پونزی اسکیم

مالیاتی فراڈ کا مشہور زمانہ طریقہ واردات

پونزی اسکیم ہر زمانے میں ہونے والے مالی فراڈ کا ایک منصوبہ ہے جس میں پہلے سرمایہ کاری کرنے والوں کو منافع بعد میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے پیسوں سے دے دیا جاتا ہے۔ پہلے سرمایہ کاری کرنے والے تو منافع وصول کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن بعد میں سرمایہ کاری کرنے والوں کا سرمایہ ڈوب جاتا ہے۔ لفظ پونزی ایک اطالوی شہری کے نام کا حصہ ہے جس کا پورا نام چارلس کارلو پونزی تھا – یہ اپنے وقت کا مشہور کاروباری ٹھگ اور تجارتی جعل ساز تھا 1920 میں چارلس پونزی نے اس فراڈ کی ابتدا کی جس کی وجہ سے وہ پوری دنیا میں مشہور ہوا اور تب سے لے کر آج تک دنیا کی ہر فراڈ اور بوگس کمپنی اس کے آئیڈیا زاور طور طریقے کو ضرور اپناتی ہے

جنوری 1920 میں اس نے بیرونی ممالک سے ڈسکاؤنٹیڈ پوسٹل ری پلائے کوپن(Discounted postal reply coupon) خرید کر امریکا میں اونچی قیمت میں فروخت کرنے کا کاروبار شروع کرنے کا دعوی کیا – اس نے کاروبار کے لیے عوام سے 45 دنوں میں %50اور 90 دنوں میں %100منافع دینے کا وعدہ کر کے سرمایہ حاصل کرنا شروع کیا – سرمایہ حاصل کرنے کے لیے اس نے سیکورٹیز ایکسچینج کمپنی بنائی – شہر شہر اپنے ایجنٹ اور بروکر تیار کیے جو سرمایہ کاروں کو پھانستے – چند مہینوں میں پونزی کی کمپنی کا سرمایہ 20 ملین ڈالر تک پہنچ گیا –پھر ایسا وقت آیا کہ کاروباری اور تجارتی ماہرین پونزی کے کاروبار کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرنے لگے جس کی وجہ سے پوسٹل ڈیپارٹمنٹ نے کمپنی کے پوسٹل ری پلائے کوپن کے لین دین پر نظر رکھنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ جتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور منافع کی تقسیم ہورہی ہے اس کے مقابلے میں کاروبار بہت کم بلکہ نا کے برابر ہے – یہ معاملہ دھیرے دھیرے عوام کے علم میں آنے لگا تو نیا سرمایہ کم ہوتے ہوتے بند ہو گیا اور عوام نے اپنا سرمایہ نکالنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے منافع کی تقسیم میں تاخیر ہوتے ہوتے منافع ہی بند ہو گیا اور بالآخر کمپنی بند ہو گئی – چارلس پونزی کی گرفتاری اور تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ عوام سے سرمایہ حاصل کرنے کے لیے دکھاوے کا بہت معمولی سا پوسٹل ری پلائے کوپن کا کاروبار تھا – اس کے کاروبار کی حقیقت یہ تھی کہ وہ نئے لوگوں سے پیسہ لے کر پرانے سرمایہ کاروں کو منافع دیتا تھا اور جو سرمایہ بچتا تھا اس سے وہ عیش و عشرت کی زندگی گزارتا تھا – وہ منافع کے نام پر پیسے پر پیسہ دیتا تھا –[1]

چارٹ سے سمجھا جا سکتا ہے کہ پونزی اسکیم کبھی کامیاب نہيں ہو سکتی ۔ کیوں کہ اس میں صرف ارکان کی تعداد بڑھانے پر ہی سارا زور ہوتا ہے اور ارکان کے ہی پیسے آپس میں گھمائے جاتے ہيں ۔ حتی کہ تمام پیسے نہ صرف ختم ہو جاتے ہیں بلکہ ارکان کی تعداد بھی خطرناک حد تک بڑھ کر رک جاتی ہے ۔ جس کے بعد پونزی اسکیم کے مالک کے بھاگنے کا وقت ہو جاتا ہے ۔

