پیر مہر علی شاہ
پیر سید مہر علی شاہ (پیدائش: 4 اپریل 1859ء– وفات: 11 مئی 1937ء) سلسلہ عالیہ چشت کے ایک عظیم روحانی بزرگ تھے۔
پیر،سید | |
---|---|
پیر مہر علی شاہ | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 14 اپریل 1859 گولڑہ شریف |
وفات | 11 مئی 1937 (78 سال) گولڑہ شریف |
شہریت | ![]() |
اولاد | پیر سید غلام محی الدین گیلانی |
عملی زندگی | |
پیشہ | مسلمان، امت مسلمہ |
پیشہ ورانہ زبان | پنجابی[1] |
درستی - ترمیم ![]() |
پیدائشترميم
پير سید مہر علی شاہ گولڑہ شریف (جو راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان میں واقع ہے)میں 14 اپریل 1859ء بمطابق 1 رمضان 1275ھ کو پیدا ہوئے۔[2]
نسبترميم
سید مہر علی شاہ کے و ا لد کا نا م سید نذر دین شا ہ ابن سید غلا م شا ہ ابن سید رو شن دین شا ہ ہے جبکہ آپ کی وا لدہ محتر مہ کا نا م معصو مہ مو صو فہ بنت پیر سید بہا در شا ہ ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب 25وا سطو ں سے سید نا شیخ عبدا لقا در جیلا نی المعر و ف غو ث الاعظم سے اور 36 وا سطو ں سے سیدنا اما م حسن سے جا ملتا ہے۔ آپ کے ایک ہی صاحبزادے تھے جن کا نام پیر سید غلام محی الدین گیلانی تھا اور انکو آپ پیار سے "بابو" بلایا کرتے تھے۔بابو جی کےدو صاحبزادے ہیں،ایک پیر سیدغلام معین الدین شاہ اور دوسرے پیر سید عبدالحق شاہ۔ پیر سید غلام معین الدین شاہ کے صاحبزادگان پیر نصیر الدین نصیر،پیر غلام جلال الدین شاہ اور پیر غلام حسام الدین شاہ ہیں،جبکہ پیر عبدالحق شاہ کے دو صاحبزادے ہیں،ایک پیر غلام معین الحق شاہ اور دوسرے پیر غلام قطب الحق شاہ۔
تعلیم و تربیتترميم
پیر مہر علی شا ہ نے صرف چار سال کی عمر میں پڑھنا شروع کر دیا اور نا ظر ہ قر آن مجید پڑھنے کے لیے آپ کو خا نقا ہ کی در سگاہ میں اردو، فا رسی وغیر ہ کی تعلیم کے لیے مدرسہ میں دا خل کر دیا گیا، قو ت حا فظہ کا یہ عالم تھا کہ قرآن مجید کا سبق روزانہ آپ حفظ کر کے سُنا دیا کر تے تھے۔ جب قرآن حکیم ناظرہ ختم کیا ،تو اس وقت آپ کو پورا قرآ ن کر یم حفظ بھی ہوچکا تھا۔
عر بی، فا رسی اور صر ف ونحو کی تعلیم مو لا نا محی الدین سے حاصل کی، آپنے ”کافیہ “ تک اپنے اُستا ذ سے تعلیم حا صل کی اور اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے حسن ابدا ل کے نو اح میں مو ضع ” بھوئی “ کے مو لا نا محمد شفیع قریشی کی درسگاہ میں داخل ہوئے اور دو، اڑھائی سال میں رسائل ِمنطق میں سے قطبی تک اور نحو اور اصول کے در میا نی اسبا ق تک تعلیم حا صل کی۔ مزید تعلیم کے لیے آپ نے مو ضع ’انگہ ‘ (علا قہ سو ن ضلع شا ہ پو ر ) کا سفر اختیا ر کیا اور وہا ں پر مولانا حافظ سلطان محمود سے تکمیل کی۔
بیعت و خلافتترميم
انگہ“ میں قیا م کے دو را ن مو لا نا حا فظ سلطا ن محمو دکے ساتھ ”سیا ل شریف‘ ضلع سر گو دھا، خو اجہ شمس الدین سیا لو ی چشتی کی زیا ر ت کے لیے جا یا کر تے اور خو ا جہ سیا لو ی آپ پر خصو صی شفقت و محبت فر ما تے تھے۔ چنا نچہ اسی شفقت و محبت کی وجہ سے پیر سید مہر علی شاہ سلسلہ چشتیہ نظا میہ سلیما نیہ میں شمس الدین سیا لو ی سلیما نی کے دست پر بیعت ہو ئے اور خلافت سے نواز ا۔[3]
سیرت و خصائصترميم
وہ ایک عظیم رہنما، ولی اللہ، حنفی عالم اور قادیانی مرزائی فرقے کے سخت مخالف مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے کئی کتابیں خاص طور غیر راسخ العقیدہ اور مرزائی فرقے کے رد میں "سیفِ چشتیائی" لکھی۔[4]
تصانیفترميم
- تحقيق الحق فی كلمۃ الحق
- شمس الہدایہ
- سيف چشتيائى
- اعلا كلمۃ اللہ وما اهل بہ لغير اللہ
- الفتوحات الصمديہ
- تصفية ما بين سنی والشيعہ
- فتاوی مہریہ
- مراۃ العرفان
- مکتوبات طیبات
- ملفوظات مہر علی شاہ
وصالترميم
منگل کے دن 29 صفرالمظفر1356ھ بمطابق 11 مئی1937ءکو آپ کاوصال ہوا۔ آپ کا مزار شریف گولڑہ شریف،اسلام آباد میں مرکزِ انوار وتجلیات ہے۔[5]
حوالہ جاتترميم
- ↑ Identifiants et Référentiels — اخذ شدہ بتاریخ: 14 مئی 2020
- ↑ پیدائش
- ↑ مِہرِ مُنِیر سَوانِح حیات سیّد پیر مہر علی شاہ ،علامہ فیض احمد فیض،
- ↑ "سیرت و خصائص". 22 اکتوبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 24 فروری 2017.
- ↑ "وصال". 22 اکتوبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 24 فروری 2017.