پشتون قومی جرگہ (انگریزی: Pashtun National Jirga؛ پشتو: پښتون قامي جرګه‎)، جسے بنوں جرگہ بھی کہا جاتا ہے، کا پہلا اجلاس 11 سے 14 مارچ 2022 کو بنوں ، خیبر پختونخوا کے میرا خیل کرکٹ گراؤنڈ میں منعقد ہوا جس میں پاکستان اور افغانستان میں پشتونوں کے مسائل پر غور کیا گیا۔ اس اجتماع میں سیاست دانوں، قبائلی عمائدین، محققین، سکالرز، اقلیتوں، خواتین اور انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت تقریباً 5,000 افراد نے شرکت کی۔[1][2]

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی ، نواب ایاز جوگیزئی، عبد الرحیم زیارتوال، عبدالقہار ودان، عبیداللہ بابت، نصراللہ زیرے اور عارفہ صدیق، پشتون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین، میر کلام اور وڑانگہ لونی، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے محسن داوڑ، لطیف آفریدی، افراسیاب خٹک، بشیر مٹہ، بشریٰ گوہر اور جمیلہ گیلانی، عوامی نیشنل پارٹی کے خادم حسین اور مولانا خانزیب، مزدور کسان پارٹی کے افضل خاموش، پاکستان پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر اور احمد کنڈی، پاکستان مسلم لیگ ن کے سردار یعقوب نصر، جمعیت علمائے اسلام کے محمد خان شیرانی، چیف آف وزیرستان گل عالم وزیر، تاریخ دان پرویش شاہین اور بہت سے دیگر پشتون، بلوچ اور ہزارہ رہنما جرگے کا حصہ تھے۔ جرگے کی قرارداد کی متعدد افغان سیاسی رہنماؤں، بشمول حامد کرزئی، حنیف اتمر اور امراللہ صالح نے بھی توثیق کی۔[3][4]

جرگے نے اعلان کیا کہ پشتون پاکستان میں شورش کا نشانہ بنے اور پاکستان میں مارے جانے والے 70,000 میں سے 60,000 پشتون ہیں۔ منظور پشتین نے کہا کہ 'موجودہ حالات میں 8,000 سے زیادہ پشتون نوجوان لاپتہ ہیں۔' وسائل پر اختیارات، حقوق نسواں اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پشتو زبان کی حیثیت پر تبادلہ خیال کیا گیا اور خیبر پختونخوا، جنوبی پشتونخوا، میانوالی اور اٹک پر مشتمل ایک متحدہ پشتون صوبے کی تجویز پیش کی گئی۔ اجلاس کے شرکاء نے افغانستان میں لویہ جرگہ اور عام انتخابات کے ذریعے ایک نمائندہ حکومت کے قیام پر زور دیا جو تمام بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہو۔ جرگے نے افغانستان میں انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے عالمی برادری سے افغان عوام کی مدد کرنے کا مطالبہ کیا اور ڈیورنڈ لائن پر لگی خاردار تار کی مذمت کی۔ جرگے نے علی وزیر سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔[5]

پس منظر

ترمیم

23 جون 2021 کو مسلم باغ میں عثمان کاکڑ کے جنازے کے موقع پر محمود خان اچکزئی نے اپنی تقریر کے دوران اعلان کیا کہ وہ تین ماہ کے اندر بنوں میں ایک جرگہ بلا کر پشتونوں کو درپیش مسائل پر بات کریں گے اور ان کا حل تجویز کریں گے۔ بعد ازاں جرگہ 11 مارچ 2022 تک ملتوی کر دیا گیا تھا ۔[2]

جرگہ کی میزبانی کے لیے بنوں کا انتخاب تاریخی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ 21 جون 1947 کو یہ شہر قرارداد بنوں کا میزبان تھا ، جس میں پشتون سیاست دانوں نے سلطنت برطانیہ سے پشتونستان کی آزادی کا مطالبہ کیا تھا جو برطانوی ہند کے تمام پشتون علاقوں پر مشتمل ہو ، بجائے اس کے کہ ان کو نئے بننے والے ملک پاکستان کے ساتھ جوڑا جائے۔