ابتدائی تاریخ ترمیم

گو کہ فراڈ کی یہ سکیم پہلے بھی چھوٹے پیمانے پر استعمال کی جاتی رہی تھی لیکن بیسویں صدی کے اوائل میں چارلس پونزی نے اسے اوج کمال پر پہنچایا اور یوں اس سکیم کو پونزی کے نام سے موسوم کیا گیا۔

اس نے 1920 میں اپنے اس فراڈ کی ابتدا کی جس کی وجہ سے وہ پوری دنیا میں مشہور ہوا اور تب سے لے کر آج تک دنیا کی ہر فراڈ اور بوگس کمپنی اس کے آئیڈیا زاور طور طریقے کو ضرور اپناتی ہے –

چارلس پونزی ترمیم

چارلس پونزی اٹلی نژاد شہری تھا جس نے امریکا میں پونزی فراڈ کے آئڈیا پر کام کیا۔کچھ ہیرا پھیری کے بعد وہ امریکا سے فراد ہوا ۔ 1918 میں وہ بوسٹن واپس آیا۔ اور یہاں فراڈ کی اس بدنام زمانہ سکیم کا جنم ہوا جسے پونزی سکیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہوا یوں کہ اسے سپین کی ایک کمپنی سے ایک خط ملا جس میں انٹرنیشنل ریپلائی کوپن تھا جس کے بدلے امریکی ڈاک کے ٹکٹ حاصل کیے جا سکتے تھے۔ اس زمانے میں یہ کوپن مختلف ممالک کے محکمہ ڈاک جاری کیا کرتے تھے۔ تو ایسا ممکن تھا کہ ایک سستے ملک اٹلی میں پانچ سینٹ میں خریدے گئے کوپن کے بدلے جب امریکا جیسے امیر ملک کے ڈاک ٹکٹ لیے جائیں تو ان کی مالیت بیس سینٹ ہو۔ پونزی نے دوسرے ممالک سے یہ کوپن خرید کر امریکا میں بیچنے شروع کر دیے۔ بعض کے مطابق پونزی نے اس طرح اصل رقم سے چار گنا زیادہ منافع بھی کمایا۔یہ کام اسے اتنا منافع بخش لگا کہ اس نے لوگوں سے اس کاروبار کا آسرا دے کر سرمایہ اکٹھا کرنا شروع کیا اور بدلے میں حیرت انگیز حد تک منافع کا جھانسا دیا ۔

پونزی نے ”سیکیوریٹیز ایکسچینج کمپنی“ کے نام سے اپنی کمپنی بنا لی اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو ڈیڑھ مہینے میں پچاس فیصد یا تین مہینے میں سو فیصد منافع دینے کا لالچ دے کر ان سے پیسے لینے شروع کیے۔ پونزی نے سرمایہ کاروں کو یہ یقین دلایا کہ وہ دوسرے ممالک میں اپنے ایجنٹس کو رقم بھیجتا ہے اور وہ اسے ان ممالک سے ڈاک کے کوپن خرید کر اسے بھیجتے ہیں جن کے بدلے پونزی امریکی ڈاک ٹکٹ حاصل کر کے بہت زیادہ منافع پر بیچتا ہے۔ پونزی نے ابتدائی سرمایہ کاروں کو نہایت ایمانداری سے منافع دیا اور مطالبے پر اصل رقم بھی واپس کی۔ پونزی کی شہرت پھیلنے لگی۔

فراڈ کی یہ سکیم بے انتہا کامیاب رہی۔ فروری 1920 میں پونزی نے پانچ ہزار ڈالر منافع کمایا۔ مارچ میں یہ منافع تیس ہزار ڈالر ہو گیا۔ مئی میں یہ سوا چار لاکھ ڈالر ہو چکا تھا۔ ایک ایسا وقت آیا جب چارلس پونزی اس طرح ایک دن میں ڈھائی لاکھ ڈالر کما رہا تھا۔ آج کے حساب سے یہ تقریباً 33 لاکھ ڈالر روزانہ بنتے ہیں۔ سرمایہ کاروں کو وہ ڈاک کے ذریعے ان کی سٹیٹمنٹ بھیجتا تھا کہ تمھاری رقم دن دگنی رات چوگنی بڑھ رہی ہے۔ پونزی نے محل نما رہائش گاہ خریدی اور بادشاہوں جیسی زندگی گزارنے لگا۔

