ہیلی کاپٹری پرورش[1] (انگریزی: Helicopter parenting) سے مراد ایک ایسی طرز پرورش ہے جس میں ایک ماں یا اس کا باپ بچے یا بچوں کے تجربوں اور مسائل پر کافی قریبی توجہ دیتی / دیتا ہے، بالخصوص تعلیمی ادارہ جات میں۔ ہیلی کاپٹری والدین، جیسے اس تصور کی جڑ ہیں، ہیلی کاپٹر کی طرح "تعاقبی نگرانی" کرتے ہیں، جس میں اولاد کی زندگی کے ہر واقعے کا مسلسل احاطہ کرنا شامل ہے۔

استعارے کی ابتدا ترمیم

اس استعارے کو اولًا ڈاکٹر ہائم گینوٹ نے اپنی کثرت سے فروخت ہونے والی کتاب بِٹوین پیرینٹس اینڈ ٹینیجر میں استعمال کیا، جس میں ایک نوجوان شکایت کرتا ہے: "ماں مجھ پر ہیلی کاپٹر کی طرح نگرانی کرتی رہتی ہے..."[2]

دی کرانیکل آف ہائر ایجوکیشن کی اطلاع کے مطابق ہیلی کاپٹری والدین نے بچوں کو مختلف باتوں کی وکالت گریجویشن تک بھی جاری رکھتے رہے، جیسے کہ بالغ اولاد کا کسی لا اسکول یا بزنس اسکول میں داخلہ۔[3] جیسے جیسے یہ ناز برداری والی اولاد پیشہ ورانہ لوگوں کا حصہ بنتی ہے، انسانی وسائل سے جڑے عہدے دار یہ اطلاع دیتے ہیں کہ والدین کام کی جگہ پر آتے جاتے رہتے ہیں یا مینیجروں کو فون کرتے ہیں اور اپنی بالغ اولاد کی حمایت کرتے ہیں یا ان کی تنخواہوں پر بھاؤ تاؤ کرتے ہیں۔[4]

کئی پُشتوں کی مطالعہ کرنے والے ماہر آبادیات نیل ہووے ہیلی کاپٹری پرورش کو کثیر الاولاد دور کے والدین کی پرورش کا طرز عمل قرار دیتے ہیں جو وائی پیڑھی کے بچوں کے لیے اپنایا گیا تھا۔ہو وے کے مطابق کثیر الاولاد دور کی پرورش پیڑھی ایکس کے والدین کی پرورش سے مختلف ہے۔ ان کے مطابق ثانی الذکر والدین "چھپے حرکیاتی والدین" ہیں کیوں کہ ان کا یہ رجحان ہے کہ وہ معمولی باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور سنگین مسائل کی صورت میں بغیر کسی تنبیہ کے حرکت میں آ جاتے ہیں۔ ہووے کے مطابق کی عین ضد کثیر الاولاد دور کے والدین ہیں جن تکمیلِ تعلیم میں مسلسل اہم کردار رہتا ہے، جس کا بیان یوں ہے کہ "کبھی معاون، کبھی عاجز کرنے والا لیکن ہمیشہ اپنے بچوں پر کڑی نظر اور شور مچانا شامل ہوتا ہے۔" ہووے کا بیان ہے کہ کثیر الاولاد دور کے والدین ناقابل یقین حد تک اپنے بچوں سے نزدیک ہوتے ہیں، جو ان کی رائے میں، ایک اچھی بات ہے۔[4][5]

ہیلی کاپٹری والدین یہ کوشش کرتے ہیں کہ "یہ یقینی بنایا جائے کہ ان کے بچے کامیابی کے راستے پر رہیں جسے وہ بناتے ہیں۔" ہیلی کاپٹری پرورش کا ابھر کر آنا دو سماجی تبدیلیوں کا ہم عصر رہا ہے۔ ان میں سے پہلی 1990ء کے دہے کی اچھال دکھاتی ہوئی معیشت، جس میں کم بے روزگاری اور وافر قابل خرچ آمدنی شامل تھی۔ دوسرے یہ بڑھا ہوا عوامی تاثر تھا کہ بچے خطرے میں پڑ جانے کا خدشہ رہتا ہے، ایک ایسا تاثر جسے آزادانہ پرورش کے حامی لینور اسکینازی نے "جنونیت سے سرشار" قرار دیا ہے۔[6]

چین ترمیم

تیانجین یونیورسٹی "محبت کے شامیانے" نصب کرتی آ رہی ہے جہاں سفر کر کے آنے والے ایسے والدین رہ سکتے ہیں جن کے بچے سالِ اول کی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے یہ لوگ جیم کے فرش سے نکلنے والے پایہ دانوں پر سو سکتے ہیں۔ سماجی میڈیا کے مبصرین نے یہ دلیل پیش کی ہے کہ ایک بچہ پالیسی ہے جو ہیلی کاپٹری پرورش کی صورت حال کو مزید ابتر کر رہی ہے (دیکھیے چھوٹے بادشاہ کا ماحول[7]

