ڈیٹا چوری (انگریزی: Data theft) عام مشاہدے میں آنے والی بات بن چکی ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب سسٹم منتظمین اور دفتر کے ملازمین جن کو ڈیٹابیس سرور اور ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر جیسی ٹیکنالوجیوں تک رسائی ہے، اس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ ان آلات میں دست بہ دست آلات بھی شامل ہیں جن میں ڈیجیٹل معلومات محفوظ کی جا سکتی ہے، جیسے کہ پین ڈرائیو، آئی پوڈ اور ڈیجیٹل کیمرا۔ چونکہ ملازمین اکثر قابل لحاظ وقت ادارے سے رابطے میں آنے والوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں، وہ اپنی کمپنی کی راز دارانہ اور حقوق نسخہ کی مکمل معلومات کو اپنے قبضے میں رکھتے ہیں۔ یہ ملازمین اپنی کمپنی چھوڑتے وقت ادارے کی پوری یا کچھ معلومات اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں یا اس کے کچھ حصے کو دانستہ طور پر تلف بھی کر سکتے ہیں۔ کچھ ملازمین بر سر خدمت رہنے کے دور میں معلومات کا غلط استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ معلومات مجرموں اور مجرمانہ اداروں کی جانب سے خریدی جا سکتی ہے[1]۔ ایک اور صورت یہ بھی ممکن ہے کہ ایک ملازم جان بوجھ کر با اعتماد انداز میں معلومات کی رسائی ہوئی ہے، اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آجر کی قانونی خلاف ورزیوں کے افشا کرنے کے لیے کرے۔یہ صورت ان معاشروں میں مثبت سمجھی جا سکتی ہے جہاں خطا کاری کے افشا کنندوں کو مثبت نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کچھ حالات میں ان افراد کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہو سکتا ہے جیسا کہ ریاستہائے متحدہ امریکا میں ہوتا ہے۔[2]

ڈیٹا چوری سے تحفظ

ترمیم

کئی صنعتیں اپنے ڈیٹا کو چوری سے تحفظ فراہم کر رہی ہیں۔ پاکستان کی بینک کاری کے ذرائع نے نومبر 2018ء میں ایف آئی اے کے اس دعویٰ کو مسترد کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ملک کے تمام بینکوں کا ڈیٹا چوری ہو گیا ۔ بینک کاری ذرائع کے مطابق تمام بینکوں کے ڈیٹا چوری ہونے کے دعوے میں حقیقت نہیں۔ ایف آئی اے کے پاس کوئی ٹیکنالوجی نہیں جو ڈیٹا چوری کا پتہ چلائے۔ ایف آئی اے کی جانب سے لکھا جانے والا خط مفروضوں پر مشتمل ہے۔ ڈیٹا کی چوری کے حوالے سے بینکاری صنعت خود کو بہتر بنارہی ہے۔[3]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Liudong Xing، Gregory Levitin (November 2017)۔ "Balancing theft and corruption threats by data partition in cloud system with independent server protection"۔ Reliability Engineering & System Safety۔ 167: 248–254۔ doi:10.1016/j.ress.2017.06.006 
  2. Bruce Schneier (10 جون 2013)۔ "Government Secrets and the Need for Whistle-blowers"۔ Schneier on Security۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 فروری 2015 
  3. بینکوں کا ڈیٹا چوری ،حقیقت کیا ہے؟