چارلس پونزی کی یہ شرح منافع دیکھ کر کلیرنس بیرن نامی ایک صحافی کی توجہ اس کی طرف مبذول ہوئی۔ بیرن کو جدید معاشی صحافت کا باپ سمجھا جاتا ہے۔ وہ ڈاؤ جونز اینڈ کمپنی کا صدر اور وال سٹریٹ جنرل کا چلانے والا شخص بھی رہا ہے۔ کلیرنس بیرن نے سوال اٹھائے کہ کتنی مالیت کے کوپن اتنا منافع دے سکتے ہیں جتنا پونزی بتا رہا ہے۔ اگر ٹائے ٹینک جیسے بحری جہاز بھی بھر کر لائے جاتے تو اتنے کوپن نہ بنتے۔ نہ ہی اتنے کوپن سرکولیشن میں تھے۔ پھر بیرن نے یہ بھی پوچھا کہ پونزی اگر دوسروں کو انویسٹ کرنے پر پچاس فیصد تک کا منافع دیتا ہے، تو خود اپنی رقم کسی اور بینک کے مروج سرمایہ کاری میں کیوں لگاتا ہے جو بمشکل پانچ فیصد سالانہ منافع دیتی ہے۔

بیرن کی رپورٹ میں اعداد و شمار بھی تھے اور عقل سلیم میں آنے والے چبھتے ہوئے سوالات بھی۔ لیکن پونزی ایسا جادو بیان تھا کہ لوگوں نے بیرن کی رپورٹ پر یقین کرنے سے انکار کر دیا۔ پونزی کے سرمایہ کاروں کو اس کے درست ہونے پر سو فیصد یقین تھا۔ بلکہ جس دن بیرن کی رپورٹ شائع ہوئی اس دن خلاف توقع پونزی کا نام ایسا پھیلا کہ لوگ اس کے دفتر کے باہر لمبی قطاریں بنائے دکھائی دیے تاکہ پونزی کو مزید پیسے دے سکیں۔ پونزی نے بعد میں بتایا کہ صرف اس دن اس نے دس لاکھ ڈالر (آج کل کے حساب سے سوا کروڑ ڈالر) کی نئی سرمایہ کاری حاصل کی۔

لیکن پونزی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اب معاملہ گڑبڑ ہو رہا ہے۔ اس نے عوام میں اپنا امیج بہتر بنانے کے لیے جھوٹی بپلسٹی کا سہارا لینے کے لیے ولیم میکماسٹر نامی ایک شخص کو ٹھیکا دیا لیکن ولیم کو اندازہ ہو گیا کہ پونزی ایک بڑے فراڈ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس نے پونزی کے لیے کام کرنے سے انکار کیا اور ایک پریس ریلیز میں چارلس پونزی کے متعلق اپنا بیان دیا۔ اس نے بتایا کہ پونزی اس وقت تقریباً دو ملین ڈالر کے قرض میں ڈوبا ہوا ہے۔

اگلے مہینے وفاقی حکام نے پونزی کے دفتر پر چھاپہ مارا۔ انھیں پوسٹل کوپن کی کوئی خاص تعداد نہیں ملی۔ کیونکہ پونزی نے ڈاک کے ذریعے اپنے کلائنٹس کو یہ یقین دلایا تھا کہ ان کی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے تو اس پر ڈاک کے ذریعے فراڈ کے 86 الزامات عائد کیے گئے۔ حکام سے ڈیل کے نتیجے میں پونزی نے ان میں سے ایک الزام پر اقرار جرم کر لیا اور پانچ برس کی سزا پائی۔

