کڈپہ میں جدید رجحانات کا آغاز و ارتقا

کڑپہ میں جدید رجحانات کا آغاز و ارتقا آندھراپردیش کے مختلف اضلاع میں ضلع کڑپہ کو یہ امتیازی حیثیت حاصل ہے کہ یہاں کے شعرا نے اپنے تجربات و احساسات کو مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے پرکھا ہے اور اپنے فکر و فن کو محدود علاقیت کے حصار سے باہر رکھا ہے۔ جدید رجحانات کے آغاز کے تقریباً دس سال بعد ضلع کڑپہ سے ایک ایسا اشتراکی شعری مجموعہ شائع ہوا جس کی بدولت اردو ادب میں ہلچل مچ گئی۔ سنہ 1974ء میں شائع شدہ شعری مجموعہ لہجے (اشتراکی مجموعہ) اس بات کی دلیل پیش کرتا ہے کہ ادب میں بدلتے ہوئے اختراعات و ایجادات، تجربات و رجحانات سے شہر کڑپہ کے شعرا بھی متاثر ہیں اور اپنے فن کے تئیں بہت مخلص بھی ہیں۔ مشترکہ مجموعہ ’’لہجے‘‘ ضلع کڑپہ میں ہی نہیں بلکہ رائل سیما میں جدید شاعری کی اولین شناخت ہے۔ ساغرؔ جیدی، راہیؔ فدائی، اشفاق رہبرؔ، عقیل جامدؔ اور یوسف صفیؔ نے اپنے اس شعری مجموعہ کے ذریعے ببانگ دہل یہ اعلان کیا ہے کہ جدید رجحانات کو اپنانے میں انھوں نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ شہر کڑپہ کے شعرا نے اپنے آپ کو محدود علاقیت کے حصار سے باہر رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ 1978ء میں دوسرا مشترکہ مجموعہ ’’انتسللہ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا جس میں ساغر جیدی، راہی فدائی اور عقیل جامد کا کلام شامل ہے۔ اس مجموعہ میں شامل غزلوں میں جدید رجحانات کا عکس جابجا پایا جاتا ہے۔ یہ دو مجموعے شہر کڑپہ کے شعر و ادب میں جدید رجحانات کے آغاز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان دو مجموعوں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں جدیدیت برائے نام نہیں بلکہ صحت مند جدت اور فکر و فن کا رنگ نمایاں ہے۔ ان شعرا نے خصوصاً لفظیات، علامت نگاری اور طنز کے مختلف پیرائے جدید غزلوں میں شامل کیے علاوہ ازیں عروض و قواعد کی سختی سے پابندی کی۔ انھیں خصوصیات کی بدولت اردو کے قدآور نقاد پروفیسر شمس الرحمن فاروقی اور اردو کے مشہور جدید شاعری کے بانی محمد علوی وغیرہ مذکورہ جدید شعرا کی طرف متوجہ ہو ئے ان پانچوں شعرا کا کلام برصغیر کے مستند و معتبر رسائل و جرائد میں شامل ہونے لگا بالخصوص شب خون (الہ آباد)، شاعر (بمبئی)، عصری آگاہی (دہلی)، چنگاری (دہلی)، شہود (کلکتہ)، انشاء (کلکتہ)، گلبن (مرادآباد)، دلکش (سرون)، آزاد، سالار، پاسبان روزنامے (بنگلور)، انقلاب، بلتنر (روزنامے، بمبئی)، نشیمن، سالار ویکلی (بنگلور)، منصف، الانصار، اعتماد (روزنامے حیدرآباد) وغیرہ میں ان شعرا کا کلام پابندی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ کڑپہ میں غزل کے علاوہ مختلف اصناف پر طبع آزمائی ہوتی رہی ہے قدیم دور سے اب تک کا اگر جائزہ لیا جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نہ صرف شعرا نے غزل کوا پنا ذریعہ اظہار بنایا ہے بلکہ دیگر اصناف پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔ حضرت شاہ کمال (دوم) کا ذکر اوپر آچکا ہے انھوں نے غزل کے علاوہ قصیدہ، مثنوی، رباعی، مخمس اور مستزاد وغیرہ پر نہ صرف طبع آزمائی کی بلکہ ان کے دامن کو حقائق و معارف سے مالا مال کر دیا آپ نے اپنی شاعری میں ہندی، فارسی، عربی الفاظ کے ساتھ سنسکرت کے الفاظ بھی برمحل استعمال کیا ہے۔

نثر نگار ترمیم

کڑپہ کے نثرنگاروں میں مندرجہ ذیل احباب کے نام لیے جا سکتے ہیں (1)راہیؔ فدائی، (2) یوسف صفیؔ (3)محمو شاہدؔ (4)اقبال خسروؔ قادری،، (5) ستار ساحرؔ، (6) سعید نظر(7)امام قاسم ساقیؔ ،(8)ستار فیضیؔ ،(9) شکیل احمد شکیلؔ، (10) قدیر پرویزؔ، (11) ظہیر دانشؔ، (12) یونس طیبؔ، (13) تابش ربانیؔ وغیرہ نے مختلف افسانوی اور غیر افسانوی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔

نظم گو شعرا ترمیم

کڈپہ کے نظم گو شعرا میں ساغر جیدی،اقبال خسرو قادری،یوسف صفی کے علاوہ سعید نظر، ڈاکٹر ستار ساحر، امام قاسم ساقی، ستار فیضی، نور محمد جالؔب ،شکیل احمد شکیل، یونس طیب اور قدیر پرویز کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

