حکیم امت مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق نقوی ہندوستان کے ایک شیعہ عالم دین تھے۔

آپ کا تعلق ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے شہر لکھنؤ سے تھا۔

ولادت اور خاندانترميم

آپ کی ولادت ۲۲ جون ۱۹۳۹ء کو لکھنؤ میں ہوئی۔

آپ کے دادا قدوۃ العلماء مولانا سید آقاحسن تھے جو اپنے عہد کے مجتہد اور با عمل عالم دین تھے ۔

آپ کے والد مولانا سید کلب حسین عرف کبن صاحب بھی بلند پایہ عالم تھے۔

مولانا نے ایسے علمی و ادبی خانوادے میں آنکھ کھولی جہاں ہر وقت دینی مسائل زیر بحث رہتے اور قومی مسائل پر گفتگو رہتی تھی۔

بچپن ہی سے آپ نے اپنے اجداد کو قومی مسائل حل کرنے میں مصروف دیکھا جس کا اثر آپ کے ذہن پر ہوا اور کمسنی ہی سے قومی مسائل میں دلچسپی لینا شروع کردی۔

جب سے آپ کا شعور پختہ ہوا گھر میں عبادت اور ذکر الٰہی کی آوازیں سنیں ۔

مکارم اخلاق کی تعلیم گھر کا شیوہ تھا۔ [1]

تعلیمترميم

آپ نے ابتدائی تعلیم والد علام سے حاصل کی۔

پھر لکھنؤ کی قدیم دینی درسگاہ سلطان المدارس میں زیر تعلیم رہ کر صدر الافاضل کی سند حاصل کی۔

اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور وہاں سے عربی زبان و ادب میں بی اے اور ایم اے کیا۔

آخر میں لکھنؤ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی مکمل کی۔ [2]

خطابتترميم

آپ خطابت کا اعلی ذوق رکھتے تھے۔ آپ نے اپنی صلاحتیوں کو بروئے کار لاکر طرز خطابت میں جدت پیدا کی اور عصری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے قومی مسائل کو مجالس میں منبر سے بیان کرنا شروع کیا۔

آپ نے آیات قرآنی اور حدیث و تاریخ کے علاوہ جدید علوم ، عصری مسائل، سائنس اور ٹیکنالوجی کے اہم پہلوؤں کو مجالس کے موضوعات میں شامل کرکے خطابت میں ایک نئی روح پیدا کی جس میں آپ کو بہت کامیابی ملی۔

آپ کا یہ طرز خطابت ہندوستان اور بیرونی ممالک میں بہت پسند کیا گیا چنانچہ آپ کو مشرق وسطیٰ، یورپ ، امریکہ اور افریقہ میں بھی مجالس خطاب کرنے کے لئے مدعو کیا جانے لگا۔

آپ اپنی مجالس میں قوم کے نوجوانوں کو خطاب کرکے انہیں دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم حاصل کرنے کی ترغیب دلاتے تھے۔

آپ فرمایا کرتے تھے: ’’ اس ترقی یافتہ دور میں ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے کہ وہ خود بھی علم کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کرے اور اپنے بچوں کو بھی بہتر سے بہتر تعلیم دلوائے کیونکہ موجودہ صدی سائنس اورٹیکنالوجی کی صدی ہے اور اگر ہم اس کی اہمیت سے غافل رہے تو ہماری ہلاکت اورتباہی یقینی ہے۔

قوم کے علماء پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ منبروں پر بیٹھ کر مخاصمت اور غیبت کا راستہ اپنانے کے بجائے اپنی عالمانہ صلاحیتوں کو علم کی تبلیغ پر صرف کریں۔‘‘

آپ اپنی مجالس میں امن، اتحاد اور اخوت پر زیادہ تاکید کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ قوم کی ترقی کے لئے اتحاد بین المسلمین کا ہونا بہت ضروری ہے۔

آپ کی نگاہ میں وقت کی بہت زیادہ اہمیت تھی۔

آپ وقت مقررہ پر اپنا خطاب شروع کردیتے تھے خواہ ایک دو سامعین ہی کیوں نہ ہوں۔

آپ نے قولاً و عملاً غیر اسلامی رسومات کی کھل کر مخالفت کی مثلاً شادی بیاہ کے مواقع پر فضول خرچی، بڑے پیمانے پر سجاوٹ، آرائش ، روشنی، آتش بازی ، زیادہ جہیز کا لین دین وغیرہ ۔

دیگر نمایاں خدماتترميم

۱۹۸۶ء میں برادر بزرگ مولانا سید کلب عابد کے انتقال کے بعد آپ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر منتخب ہوئے۔

لکھنؤ کی عزاداری کی بازگشائی کے سلسلے میں بھی کوشا رہے۔ حکومت کے ذمہ داروں سے گفت و شنید کرتے رہے بالآخر آپ کی یہ سعی نتیجہ بخش ثابت ہوئی۔

اوقاف کے تحفظ کے سلسلے میں بھی آپ نے متعدد تحریکیں چلائیں جن کے سبب لکھنؤ میں اوقاف کا تحفظ ممکن ہوا ۔