 
چارلس پونزی، 1920ء میں

ساڑھے تین برس بعد اس کی ضمانت ہوئی تو 1922 میں میساچوسٹس کا ریاستی مقدمہ قائم ہوا۔ اس پر دھوکا دہی کے دس جرائم پر مقدمہ چلایا گیا۔ پونزی کے پاس پیسہ نہیں تھا، اس نے خود اپنا مقدمہ لڑا اور بے مثال چرب زبانی سے جیوری کو قائل کر لیا کہ وہ معصوم ہے۔ ریاست ہکی بکی رہ گئی۔ اب پونزی پر فراڈ کے پانچ مزید الزامات پر مقدمہ چلایا گیا۔ اس مرتبہ بھی چرب زبانی نے ساتھ دیا اور جیوری ففٹی ففٹی کی تقسیم سے سزا دینے میں ناکام رہی۔ تیسرے مقدمے میں اسے نو برس سزا ہو گئی۔

سنہ 1925 میں پونزی نے اپنی سزا کو چیلنج کر دیا تو اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ وہ میساچوسٹس سے فرار ہو کر فلوریڈا چلا گیا اور ادھر ایک نئی کمپنی بنا کر لوگوں کو اس وعدے پر زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بیچنے لگا کہ ان کی قیمت دو مہینے میں ڈبل ہو جائے گی۔ ان میں سے کچھ ٹکڑے دلدل میں واقع تھے اور کچھ پانی کے نیچے۔ دوبارہ پکڑا گیا اور ایک سال کی سزا ہوئی۔ پندرہ سو ڈالر کی ضمانت دے کر باہر آیا اور فرار ہو گیا۔ اس نے حلیہ بدل کر بحری جہاز کے ذریعے اٹلی فرار ہونے کی کوشش کی مگر پکڑا گیا اور اسے میساچوسٹس میں بقیہ سات سال کی سزا کاٹنے بھیج دیا گیا۔

قید خانے میں بھی پونزی کو ان معصوم انویسٹرز کی طرف سے کرسمس کارڈ ملتے رہے جنہیں وہ فراڈ کا نشانہ بنا چکا تھا۔ بلکہ کئی تو اس سے اب بھی یہ درخواست کر رہے تھے کہ وہ ان کی رقم کو اپنی سرمایہ کاری میں استعمال کرے۔

اس دوران یہ پتہ چلا کہ 1903 سے امریکا میں رہنے کے باوجود پونزی نے امریکی شہریت حاصل نہیں کی تھی۔ اسے سنہ 1934 میں اٹلی ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ اٹلی میں بھی اس نے فراڈ کرنے کی کوششیں کیں مگر اٹلی کے لوگ سیانے نکلے، وہ اس کے جھانسے میں نہ آئے۔ پونزی نے اطالوی ائیرلائن میں ملازمت حاصل کی اور برازیل میں بطور ایجنٹ چلا گیا۔ اسی اثنا میں دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی اور ائیرلائن کا دفتر بند کر دیا گیا۔

سنہ 1941 میں پونزی کو دل کا دورہ پڑا جس کے بعد اس کی صحت نہایت خراب ہو گئی۔ 1948 تک وہ تقریباً اندھا ہو چکا تھا اور فالج کے نتیجے میں اس کے جسم کا دایاں حصہ مفلوج ہو گیا تھا۔ جنوری 1949 میں چارلس پونزی نے ریو ڈی جنیرو کے ایک خیراتی ہسپتال میں وفات پائی اور اسے لاوارثوں کی طرح دفن کیا گیا۔ لیکن اس کا نام اس کی فراڈی سکیم کی وجہ سے دنیا بھر میں زندہ ہے۔[2]

لفظ پونزی ایک اطالوی شہری کے نام کا حصہ ہے جس کا پورا نام چارلس کارلو پونزی تھا – یہ اپنے وقت کا مشہور کاروباری ٹھگ اور تجارتی جعل ساز تھا ۔