پچھلے پشتون جرگے

ترمیم

بنوں جرگے نے پچھلے دو پشتون جرگوں کے اعلانات کی توثیق کی، جن میں سے ایک 10 مارچ 2020 کو عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اسفندیار ولی خان نے پشاور کے باچا خان مرکز میں بلایا تھا، جبکہ دوسرا جرگہ 7 اگست 2021 کو مزدور کسان پارٹی کے رہنما افضل خاموش نے چارسدہ کے ہشتنگر میں تشکیل دیا تھا۔ ان دونوں جرگوں نے 21 نکاتی اعلامیے جاری کیے۔ ان جرگوں میں افغان خطے میں سلامتی کی صورت حال اور عدم استحکام پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ان میں قدرتی وسائل ، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی راستے دوبارہ کھولنے، بے گھر افراد کے مسائل، شناختی کارڈز کی بندش، مردم شماری، بارودی سرنگوں اور لاپتہ افراد کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی۔

پشتون جرگوں کا ایک ایسا ہی سلسلہ 1990 کی دہائی میں سوات کے افضل خان لالا نے شروع کیا تھا۔ افضل خان لالہ کا آخری پشتون جرگہ مئی 2012 میں پشاور کے نشتر ہال میں پشتون قومی اتحاد کے لیے اور جنگ زدہ افغانستان میں لاکھوں افغانوں کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کے لیے منعقد ہوا تھا۔

