پھولوں کی کاشتکاری
پھولوں کی کاشتکاری (انگریزی: Floriculture) زراعت کے شعبے میں اناچ، سبزیوں اور پھلوں کی کاشتکاری کا متبادل ہے۔ اس غرض میں کئی قسم کے پھول اُگائے جاتے ہیں۔ پھول کی کاشت کاری کے لیے کئی بار حرارت پر گرفت رکھی جاتی ہے۔ عام کھیتوں کے بر عکس خصوصی نرسری یا گرین ہاؤز (سبز گھروں) میں یہ کاروبار انجام پاتے ہیں۔ کئی بار ایک ہی قسم کے پھول میں تنوع دیکھنے میں آتا ہے اور یہ کاشت کار ہر قسم پر توجہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلًا گلاب عام طور سے گلابی ہو کر بھی کئی بار لال، سفید، کالے رنگوں میں پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح سے اور بھی تنوع پائے جائے جا سکتے ہیں۔ پھولوں کو ثابت بھی بیچا جاتا ہے اور کبھی کبھی بکھری ہوئی شکل میں بھی بیچا جاتا ہے، جیسے کہ کلاب کی پنکھڑیاں۔ پھولوں سے کئی اشیا بنائے جاتے ہیں۔ مثلًا عرق گلاب کا ایک مستقل استعمال ہے۔ ایضًا گلقند بھی تیار ہوتا ہے۔ کئی پھولوں عطر بھی بنائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مغربی طرز کے سینٹ یا عطر بھی بنائے جاتے ہیں۔ کچھ پھول دار پودوں کی بازار کاری بھی عمل میں آتی ہے۔ کچھ پھولوں کے پتے بھی بیچے جاتے ہیں تو کئی پھول سوکھے ہو کر بھی استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ کچھ پھولوں سے تیل بھی نکالا جاتا ہے، جیسے کہ چمیلی کے پھول کا تیل۔
حوصلہ افزا محرکات
ترمیمزرعی ادویات کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور حکومت کی جانب سے فصلوں کی طے کردہ قیمت کے سبب نقد آور فصلوں سے حاصل ہونے والے منافع میں کمی آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسند کسان اب اجناس کی بجائے سبزی اور پھولوں کی کاشت میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔[1]
گلاب کی کاشت کاری
ترمیمپھولوں میں گلاب کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ گلاب اپنی خوبصورتی اور خوشبو کی وجہ سے ہر دلعزیز پھول ہے اسی وجہ سے اسے کوئین آف فلاورز (پھولوں کی ملکہ) کہا جاتا ہے۔ دنیا میں گلاب کی 20 ہزار سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔ گلاب بطور کٹ فلاور بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہالینڈ دنیا میں سب سے زیادہ گلاب اور دوسرے پھول پیدا کرنے والا ملک ہے۔ گلاب کے پھول کی درآمد کے لحاظ سے جرمنی پہلے نمبر ہے۔ بھارت میں کاروبار کافی پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان میں بھی کٹ پھولوں کا کاروبار تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کی بدولت گلاب کی کاشت کو کافی اہمیت دی جا رہی ہے۔[2]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "گلیڈ کا پھول: ترقی پسند کاشتکاروں کی پسند"۔ 05 نومبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 نومبر 2019
- ↑ "گلاب کی کاشت اور پیداواری ٹیکنالوجی"۔ 05 نومبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 نومبر 2019