اقسام ترمیم

چارلس پونزی سے لے کر آج تک اور مستقبل میں بھی ہر پونزی کمپنی یہی کر رہی ہے اور کرے گی چاہے اس کا کتنا خوبصورت اور اسلامی نام ہو-کاروبار اور تجارت کے ماہرین نے پونزی اسکیم /پونزی کمپنی کی چند علامات بتائی ہیں جو درج ذیل ہیں -‌(1) ہر مہینہ منافع کی تقسیم (2) منافع کی شرح بہت زیادہ اتنی زیادہ کہ دنیا کے کسی کاروبار میں میں نہیں ہوتی – (3) ہر مہینہ یقینی اور طے شدہ منافع (4) نقصان کا امکان نہیں (5) کمپنی کی شروعات میں سرمایہ کاری کی حد زیادہ ہوتی ہے جو گذرتے وقت کے ساتھ کم سے کم ہوتے جاتی ہے (6) پونزی کمپنی بہت ساری کمپنیوں اور اسکیموں کا مجموعہ ہوتی ہے – کسی بھی کمپنی یا اسکیم میں پیسہ لگے وہ پہنچتا ایک ہی مالک کو ہے ( ایک مالک سے مراد کئی پرموٹر یا ڈائریکٹر یا پارٹنر کا گروپ) اس کے علاوہ بھی کئی علامات ہیں جن کے ذریعے پونزی کمپنی /پونزی اسکیم کو بآسانی پہچانا جا سکتا ہے مگر یہ سب قانونی اور ٹیکنیکل ہیں جو عوام سمجھ نہیں پاتے اور اسکیم کا شکار ہوجاتے ہیں‘‘[1]

مختلف وقتوں میں اس کے اس فراڈ کے مختلف نام رہے ہيں ۔ جیسے کہ ؛

  • پونزی اسکیم
  • پیرامڈ اسکیم
  • ملٹی لیول مارکیٹنگ

طریقہ واردات ترمیم

اپنے ابتداہ سے لے کر اب تک اس قسم کی اسکیموں کا جال بہت زیادہ پھیلتا جا رہا ہے۔ اور ہر زمانے میں اس کے لالچی عوام اندھا دھند شکار ہوجاتے ہيں ۔

ان کے دعوے کے دو حصے ہوتے ہيں کہ ممبر پیسہ دیں تا کہ وہ بزنس کریں اور منافع کمائیں ، دوسرا حصہ ، ممبر آگے مزید ممبر لا کر چھوٹے چھوٹے اماؤٹ انوسٹ کرائیں ۔ اس میں سے ان کو بھی کمیشن ملے گا۔یہ ملٹی لیول مارکیٹ بھی کہلاتی ہے۔

ان فراڈیوں کی باتوں میں سارا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ پیکج خرید کر (یعنی کچھ پیسے ادا کر کے )ممبر بن جائیں ۔ پھر آپ ممبر لا کر اسی طرح ان کو پیکج خریدنے کو کہیں ۔ ان ممبر کے پیسوں سے آپ کو چند فی صد منافع ملے گا ۔ اور وہ ممبر جو ممبر لائیں گے ۔ ان کے بھی فی صد کمیشن آپ کو اور لانے والوں کو ملے گا ۔

لیکن یہ لوگ یہ نہيں بتاتے کہ یہ لوگ ارکان کے پیسوں سے پیسہ کس طرح پیدا کرتے ہيں ۔ کیا ان کا بزنس ہوتا ہے۔ ۔ عام طور پر اس پر ہیرا پھیری دکھاتے ہيں ۔

مضاربہ سکینڈل ترمیم

سنہ 2013 میں سامنے آنے والے اربوں کی مالیت کے اس سکینڈل کے بارے میں نیب کو 30 ہزار سے زیادہ افراد نے شکایات جمع کروائیں۔ بعض خبروں میں اس فراڈ کی مالیت ڈھائی کھرب روپے بتائی گئی ہے۔-