ادب ترمیم

جوڈیتھ وارنر یاد کرتی ہے کہ لیوین نے اپنی تحریروں میں یہ بیان کر چکی ہے کہ وہ جسمانی طور پر "زائد از ضرورت موجود" ہیں مگر جسمانی طور پر مفقود ہیں۔[8]

کیٹی روئفی نے لیوین کے کام پر سلیٹ میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہیلی کاپٹری پرورش کے غلط تاثرات کو گنایا ہے: "یہ بہت زیادہ موجودگی کے بارے میں ہے مگر یہ غلط طرح کی موجودگی کے بارے میں بھی ہے۔ در حقیقت یہ بچوں کی جانب سے عدم موجودگی سمجھی جا سکتی ہے، جس میں اس بات پر کوئی توجہ نہیں ہے کہ ان کے ساتھ فی الواقع ہو کیا رہا ہے ... جیسا کہ لیوین اشارہ کرتی ہے، یہ زائد وابستگی کی سے استحکام کے ملنے ہونے والی گڑبڑ کی کیفیت ہے۔" اسی طرح سے وہ یہ بھی اپنے قارئین کو یاد کراتی ہے کہ ہیلی کاپٹری پرورش "خراب یا عدم متوجہ والدین جو گرے ہوئے اقدار کے حامل ہیں، کا نتیجہ نہیں ہے ... یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ ان والدین کی علامت ہو جو مضحکہ خیز یا ناخوش یا گھٹیا انداز میں قابو میں کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی علامت بھی ہو سکتی ہے کہ اچھی نیتیں بے مقصد ہو گئی ہیں یا فطری والدین کے ڈروں پر ثقافت کا اثر ہو سکتا ہے۔[9]

چینی پرورش کے انداز کو بیٹل ہیم آف دی ٹائیگر مدر میں دکھایا گیا ہے اور اس کا موازنہ مغربی ہیلی کاپٹری پرورش سے کیا گیا ہے۔ نیسی گیبس ٹائم رسالے کے لیے لکھتے ہوئے ان دونوں کو "انتہا پرورشیں" قرار دیتی ہے، حالاں کہ وہ ان دونوں کے بیچ کلیدی فرقوں کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ گیبس نے بیان کیا ہے کہ شیر نما پرورش باریک بینی سے جڑے معاملوں کی ترقی پر مرکوز ہوتی ہے جیسے کہ موسیقی اور ریاضی جب کہ ہیلی کاپٹری پرورش "ضرورت سے زیادہ اس سوچ پر مرکوز ہے کہ ناکامیوں سے ہر قیمت پر کیسے بچا جا سکتا ہے۔" ایک اور فرق جس کا نہوں نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ شیر نما پرورش کا زور محنت پر ہوتا ہے جس میں والدین "انتہائی سخت اور حاکمانہ رویہ" اپنے بچوں کے لیے اپناتے ہیں، جو مغربی ہیلی کاپٹری پرورش سے متضاد ہے جس کے بارے میں وہ کہتی ہے کہ "بچوں کو روشنی میں رکھ کر ان کی دوستی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔"[10]

سابقہ اسٹینفورڈ کے ڈین جولی لیتھ کاٹ ہائمز نے اپنے خود کے تجربوں کی روشنی میں لکھا ہے جو تعلیمی طور پر تو تیار ہوتے ہیں مگر خود کے لیے پہل میں پیچھے رہتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب ہاؤ ٹو ریز این ایڈلٹ میں کہتی ہیں کہ ماں باپ کو اپنے بچوں کی ضرورت سے زیادہ مدد نہیں کرنا چاہیے۔[11]

اثرات ترمیم

یونیورسٹی آف جارجیا کے پروفیسر رچرڈ مُلینڈور نے کہا ہے کہ سیل فون کا پھیلاؤ ہیلی کاپٹری پرورش کے معاون عوامل میں سے ایک ہے— اسے وہ "دنیا کی سب سے بڑی نالی قرار دیتے ہیں جو پیٹ میں بچے کو ماں سے جوڑتی ہے"۔[12][13] کچھ والدین اپنے طور پر پڑھتی ہوئی کالج کی ٹیوشن فیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپنے سرمایوں کا تحفظ کر رہے ہیں یا کسی اور صارف کی طرح حرکت میں آتے ہیں۔[14] پیڑھیوں کے بیچ کی گئی تحقیق جو "دی گیرونٹالوجسٹ" میں چھپی تھی، یہ باور کراتی ہے کہ ماہرین تعلیم اور عوامی میڈیا ہیلی کاپٹری والدین پر تاسف ظاہر کرتا ہے جو اپنے بالغ بچوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں، مگر یہ اطلاع دیتا ہے کہ "پیچیدہ معاشی اور سماجی مطالبے یہ مشکل بناتی ہیں کہ کثرت اولاد کے دور کے بچے بالغوں کے دنیا میں اپنے قدم جما سکیں۔[15]