قرارداد

ترمیم
  1. اس نمائندہ پشتون قومی جرگے کو ایک مستقل ادارے میں تبدیل کیا جائے۔ یہ نمائندہ پشتون قومی جرگہ سفارش کرتا ہے کہ اس جرگے کے فیصلوں اور اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لیے باہمی تعاون اور رابطہ کاری کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے جو قومی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے کوششیں کرے۔ مزید برآں اس نمائندہ کمیٹی کی ذیلی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔ اس ضمن میں ایک ذیلی کمیٹی پختونخوا وطن میں قبائلی جھگڑوں کی افہام و تفہیم سے حل کرنے کے لیے تشکیل دی جائے۔
  2. موجودہ حالات میں پاکستان میں آئین عمل طور پر معطل ہے یہ جرگہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ پاکستان میں حقیقی وفاقی، پارلیمانی جمہوری نظام بحال کیا جائے آئینی بالادستی اور پارلیمانی خود مختاری یقینی بنائی جائیں اور سیاست میں جاسوسی اداروں کی مداخلت بند کی جائے۔
  3. پاکستان کی خارجہ و داخلہ پالیسی کی تشکیل اور نفاذ صرف اور صرف منتخب پارلیمان کے ذریعے کی جائے۔
  4. یہ نمائندہ پشتون قومی جرگہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ افغانستان میں افغان لویہ جرگہ اور عام انتخابات کے ذریعے تمام عوام کا ایک نمائندہ حکومت قائم کیا جائے مستقبل میں بزور طاقت حکومت پر قبضہ غیر آئینی اور افغان ملت سے غداری قرار دیا جائے اور عصر حاضر کے جہانی معیار پر پورا اترنے والا جمہوری نظام اپنایا جائے۔
  5. یہ جرگہ افغانستان میں موجودہ انسانی بحران پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے اقوام متحدہ اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ انسانی بحران کے شکار افغان عوام کی ہر ممکن امداد اور بے گھر ہونے والے افغانوں سے قانونی اور انسانی سلوک یقینی بنائیں۔
  6. یہ جرگہ مطالبہ کرتا ہے کہ بشمول میانوالی اور اٹک, خیبر پختونخوا اور جنوبی پشتونخوا پر مشتمل متحدہ پشتون قومی صوبہ تشکیل دیا جائے۔ متحدہ صوبے کی تشکیل تک صوبے میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں پشتون بلوچ برابر تسلیم کی جائے۔
  7. پچھلے کئی دہائیوں سے پختونخوا وطن پر مسلط کردہ جنگ کے حوالے ایک ٹروتھ اینڈ ریکنسلئیشن کمیشن، اس جرگے کی سرپرستی میں فیکٹ فائنڈنگ مشن اور کراچی سانحہ 12 مئی 2007 پشتون قتلِ عام کے متعلق ایک تحقیقاتی کمیٹی کے قیام عمل میں لائے جائیں۔
  8. ملی شہید عثمان کاکڑ، عارف وزیر، ارمان لونی، اسد اچکزئی اور دیگر قومی شہدا کی قتل کی تحقیقات جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سربراہی میں قابل اعتماد جوڈیشل کمیشن سے کرائی جائے اور رپورٹ کو عام کیا جائے۔
  9. پختونخوا وطن کی تمام قدرتی وسائل پر پشتون عوام کا قومی حق ملکیت تسلیم کیا جائے اس ضمن میں آئین پاکستان کی تمام شقوں پر حقیقی عمل درآمد کیا جائے اور تیل ریفائنری کا قیام خیبر پختونخوا میں عمل میں لایا جائے۔
  10. یہ قومی جرگہ ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانے کے عمل کو یکسر مسترد کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ لائن پر موجود تمام تاریخی تجارتی راستوں کی بحالی بغیر دستاویزات و کوائف کے تجارت اور دونوں طرف بسنے والے عوام کے آزادانہ آمد و رفت کے لیے یقینی بنایا جائے۔
  11. پختونخوا وطن میں جنگلات، پہاڑوں، زمینوں، معدنی ذخائر اور سرکاری و غیر سرکاری عمارتوں پر عسکری اور سرکاری اداروں کا قبضہ فوری طور پر ختم کیا جائے۔
  12. پشتون وطن میں بارودی سرنگیں صاف کی جائیں۔
  13. پشتو زبان پختونخوا وطن کی قومی، دفتری اور تدریسی زبان تسلیم کی جائے اور یہاں کی تمام مادری زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم میں نصاب وضع کرنے کی اختیارات صوبوں کو دیے گئے تھے لیکن موجودہ حکومت نے حق غصب کر دیا ہے۔ یہ جرگہ مطالبہ کرتا ہے کہ مرکزی حکومت نصاب تعلیم کی اختیارات واپس صوبوں کے حوالے کرے اور واحد قومی نصاب عملی کرنے کے عمل کو روکا جائے۔
