حضرت ہشیم بن بشیر الواسطیؒ کا شمار تبع تابعین میں ہوتا ہے۔

حضرت ہشیم بن بشیر الواسطیؒ
 

معلومات شخصیت
پیدائش 104ھ
بمقام واسطہ
مقام وفات بغداد

نام ونسب ترمیم

ہشیم نام اورابو معاویہ کنیت تھی،نسب نامہ یہ ہے،ہشیم بن بشیر بن ابی حازم القاسم بن دینار [1]بنو سلیم کے غلام تھے،اس لیے سلمی کہلاتے ہیں [2] اور واسطی وطن کی طرف نسبت ہے۔

مولد ووطن ترمیم

ہشیم 104ھ میں بمقام واسطہ پیدا ہوئے،پھر ایک عرصہ کے بعد مرکز علم وفن بغداد منتقل ہو گئے تھے اورآخر عمر تک وہیں رہے،[3]بعض علما کا خیال ہے کہ وہ بخاری الاصل تھے۔[4]

تحصیل علم اورابتدائی حالات ترمیم

ابتدا میں مقامی علما سے مستفید ہوئے،اس کے بعد تشنگی علم نے انھیں دور دراز کے ممالک کے چشموں تک پہنچایا اوروہاں انھوں نے ممتاز اورکبار فضلاء کے معدن فضل وکمال سے اپنے ذہن ودماغ کو مالا مال کیا؛چنانچہ مکہ میں انھوں نے امام زہری اورعمر بن دینار سے سماع حاصل کیا،ہشیم کے والد اموی خلیفہ حجاج بن یوسف ثقفی کے باورچی تھے،پھر اس کے بعد تجارت کا پیشہ اختیار کر لیا تھا، ان کی خواہش تھی کہ ہشیم بھی ان کے کاروبار میں ہاتھ بٹائیں اس لیے وہ ان کو طلبِ علم سے روکتے تھے،لیکن وہ ان کے علی الرغم تحصیل علم میں ہمہ تن مشغول رہے۔ اتفاق سے ایک مرتبہ ہشیم سخت بیمار پڑ گئے،قاضی واسط ابو شیبہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو وہ اپنے تلامذہ اورعوام کے ایک جم غفیر کے ہمراہ عیادت کو تشریف لائے بشیر بن ابی حازم کے حاشیہ خیال میں بھی نہ آسکتا تھا کہ قاضی وقت ان کے غربت کدہ کو کبھی اپنی تشریف آوری سے زینت بخشے گا، اس لیے وہ اپنے اس غیر متوقع اعزاز پر فرطِ مسرت سے بے قابو ہو گئے،اوراپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ابلغ من امرک ان جاء القاضی الی منزلی لا امنعک بعد ھذا الیوم من طلب الحدیث [5] تمھاری وجہ سے قاضی میرے گھر تشریف لائے آج کے بعد میں تمھیں طلب حدیث سے نہ روکوں گا۔

فضل وکمال ترمیم

علم و فضل کے اعتبار سے ہشیم بلند مرتبہ حفاظ حدیث میں تھے، متعدد تابعین کرام سے صحبت اورکسبِ فیض کا شرف حاصل تھا،حفظ و اتقان اور عبادت وللہیت میں بھی درجہ کمال پر فائز تھے،بغداد میں اپنے زمانہ کے رئیس المحدثین تھے، "محدث بغداد"ان کا لقب ہی پڑ گیا تھا،علامہ ذہبیؒ انھیں "الحافظ احد الاعلام" لکھتے ہیں [6]حافظ ابن کثیر رقمطراز ہیں کہ "کان ھشیم من سادات العلماء" ان کا حافظہ اتنا قوی تھا کہ بیس ہزار حدیثیں زبانی یاد تھیں [7] حافظ ذہبی نے تذکرہ میں "الحافظ الکبیر محدث العصر" لکھ کر ان کے علم و فضل کا اعتراف کیا ہے۔ [8]

حدیث ترمیم

انھوں نے تحصیل علم کے لیے بہت سے دوردراز ملکوں کا سفر کیا اور پھر حدیث میں انھیں اتنا عبور حاصل ہو گیا تھا کہ اساتذہ عصر میں شمار کیے جانے لگے،علامہ ابن سعدؒ نے‘کان ثقۃ کثیر الحدیث حجۃ’[9]کے الفاظ سے ان کے کمال فنی کو سراہا ہے جن علما وائمہ سے وہ مستفید ہوئے ان میں کچھ ممتاز اورلائقِ ذکر نام یہ ہیں:قاسم بن مہران،یعلی بن عطاء،عبد العزیز بن صہیب،اسماعیل بن ابی خالد،عمرو بن دینار امام زہری، یونس بن عبید،ایوب السختیانی،ابن عون، اشعث بن عبد الملک،منصور بن زاذان،مغیرہ بن مقسم،سلیمان الاعمش ،حمید الطویل،عطاء بن السائب اوریحییٰ بن سعید الانصاری۔