کلیر ایشٹن جیمس، ایک بین قومی والدین کے سروے میں اس نتیجے پر پہنچی کہ "ہیلی کاپٹری والدین" زیادہ خوش ہونے کی اطلاع دیتے ہیں۔[16] کچھ مطالعات سے یہ سجھاؤ آگے آیا ہے کہ زائد از ضرورت تحفظ فراہم کرنے والے، زیادہ بار اٹھانے والے یا زیادہ قابو میں رکھنے والے والدین اپنے بچوں میں لمبے وقت کے لیے دماغی صحت کے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ ان دماغی صحت کے مسائل کا بیان زندگی بھر جاری ہو سکتا ہے اور ان اثر ان لوگوں پر زیادہ ہو سکتا ہے جو شدید رنج جھیلتے ہیں، جیسا کہ یونیورسٹی کالج لندن کا بیان ہے۔ میڈیکل ریسرچ کاؤنسل کے مطابق "نفسیاتی قابو میں رکھنا ایک بچے کی آزادی کو محدود کر سکتا ہے اور انھیں اپنے برتاؤ پر گرفت رکھنے کے لیے کم قابل رکھ سکتا ہے۔" [17][18][19][20]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. Jill Weber۔ "Helicopter Parenting"۔ Healthy Living Magazine۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 مئی 2016 
  2. Dr. Hہائم گینوٹ (1969), Between Parent and Teenager, p. 18, New York, NY: Scribner. آئی ایس بی این 0-02-543350-4.
  3. "Helicopter Parenting—It's Worse Than You Think"۔ Psychology Today۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی 2016 
  4. ^ ا ب Jennifer Ludden (6 فروری 2012)۔ "Helicopter Parents Hover In The Workplace"۔ NPR۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2016 
  5. Neil Howe۔ "Meet Mr. and Mrs. Gen X: A New Parent Generation"۔ AASA - The School Superintendents Association۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اپریل 2016 
  6. Sarah Kendzior (12 نومبر 2014)۔ "Only Baby Boomers Could Afford to Be Helicopter Parents"۔ Yahoo Finance۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2016 
  7. Serenitie Wang، Katie Hunt (12 ستمبر 2016)۔ "Why 'tents of love' are popping up in Chinese colleges"۔ CNN۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2016 
  8. Judith Warner (جولائی 27, 2012)۔ "How to Raise a Child"۔ دی نیو یارک ٹائمز بک ریویو۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ جولائی 31, 2012 
  9. Katie Roiphe (جولائی 31, 2012)۔ "The Seven Myths of Helicopter Parenting"۔ سلیٹ۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ اگست 1, 2012 
  10. Nancy Gibbs (29 جنوری 2011)۔ "Roaring Tigers, Anxious Choppers"۔ Time۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 مئی 2016 
  11. Emma Brown (16 اکتوبر 2015)۔ "Former Stanford dean explains why helicopter parenting is ruining a generation of children"۔ Washington Post۔ 11 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2016 
  12. Briggs, Sarah; Confessions of a 'Helicopter Parent' (پی ڈی ایف), retrieved مئی 1, 2006 آرکائیو شدہ ستمبر 26, 2007 بذریعہ وے بیک مشین
  13. "Mullendore: Cell phone is umbilical cord for helicopter parents"۔ The University of Georgia - College of Education۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اپریل 2016 
  14. Ron Alsop (2008)۔ The Trophy Kids Grow Up: How the Millennial Generation is Shaking Up The Workplace۔ Jossey-Bass۔ ISBN 978-0-470-22954-5 
  15. Karen Fingerman (اپریل 2012)۔ "The Baby Boomers' Intergenerational Relationships"۔ The Gerontologist۔ 52: 199–209۔ PMC 3304890 ۔ PMID 22250130۔ doi:10.1093/geront/gnr139 
  16. "'Helicopter parents' have more meaningful lives, study finds"۔ Telegraph۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 نومبر 2013 
  17. "How overly-controlling your kids could give them lifelong psychological damage"۔ 3 September 2015۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 دسمبر 2018 
  18. Holly H. Schiffrin (2014)۔ "Helping or Hovering? The Effects of Helicopter Parenting on College Students' Well-Being"۔ Journal of Child and Family Studies۔ 23 (3): 548–557۔ doi:10.1007/s10826-013-9716-3 
  19. Leslie Loftis (17 اپریل 2014)۔ "9 Things We Don't Discuss About Helicopter Parenting But Should"۔ The Federalist۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2017 
  20. "Helicopter parents: Hovering may have effect as kids transition to adulthood"۔ Science Daily۔ 28 جون 2016۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جولائی 2017 

بیرونی روابط ترمیم