رباعی گو شعرا ترمیم

ساغر جیدی، اقبال خسرو قادری اور امام قاسم ساقی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

ہائیکو اور ماہئیہ گو شعرا ترمیم

ساغر جیدی، امام قاسم ساقی۔

مرثیہ اور قصیدہ گو شعرا ترمیم

اقبال خسرو قادری کا نام بڑے فخر کے ساتھ لیا جا سکتا ہے انھوں نے اپنی والدہ کے انتقال کے بعد ان کے نام ایک مرثیہ لکھا اور اپنے مجموعہ کلام ’’سیمیا‘‘ میں در مدح شخصے کے نام سے شامل کیا ہے جس میں لطیف طنز بھی پایا جاتا ہے۔ ان اصناف کے علاوہ کڑپہ میں بسنے والے تمام شعرا غزل، نعت اور منقبت جیسی اصناف پر طبع آزمائی کرتے آ رہے ہیں اور اپنے فن کا لوہا منوا رہے ہیں۔ کلاسیکی شاعری کی جتنی اہمیت و افادیت اہل کڑپہ کے دلوں میں موجود ہے اتنی ہی اہمیت ترقی پسندی اور جدیدیت کی بھی ہے اہل کڑپہ کے شعرا نے بدلتے ہوئے ماحول کے ساتھ قدم بڑھایا ہے اور ہر دور میں مختلف شعرا و ادبا نے اپنے فن کا لوہا منوایا ہے۔ کئی صدیوں سے کڑپہ میں فنون لطیفہ کو محض تفنن طبع کے لیے نہیں بلکہ فن برائے زندگی اور فن برائے ادب کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ کڑپہ میں مختلف اصناف پر مختلف شرا نے اپنے جذبات، احساسات اور خیالات کا اظہار کیا ہے۔ خصوصاً نعت گوئی کا سلسلہ کئی صدیوں سے رائج ہے اکثر یہاں پر طرحی نعتیہ مشاعرے اورغیر طرحی نعتیہ مشاعروں کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے اور کئی شعرا نے اپنے عقیدت کا اظہار نعت رسول اکرمؐ کی بارگاہ میں کیا ہے۔ سنہ 1960ء سے غزل میں جدید رجحانات کا جیسے ہی آغاز ہوا کڑپہ کے بیشتر شعرا اس کی طرف مائل ہوئے ان میں چند بے حد کامیاب رہے اور چند نے برائے نام جدیدیت کو اپنایا۔ اس کی دلیل ہم 1974ء میں شائع شدہ ’’لہجے‘‘ کے مجموعہ کلام میں دیکھ سکتے ہیں۔ ’’لہجے‘‘ ایک اشتراکی شعری مجموعہ ہے۔ جس میں عقیل جامد، راہی فدائی، اشفاق رہبر اور ساغر جیدی کی غزلوں کے ساتھ ساتھ یوسف صفی کی نظمیں شامل ہیں۔ ان شعرا نے غزل کے جدید رجحانات کو اپنا کر کڑپہ کے شعر و ادب ہی نہیں بلکہ اردو شعر و ادب میں اپنی پہچان بنائی ہے۔ جدید رجحانات کی راہ میں ’’لہجے‘‘ شعری مجموعہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مجموعہ کلام کی اشاعت سے جدید نظریہ کے حامل تمام قلمکاروں نے اہل کڑپہ کے ان شعرا کی خاطر خواہ پزیرائی ہی نہیں کی بلکہ ان کا احترام بھی کیا ہے اور ان کا کلام ہندوستان کے مشہور و معروف ادبی رسائل و جرائد اور روزناموں میں شائع ہونے لگا۔ شعرائے کڑپہ کی غزلوں میں جدید رجحانات کا دوسرا پڑاؤ سنہ 1978ء میں شائع شدہ دوسرا اشتراکی مجموعہ ’’انتسللہ‘‘ ہے اس مجموعہ کلام میں ساغر جیدی، راہی فدائی اور عقیل جامد کا کلام شامل ہے ’’انتسللہ‘‘ کی اس قدر پزیرائی ہوئی کہ ہندوستان کے مشہور و معروف ادبا شمس الرحمن فاروقی، محمد علوی وغیرہ نے انھیں دل و جان سے قبول کیا۔ ان شعرائے اکرام کی کاوشیں ہی تھیں کہ ان کی تقلید میں بہت سے شعرا جدیدیت کی طرف راغب ہوئے۔ خصوصاً اقبال خسرو قادری نے جس راہ کو اپنایا ہے وہ یقیناًان کے اساتذہ اکرام کی دین اور تربیت ہی ہے۔ جس کی بنا پر انھیں کڑپہ کے ایک مستند اور جدید شاعر ہونے کا شرف حاصل ہے۔ مجموعی طور پر کڑپہ کے شعرا نے جس جدید راہ کوا ختیار کیا ہے وہ قابل رشک ہے۔ تاریخ ادب اردو ان جدید شعرا کے بغیر ادھوری رہ جائے گی۔

حواشی ترمیم

  • یہ مضمون امام قاسم ساقی کا مقالہ ‘‘ شعرائے کڈپہ کی غزلوں میں جدید رجحانات سے لیا گیا ہے۔