تلامذہ ترمیم

ان کے حلقہ بگوشوں کی فہرست بھی کافی طویل ہے؛کیونکہ ہشیم نے واسطہ کے علاوہ بغداد،بصرہ،کوفہ اورمکہ وغیرہ دوسرے ملکوں میں بھی بساطِ سرس آراستہ کی تھی، ان سے مستفید ہونے والے جو علما آسمان علم کا اخترِ تاباں بنے ان میں امام مالک بن انس ،سفیان ثوری،شعبہ،عبد اللہ بن مبارک، یحییٰ بن سعید القطان،عبد الرحمن بن مہدی،غندر،وکیع بن الجراح،یزید بن ہارون،قتیبہ بن سعید،احمد بن حنبل ، یحییٰ بن معین، علی بن المدینی، ابو خیثمہ،ابو عبید القاسم بن سلام، شجاع بن مخلد،، حسن بن عرفہ،احمد بن منیع،علی بن حجر اورعلی بن مسلم وغیرہ کے نام تاریخ علم وفن میں زندہ جاوید ہیں۔ [10]

ذہانت وفطانت ترمیم

ہشیم بڑے قوی الحفظ تھے،ابن قطان کا بیان ہے کہ میں نے سفیان ثوری اورشعبہ کے بعد ہشیمؒ سے زیادہ حافظہ رکھنے والا کسی کو نہیں دیکھا[11]امام الجرح والتعدیل عبد الرحمن بن مہدی کا قول ہے کہ ہشیم کا مرتبہ حفظ حدیث میں امام ثوریؒ سے بھی بڑھا ہوا ہے [12] عبد اللہ بن مبارک جو ہشیم کے شاگردِ خاص تھے،بیان کرتے ہیں کہ مرورِ وقت کی بنا پر بہت سے محدثین کا حافظہ آخر عمر میں متاثر ہوجایا کرتا تھا،لیکن ہشیم کے قوت حفظ پر وقت کی پرچھائیں بھی نہ پڑسکی [13]اسحاق الزورقی کہتے ہیں۔ ما رأیت مع ھشیم !لواحا انما کان یجیئ الی المجلس ویقوم یعنی یکتفی بحفظہ [14] میں نے ہشیم کے ساتھ کبھی کاپیاں نہیں دیکھیں وہ مجلس درس میں شریک ہوتے اوراسی طرح اُٹھ کھڑے ہوتے یعنی اپنے حافظہ کو کافی سمجھتے۔خود ہشیم کی زبانی منقول ہے کہ میں ایک مجلس درس میں سوحد یثیں زبانی یاد کرلیتا تھا اور پھر اگر ایک ماہ کے بعد بھی مجھ سے ان احادیث کے بارے میں سوال کیا جاتا تو میں جواب دے دیتا [15]ابراہیم الحربی کا قول ہے۔ کان حفاظ الحدیث اربعۃ کان ھشیم شیخھم [16] حفاظ حدیث چار تھے،جن میں ہشیم سب کے استاد تھے۔

ثقاہت اورتدلیس ترمیم

ان کی عدالت وثقاہت مسلم ہے اور اس کا اعتراف علمائے جرح و تعدیل نے بھی کیا ہے،لیکن اسی کے ساتھ بعض لوگوں نے ان پر تدلیس کا الزام عائد کیا ہے ،یعنی وہ اپنے شیوخ کا نام لیے بغیر براہ راست اوپر کے ان رواۃ سے حدیث بیان کرتے تھے،جن سے انھیں سماع حاصل نہ تھا،اصول حدیث کے بعض علما کے نزدیک ثقات کی مدلس روایات مقبول ہیں؛ لیکن مسلک جمہور میں ثقہ راوی کی مدلس روایت اس وقت تک قابل قبول نہ ہوگی، جب تک اس روایت کے کسی طریق میں سماع وتحدیث کی تصریح نہ مل جائے۔ علامہ ذہبیؒ نے ہشیمؒ کی کثرت تدلیس کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ "ہشیم کے نزدیک ،عن سے تدلیساًروایت جائز تھی [17]علامہ موصوف ہی تذکرہ میں رقمطراز ہیں۔ لانزاع انہ کان من الحفاظ الثقات الا انہ کثیر التدلیس فقد روی عن جماعۃ لم یسمع منھم [18] وہ بالا تفاق ثقہ حفاظ حدیث میں تھے مگر تدلیس بکثرت کرتے تھے ؛چنانچہ انھوں نے ایسے شیوخ سے روایات کی ہیں جن سے ان کو سماع حاصل نہ تھا۔ ابن حبان نے کتاب الثقات میں ان کا ذکر کیا ہے،علامہ ابن سعد کا خیال ہے کہ جو حدیث وہ لفظ اخبرنا سے روایت کریں، صرف وہی قابلِ حجت ہوگی اس کے علاوہ نہیں "ومالم یقل فیہ اخبرنا فلیس بشیئی" [19]