اس مقدمے میں گرفتار کیے گئے مذہبی رہنماؤں اور ان کے ساتھیوں میں مفتی احسان الحق، مفتی ابرار الحق، حافظ محمد نواز، معین اسلم، عبید اللہ، مفتی شبیر احمد عثمانی، سجاد احمد، آصف جاوید، غلام رسول ایوبی، محمد حسین احمد، حامد نواز، محمد عرفان، بلال خان بنگش، مطیع الرحمن، محمد نعمان قریشی، سید عکشید حسین، محمد عادل بٹ، محمد ثاقب، عمیر احمد، عقیل عباسی، مفتی حنیف خان، نذیر احمد ابراہیم اور سیف اللہ سمیت 45 ملزمان شامل تھے۔ مفتی احسان الحق کو 10 برس قید اور نو ارب روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ غلام رسول ایوبی کو 14 برس قید اور پونے سات کروڑ روپے جرمانے کی سزا دی گئی۔[3]

الیگزر گروپ ترمیم

راولپنڈی میں مضاربہ سکینڈل میں الیگزر گروپ کیخلاف سات بلین کے غبن کے مقدمہ کا ریفرنس دائر کر دیا، ریفرنس مرکزی ملزم آصف جاوید عرف ابراہیم، اسامہ سمیت نو ملزمان کیخلاف دائر کیا گیا، ملزمان پر اسلامی سرمایہ کاری کے نام پر عوام الناس کو لوٹنے کا الزام ہے۔ نیب مضاربہ سکینڈل میں 93 مقدمات کی تحقیقات کر رہا ہے، نیب کو سکینڈل میں40139 متاثرین کی شکایات موصول ہوئیں۔ نیب نے اس میگا سکینڈل میں 18ملزمان کو گرفتار کیا ۔[4]

احتساب عدالت نمبر ایک راولپنڈی کے جج شکیل احمد نے مضاریہ کے نام پر اربوں روپے کا فراڈ کرنے کے الزام میں گرفتار ملزم کا پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا۔ملزم نے دس اشتہاری ملزمان ناصر لالیکا، عمر لالیکا، عبد الرافع، محمد بشیر، شاہد عزیز اور عبد الرحمان وغیرہ جن کا تعلق سائوتھ پنجاب سے ہے کے ساتھ ملکر الیگزر گروپ کے نام سے ایک کمپنی بنا رکھی تھی جس کا دفتر آئی ایٹ اسلام آباد میں تھا۔ ملزم مضاربہ کے نام پر 2010سے 2013تک لوگوں کو سبز باغ اور زائد نفع کا لالچ دیکر رقم بٹورتے رہے۔ ملزم کا بیرون ملک فرار اشتہاری بھائی شاہد عزیز کمپنی کا ڈائریکٹر تھا اور ملزم خود اس کمپنی کا فنانس سیکرٹری بن کر لوٹ مار کرتا تھا۔ سات ارب روپے کے اس مضاربہ سکینڈل میں ایک مرکزی ملزم آصف جاوید عرف مفتی ابراہیم کو احتساب عدالت کے جج سہیل ناصر نے تیس جون 2015کو نیب کی دفعہ 9(a)ixمیں چودہ سال قید بامشقت اور 205.355ملین روپے کا جرمانہ عائد کرتے ہوئے عدم ادائیگی جرمانہ پر مزید تین برس قید کی سزا سنائی تھی[5]

ڈبل شاہ ترمیم

وزیر آباد گجرانوالہ (پاکستان) کے رہائشی سید سبط الحسن شاہ کو ڈبل شاہ کہا جاتا ہے۔ اس نے رقم دوگنی کرنے کا جھانسہ دے کر محض 18 مہینوں میں 7 ارب روپے کمائے۔ شروع میں وہ صرف 15 دنوں میں رقم دوگنی کر کے واپس کر دیا کرتا تھا۔ بعد میں یہ مدت بڑھتے بڑھتے 70 دنوں تک جا پہنچی-

بی فار یو ترمیم

حال ہی میں 2018 سے پاکستان میں ایک کمپنی جس کا نام بی فور یو B4Uہے اور اس کے مالک سیف الرحمن نیازی ہیں اس طرح کا ایک فراڈ کر چکی ہے۔ جس میں بہت میں آنے والے سرمایہ کاروں کا بہت سا پیسہ ڈوب چکا ہے جو اب نہ ملنے کا برابر ہے۔[6]