  14. پختونخوا وطن کا یہ نمائندہ جرگہ سفارش کرتا ہے کہ تعلیم، اقتصاد، سیاست اور ثقافتی عمل میں صنف نازک کے شراکت داری کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتا ہے۔ پشتون خواتین تاریخ میں ہر وقت زندگی کے ہر میدان میں پشتون مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی رہی ہیں لیکن بدقسمتی سے جہالت، ناخواندگی، غلط رسوم اور مقدس دین اسلام کی غلط تشریحات کے سبب اپنی بنیادی انسانی حقوق سے محروم رہی ہیں۔ یہ جرگہ مطالبہ کرتی ہے کہ قانون سازی اور منفی رسوم کے روک تھام کے ساتھ ساتھ سیاسی، اقتصادی اور فرہنگی سرگرمیوں میں پشتون خواتین کی شراکت داری کے لیے راہیں ہموار کی جائیں۔
  15. یہ نمائندہ جرگہ 2017 میں کرائی گئی مردم شماری میں دھاندلی کو یکسر رد کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ نئے سرے سے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق مردم شماری کے لیے ایک آزاد، شفاف اور متفقہ طریقہ کار بنایا جائے۔
  16. سینیٹ کو مالیات اور دیگر معاملات میں قومی اسمبلی جیسے اختیارات دینے چاہئیں اور سینیٹ کے انتخابات براہ راست ووٹ کے ذریعے ہونے چاہئیں۔
  17. یہ جرگہ مطالبہ کرتا ہے کہ 1991 کے دریائے اباسین کی پانی کی معاہدے پر نظرِ ثانی کی جائے پختونخوا وطن کو مالک اور سرورخ کے طور پر کلی کی ضروریات کے لیے حصہ دیا جائے۔
  18. یہ تاریخی جرگہ غازی بروتھا نہر کے بہانے دریائے اباسین کے پانی کا فطری راستہ تبدیل کرنے کے عمل کو غیر آئینی اور عالمی اصولوں کی صریحاً خلاف ورزی گردانتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ دریائے اباسین کو اپنے پرانے اور فطری راستے پر بحال کیا جائے۔
  19. یہ جرگہ فیصلہ کرتا ہے کہ دہشت گردی کے آڑ میں ماوراء عدالت قتل بند کیے جائے جبری لاپتہ کیے گئے افراد کو آزاد کیا جائے اور پختونخوا وطن میں چیک پوسٹس ختم کیے جائے۔ آئی ڈی پیز کو اپنے گھروں میں آباد کرنے کا بندوبست اور ان کے ہونے والے نقصانات کا پورا پورا ازالہ کیا جائے۔
  20. سیاسی عمل پر لگائی گئی علانیہ اور غیر علانیہ پابندیوں کو ختم کیا جائے اور علی وزیر، حنیف پشتین، اویس ابدال، قاضی طاہر اور تمام سیاسی قیدیوں کو فی الفور رہا کیا جائے۔
  21. چشمہ لفٹ کینال کو فوری طور پر تعمیر کیا جائے۔
  22. پشتو زبان، پشتون تاریخ، ادبیات اور ہنر چالیس برس مسلط کی گئیں جنگوں کے سبب تباہی کے خطر کا شکار ہے اور اب بھی استعماری یلغار کے زیر عتاب ہے یہ نمائندہ جرگہ یہ عہد کرتا ہے کہ اپنے وطن سے استبداد اور قبضے کو ختم کرے گی۔ یہ قومی جرگہ مطالبہ کرتی ہے کہ سرکاری اور غیر سرکاری پشتون دشمن میڈیا کے ذریعے پشتون افغان کی منفی تصویر کشی فی الفور بند کی جائے۔
  23. دیگر زرعی فصلوں کی طرح تمباکو کو بھی زرعی فصل قرار دیا جائے۔
  24. پختونخوا صوبے میں بدنام زمانہ سیاہ قانون ایکشن اِن ایڈ آف سِول پاور ریگولیشن فوری طور پر ختم کیا جائے اور تحفظ، امن و امان اور انتظامی اختیارات سول انتظامیہ کی سپرد کیے جائے۔
  25. یہ جرگہ بجلی، پانی، گیس اور دیگر قدرتی وسائل کے مد میں وفاق کے زمہ واجب الادا رقم پختونخوا صوبے کا حق گردانتا ہے اور فوری ادائیگی کو ضروری اور لازمی سمجھتا ہے۔[6][7][8]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Nationalist parties convene jirga on Pakhtun issues"۔ The News International۔ March 12, 2022 
  2. ^ ا ب "په بنو کې درې ورځنۍ "پښتون قامي جرګه" روانه ده"۔ Radio Mashaal 
  3. "Afghan leaders support Pashtun ethnic jirga in Pakistan's Khyber Pakhtunkhwa"۔ Asian News International۔ March 17, 2022 
  4. "In Pakistan's Khyber Pakhtunkhwa, Afghan authorities back a Pashtun ethnic jirga."۔ The Times Bureau۔ March 17, 2022۔ 27 اپریل 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مارچ 2022 
  5. "Pashtun Jirga in Bannu Calls for Elections, Jirga in Afghanistan"۔ TOLOnews۔ March 15, 2022 
  6. "Parties convene Jirga to defend rights of Pashtuns in Pakistan"۔ Asian News International 
  7. "بنو کې د پښتنو قامي جرګه څلورمې ورځ ته وغځېده؛ پرېکړې او غوښتنې دوشنبې اعلانېږي"۔ BBC Pashto 
  8. "Jirga in Bannu discusses problems faced by Pashtuns"۔ Mashriq TV۔ March 12, 2022