تعمیری خدماتترميم

آپ نے ۱۹۸۰ء؁ میں توحید المسلمین ٹرسٹ کی بنیاد ڈالی جس کا مقصد قوم کے ذہین اور معیاری بچوں کو ٹرسٹ کے ذریعہ مالی امداد فراہم کرنا تھا تاکہ وہ معیاری اور اعلیٰ تعلیم اچھی درسگاہوں میں حاصل کرسکیں۔ قوم کے ایسے افراد کو تعلیم سے آشنا کرانا جو علم کی افادیت سے محروم ہیں۔ جاہل معاشرہ کے افراد کو پارٹ ٹائم تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنا۔

یونٹی کالج : توحید المسلمین ٹرسٹ کے زیر سایہ ارتقائی سفر طے کرنے والی درسگاہ کا آغاز ۱۹۸۷ میں ’’یونٹی پرائمری اسکول‘‘ کے نام سے لکھنؤ میں ہو ا جو گیارہ بارہ سال کی مدت میں’’ یونٹی ڈگری کالج‘‘ بنا اس کے تین سیکشن ہیں (۱)انٹر سیکشن (۲) ڈگری سیکشن(۳) لاء ڈگری سیکشن۔ یونٹی کالج کی شاخیں مصطفیٰ آباد رائے بریلی، اور الہ آباد میں بھی قائم کیں ۔ آپ نے فیض آباد میں بہوبیگم یونٹی اسکول قائم کیا۔

توحید المسلمین ٹرسٹ کے زیر اہتمام لکھنؤ میں امام زین العابدینؑ اسپتال قائم کیا جو ۱۹۹۷ء؁ سے بدستور اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔

ایراز لکھنؤ میڈیکل کالج: آپ کا اہم کارنامہ ہے۔ مختصر مدت میں ۳۵۰ بیڈ کا اسپتال بن کر تیار ہوجانا اور سرکار سے منظوری حاصل کرلینا یقینا بڑا کارنامہ ہے۔جس کی عمار ت بھی نہایت خوبصورت اور وسیع ہے۔

آپ نے ۱۹۹۴ء؁ میں مدینۃ العلوم علی گڑھ کا قیام کیا جس میں قوم کے بچوں کو عصری تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم و تربیت کا معقول انتظام کیا گیا۔ اس کی عمارت بھی دیدہ زیب اور کشادہ ہے ۔

اس کے علاوہ جد امجد کی یادگار حسینیہ غفرانمآب کی تعمیر جدید میں بھی آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس میں ناجائز قبضوں کو ہٹوایا۔

یہ وہ خدمات ہیں جن کا علم ہم کو ہو پایا ہے نامعلوم کتنی ایسی خدمات ہوں گی جو پردہ خفا میں ہیں۔ آپ پیکر خلوص ومحبت تھے چھوٹوں سے بھی انتہائی محبت اور شفقت سے ملتے تھے۔ چھوٹوں کی ترقی سے بہت خوش ہوتے تھے۔

وفاتترميم

ایک طویل عرصہ تک بیماری کے بعد 24/ نومبر 2020ء کو دس بجے شب میں اکیاسی(81) برس کی عمر میں آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔

آپ کی وفات پر آیات عظام سیستانی ، مکارم شیرازی ، صافی گلپائیگانی ، نوری ہمدانی سمیت ایران و عراق کی متعدد عظیم شخصیتوں نے ہندوستان کے تمام شیعوں ، بالخصوص مولانا کے پسماندگان کو تعزیت پیش کی۔

اس کے علاوہ ہندوستان کی سیاسی شخصیتوں نے بھی مولانا کے گھر والوں کو تسلیت پیش کی۔

وفات کے دوسرے دن آپ کی تشییع جنازہ ہوئی اور کرونا کی وبا کے باوجود آپ کی تشییع جنازہ میں جم غفیر تھا۔

25/ نومبر 2020ء کی صبح کو جنازہ لکھنؤ کے حسینیہ غفرانمآب میں سپرد خاک کیا گیا۔

آپ کی نماز جنازہ حسب وصیت ، ایرانی عالم دین آقای مہدی مہدوی پور نے پڑھائی۔

آپ کی شخصیت اہل سنت کے درمیان بھی محبوب تھی اس لئے بعد میں اہل سنت حضرات نے بھی مستقل طور پر آپ کی نماز جنازہ پڑھی۔

تالیفات اور تقاریر کے مجموعےترميم

  • تاج شکن
  • نیویارک سے قم تک
  • قرآن اور سائنس
  • سائنس اور غلبہ اسلام (حقیقت دین)
  • خطبات نماز جمعہ
  • اسلام میں علم کی اہمیت
  • اسلام اور مذہب اہل بیت(ع)
  • وضع شیعیان هند (فارسی)

حوالہ جاتترميم

  1. تذکرہ علماء ہندوستان(شہوار نقوی امروہوی)
  2. سائٹ ویکی شیعہ