نیب ذرائع کے مطابق بی فور یو گروپ کے مالک سیف الرحمان نے 4 لاکھ سے زیادہ لوگوں کا ایک کھرب سے زیادہ مضاربہ کے نام پر لوٹا۔[3]

NGR Energy ترمیم

یہ بھی ایک خفیہ پیرامڈ / پونزی اسکام ہے ۔ جن کے ارکان فرداﹰفرداﹰہی ملاقات کر کے اپنا جال پھیلاتے ہیں ۔ ان کے پرموٹر کا دعوی ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہمارے خریدے گئے پیسوں سے پولینڈ میں سولر انرجی پر انوسٹ کرتے ہیں (یہ دعوی بھی جھوٹا ثابت ہے )اور پاکستان میں یہ لوگ خریدے گئے پیکج

فارسیج ترمیم

آج کل فارسج نامی کمپنی بھی فراڈ کر رہی ہے۔جس کا طریقہ کار وہی ہے ۔ بس نئی تکنک میں کرپٹو کرنسی BUSD کے نام کا اضافہ کیا گیا ہے اور کرپٹو کرنسی کی باتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی سچائی کا دعوی کرتے ہیں ۔ سطحی معلومات رکھنے والے لوگ ان معلومات سے متاثر بھی ہو جاتے ہیں ۔ ان کا دعوی ہوتا ہے کہ کمپنی کے مالک روس میں ہیں اور ہیڈ افس بھی روس میں ہے ۔ وہاں پہ مسٹر لاڈو ہم پاکستانیوں کے پیسوں سے بی یو ایس ڈی کرپٹو کرنسی میں ٹریڈنگ کر کے پیسہ بڑھاتے ہیں اور پھر ہمیں دیتے ہيں (بعد ازاں یہ دعوی بے بنیاد اور جھوٹا ثابت ہوا)

تاج کمپنی ترمیم

دوسری مثال 2000 کی دہائی میں تاج کمپنی کی ہے جس کے متاثرین کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے حکومت پاکستان نے اقدامات کیے تھے۔ یہ کمپنی قرآن کی ناشر تھی اور اُن پر اعتماد کرتے ہوئے ہزاروں افراد نے انھیں اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی جمع سرمایہ کاری کی غرض سے دی تھی۔[7]

اس کے علاوہ بھی بہت سی ہیں ۔

  • metaforece
  • گولڈن کیGolden Key
  • econex
  • Tiens
  • igogo
  • Yepp

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب "مسلمان-پونزی-اسکیم-میں-پیسہ-لگانے-سےبچ"۔ معیشت۔ Maeeshat Media Pvt Ltd.۔ 5-13-2019 
  2. "مشہور فراڈیے: رقم ڈبل کرنے والی پونزی سکیم"۔ چارلس پونزی اور پونزی سکیم۔ ہم سب - عدنان خان کاکڑ۔ 03-06-2018 
  3. ^ ا ب "مضاربہ سکینڈل۔ "پاکستان کی سب سے بڑی ڈکیتی" ۔"۔ Hum Sab۔ 1-Jul-2022  الوسيط |first1= يفتقد |last1= في Authors list (معاونت);
  4. "ناقص لفٹ کی خریداری ، مضاربہ سکینڈل میں الیگزر گروپ کیخلاف ریفرنس دائر"۔ ویب سائٹ نوائے وقت۔ نوائے وقت۔ Oct 24, 2014 
  5. "مضاریہ کے نام پر فراڈ کے الزام میں گرفتار ملزم کاجسمانی ریمانڈ"۔ جنگ - ویب سائٹ۔ جنگ گروپ۔ 06 مارچ ، 2018 
  6. "پونزی اسکیم چلانے والے سی ای او کو نیب قانون کے تحت سزا ہو سکتی ہے: سپریم کورٹ"۔ اردو میڈیم۔ 6-مارچ 2022 
  7. "محفوظ سرمایہ کاری: پاکستان میں 'ڈبل شاہ' جیسی پونزی سکیموں سے کیسے بچا جائے؟"۔ بی بی سی اردو۔ 2 نومبر 2020