمالات
13. اسلام کا پہلا عقیدہ۔۔ توحید
14. عقیدۂ توحید و رسالت
15. سیرتِ نبوی کا پیغام عصرِ حاضر کا نام
16. مردانِ حق اور راہِ حق
17. ہمارا نبی ﷺ
18. منظوم ترجمہ قصیدۃ النعمان
19. شرک اور بدعت یاغوث
20. مرزا قادیانی کامختصر تعارف
21. مدح و ثنائے اہلِ بیت(رضی اللہ عنھم)
22. نغماتِ میلاد
23. اسلام کے اصول ( مبلغ اسلام حضرت علامہ شاہ عبد العلیم صدیقی میرٹھی صاحب کی انگریزی کتاب کا ترجمہ )
24. انسانی مسائل کا حل
25. آؤ میلاد منائیں
26. تفسیر سورۂ اخلاص
دینی خدماتترميم
تحریک شیرانِ اسلام پاکستان وادارہ الحقیقہترميم
شیران اسلام پاکستان غلبۂ دین حق کی ایک عظیم تحریک ہے۔ اس کے اہداف و مقاصد میں ناموس و عظمت رسالت کا تحفظ اور عقیدہ ختم نبوت پر پہرہ داری اور وطنِ عزیز پاکستان میں اولیاء کاملین کی افکار و تعلیمات کو پھیلانا شامل ہے۔ جو ادارہ الحقیقہ 'ماہنامہ مجلہ الحقیقہ' کا ہی دوسرا نام ہے۔ ادارہ الحقیقہ دین ِ اسلام کے احیا ء اور تبلیغ و اشاعت کے ایک عظیم اور طویل سفر کا نام ادارہ الحقیقہ ہے، جس نے گذشتہ تیئس سالوں میں اسلامیانِ عالم کے عقائد وافکار اور اعمال واحوال کی اصلاح اور ان پہ پہراداری کا عظیم فریضہ سرانجام دیا ہے۔ دینِ اسلام کو خارجی چیلینجز کا سامنا ہو یا داخلی اختلافات کاعظمت وناموسِ رسالت ﷺ کا مسئلہ ہو یا عقیدۂ ختمِ نبوت ﷺ کا تحفظ ادارہ الحقیقہ نے ہر لحاظ سے ہر موقع پر اشاعتی میدان میں بہت بڑا ذخیرۂ علمی اس امت کو دیا ہے۔
حضور مفکر اسلام پروفیسر محمد حسین آسی رحمۃ اللہ علیہ اس ادارے کے روح ِ رواں اور برکتِ کل ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اکتوبر سن 2000ء میں ماہنامہ مجلہ الحقیقہ کی بنیاد رکھی۔اسلام اور پاکستان کے سب سے بڑے ناسُور فرقہ واریت کے سدِّباب اور مسلمانانِ برصغیر کے محسنین یعنی محبوبانِ خدا ورسول ﷺ اولیاء کاملین ،اکابرینِ امت اور انکی دینی خدمات کے خلاف چلنے والی زہریلی وباء کی اپنے قلمی جہاد سے سرکوبی کی ۔اور" اتحادِ ملت کی ضرورت وصورت"،"توحید اور محبوبانِ خدا کے کمالات "، "اسلام اور شیطان کے سپوت " ایسے اچھوتے اور اہم موضوعات پر نہایت سہل اور دلکش انداز کے ذریعے اسلام اور پاکستان کو درپیش مسائل اور امراض کی نہ صرف تشخیص کی بلکہ انکے لئے نسخہ ہائے کیمیاء بھی تیار کیے۔
وصالترميم
8 اگست 2006ء (بمظابق 12 رجب المرجب 1427ھ24 ساون بروز منگل 12:10 کو آپ کی روحِ پُر فتوح قفسِ عنصری پرواز کر گئی ۔ آپ کا جسد خاکی علی پور سیّداں شریف لایا گیا وہاں سادات کرام نے غسل دیا اور اپنے ہاتھوں سے کفن پہنایا ۔ سب سادات نے گواہی دی کہ ایسا روشن ومنور چہرہ کسی عاشقِ رسول کا ہی ہوسکتاہے۔اگلے دن 9اگست بروز بدھ کو صبح 10 بجے نمازِ جنازہ کا اہتمام کیا گیا۔ ملک بھر سے جید مشائخ ، علماء اسلکالرز ، اور بڑے بڑے دانشوروں نے شرکت کی ۔آپ کا مزار ِ انور آپ کے قائم کردہ مرکز علم و عرفان نقشِ لاثانی اسلامک یونیورسٹی محلہ نقشِ لاثانی نگر شکرگڑھ ضلع نارووال میں آج بھی بحمد اللہ مرجعِ خلائق ہے۔[12]
ترتیب : محمد فیضان المصطفی آسوی حسینی(خادمِ آستانہ عالیہ حضور مفکر اسلام نقشِ لاثانی نگر شکر گڑھ )نے ویکیپیڈیا پر حضور مفکر اسلام پروفیسر محمد حسین آسی رحمۃ اللہ علیہ کے احوالِ زندگی کا نیا صفحہ تخلیق کیا ۔ جس میں حضور مفکر اسلام رحمۃ اللہ علیہ کے احوالِ زندگی کو آپ کے خاص خدام و تلامذہ کی بیان کردہ روایات اور تحریر کردہ سوانح سے مکمل احتیاط اورصحیح حوالوں کیساتھ مرتب کیا ہے۔
حوالہ جاتترميم
سیرت حضور نقشِ لاثانی، حضور مفکر اسلام علامہ پروفیسر محمد حسین آسی ((2022).). سیرت حضور نقشِ لاثانی. SHAKARGARH: مکتبہ حضور مفکر اسلام محلہ نقشِ لاثانی نگر. سیرت حضور مفکر اسلام.، علامہ سعید عامر آسوی حسینی. سیرت حضور مفکر اسلام، (2015). SHAKAR GARH
مفکر اسلام تاثرات و مشاھدات، علامہ غلام مصطفی مجددی صاحب (2006). مفکر اسلام تاثرات و مشاھدات. LAHORE: رضا اکیڈمی لاہور.