ذکر اللہ کی کثرت ترمیم

ہشیم کی زبان ہر وقت خداوند قدوس کے ذکر اور تسبیح سے تر رہتی تھی،یہاں تک کہ دوران درس بھی ان کا ورد رہا کرتا تھا حسین بن حسن رومی کہتے ہیں۔مارأیت احداً اکثر ذکر اللہ عزوجل من ھُشیم [20] میں نے ہشیم سے زیادہ کسی کو خدائے عزوجل کا ذکر کرتے نہیں دیکھا۔ امام احمد ؒ فرماتے ہیں: کان ھشیم کثیر التسبیح بین الحدیث یقول لا الہ الا اللہ یمد بھا صوتہ [21] ہشیم درسِ حدیث کے دوران بھی کثرت سے تسبیح پڑھتے تھے لا الہ الا اللہ پڑھنے کی آواز سُنائی دیتی تھی۔

مناقب ترمیم

بایں ہمہ جلالتِ علم ہشیم گونا گوں مناقب وفضائل کے حامل تھے؛چنانچہ عمر بن عون کا بیان ہے کہ ہشیم نے وفات سے قبل دس سال تک مسلسل عشا کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی [22] اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوری شب عبادت وریاضت میں گزرتی تھی حماد بن زید کہتے ہیں کہ: مارأیت محدثا انبل من ھشیم میں نے ہشیم سے زیادہ شریف کوئی محدث نہیں دیکھا۔ ابو حاتم کا قول ہے: لایسال عن ھشیم فی صلاحہ وصدقہ وامنتہ [23] ہشیم کی نیکی اورصدق امانت کا کیا پوچھنا۔

بشارت ترمیم

اس کے علاوہ ان کے بارے میں سرورِ کائنات حضوراکرمﷺ کی بہت سی ایسی منامی بشارتیں بھی منقول ہیں،جو یقینا ہشیم کے علوئے مرتبت اورجلالت شان کا ایک بڑا ثبوت ہیں۔ اسحاق الزبادی سے مروی ہے کہ میں بغداد میں ہشیم کی صحبت میں برابر آیا جایا کرتا تھا،وہیں ایک ثقہ شخص نے بیان کیا کہ ایک شب اس نے خواب میں رسولِ اکرم ﷺ کی زیارت کی،آپ نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کس سے حدیث کا سماع حاصل کرتے ہو؟ عرض کیا کہ ہمیں ہشیم بن بشیر سے کسبِ فیض کی سعادت نصیب ہے ؟ اس پر رسول اکرم ﷺ نے سکوت فرمایا شخص موصوف نے اپنی بات دوبارہ عرض کی،سُن کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نعم اسمعوا من ھشیم فنعم الرجل من ھشیم [24] ہاں ہاں ٹھیک ہے ہشیم سے سماع کرو کیوں کہ بہت ہی اچھا آدمی ہے۔ مشہور بزرگ معروف الکرخیؒ بیان کرتے ہیں کہ مجھے ایک شب حالت منام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہشیم سے فرما رہے ہیں۔ یا ھشیم جزاک اللہ تعالی من امتی خیراً [25] اے ہشیم تمھیں اللہ تعالی میری امت کی طرف سے جزائے خیر دے۔

وفات ترمیم

ہارون الرشید کے ایامِ خلافت میں 10 شعبان 183ھ کو بروز چہارشنبہ ہشیم کی وفات ہوئی [26]بغداد کے مشہور قبرستان خیزان میں تدفین عمل میں آئی،انتقال کے وقت 79 سال کی عمر تھی۔ [27]

حوالہ جات ترمیم

  1. (تہذیب التہذیب:11/59)
  2. (طبقات ابن سعد:7/61)
  3. (تاریخ بغداد:14/85)
  4. (تہذیب التہذیب:11/59)
  5. (طبقات ابن سعد:7/184)
  6. (میزان الاعتدال:1/257)
  7. (مرأۃ الجنان:1/393)
  8. (تذکرۃ الحفاظ:1/225)
  9. (طبقات ابن سعد:7/61)
  10. (تاریخ بغداد:14/85،وتہذیب التہذیب:11/59،60)
  11. (مراۃ الجنان:1/393)
  12. (العبر فی خبر من غبر:1/286)
  13. (تذکرۃ الحفاظ:1/226)
  14. (میزان الاعتدال:3/258)
  15. (تاریخ بغداد:90/14)
  16. (تاریخ بغداد:14/92)
  17. (میزان الاعتدال:3/258)
  18. (تذکرۃ الحفاظ:1/226)
  19. (طبقات ابن سعد:7/111)
  20. (تہذیب التہذیب:11/62)
  21. (تاریخ بغداد:14/89)
  22. (البدایہ والنہایہ:10/184)
  23. (میزان الاعتدال:3/257)
  24. (تاریخ بغداد:14/93)
  25. (تہذیب التہذیب:11/22)
  26. (تاریخ بغداد:14/93)
  27. (طبقات ابن سعد:7/61)