اذانِ بلال مصنفِ کتبِ کثیرہ فیض ِ ملت علامہ فیض احمد اویسی صاحب رحمۃ اللہ علیہBAHAWALPUR
اوجِ نعت نمبر، بزم نعت کونسل. اوجِ نعت نمبر. SIALKOT: بزم نعت کونسل سیالکوٹ.
- ↑ سیرت حضور مفکر اسلام، علامہ سعید عامر آسوی حسینی (2015). سیرت حضور مفکر اسلام. SHAKAR GARH: ادارہ الحقیقہ پاکستان. صفحات صفحہ نمبر 58، 59.
- ↑ مفکر اسلام تاثرات و مشاھدات، علامہ غلام مصطفی مجددی صاحب (2006). مفکر اسلام تاثرات و مشاھدات. LAHORE: رضا اکیڈمی لاہور. صفحات صفحہ نمبر 10،11.
- ↑ اوجِ نعت نمبر، بزم نعت کونسل. اوجِ نعت نمبر. SIALKOT: بزم نعت کونسل سیالکوٹ. صفحات صفحہ نمبر607.
- ↑ سیرت حضور نقشِ لاثانی، حضور مفکر اسلام علامہ پروفیسر محمد حسین آسی (2022). سیرت حضور نقشِ لاثانی. SHAKARGARH: مکتبہ حضور مفکر اسلام محلہ نقشِ لاثانی نگر. صفحات صفحہ نمبر37،38.
- ↑ سیرت حضور نقشِ لاثانی.، حضور مفکر اسلام علامہ پروفیسر محمد حسین آسی ((2022).). سیرت حضور نقشِ لاثانی. SHAKARGARH:: مکتبہ حضور مفکر اسلام محلہ نقشِ لاثانی نگر. صفحات صفحات صفحہ نمبر37،38.
- ↑ سیرت حضور مفکر اسلام. .، علامہ سعید عامر آسوی حسینی ((2015).). سیرت حضور مفکر اسلام. SHAKAR GARH:: ادارہ الحقیقہ پاکستان. صفحات صفحات صفحہ نمبر 89.
- ↑ سیرت حضور نقشِ لاثانی، حضور مفکر اسلام علامہ پروفیسر محمد حسین آسی ((2022).). سیرت حضور نقشِ لاثانی. SHAKARGARH: مکتبہ حضور مفکر اسلام محلہ نقشِ لاثانی نگر. صفحات صفحات صفحہ نمبر36،37،38.
- ↑ سیرت حضور مفکر اسلام.، علامہ سعید عامر آسوی حسینی. سیرت حضور مفکر اسلام، (2015). SHAKAR GARH: صفحات صفحہ نمبر 160.
- ↑ سیرت حضور مفکر اسلام.، علامہ سعید عامر آسوی حسینی. سیرت حضور مفکر اسلام، (2015). SHAKAR GARH: صفحات صفحہ نمبر 160.
- ↑ اذانِ بلال مصنفِ کتبِ کثیرہ فیض ِ ملت علامہ فیض احمد اویسی صاحب رحمۃ اللہ علی صفحہ نمبر 304.
- ↑ سیرت حضور نقشِ لاثانی، حضور مفکر اسلام علامہ پروفیسر محمد حسین آسی ((2022).). سیرت حضور نقشِ لاثانی. SHAKARGARH: مکتبہ حضور مفکر اسلام محلہ نقشِ لاثانی نگر. صفحات صفحات صفحہ نمبر40، 41.
- ↑ مفکر اسلام تاثرات و مشاھدات، علامہ غلام مصطفی مجددی صاحب (2006). مفکر اسلام تاثرات و مشاھدات. LAHORE: رضا اکیڈمی لاہور. صفحہ صفحہ نمبر 28،29.