یاقوت مستعصمی

ماہر خطاط، خلافت عباسیہ کے متاخرین ماہرین خطاط میں سے ایک تھے۔

جمال الدین یاقوت مستعصمی (وفات: 1298ء) خلافت عباسیہ کے متاخرین ماہرین خطاط میں سے ایک تھا جسے ساتویں صدی ہجری کے خطاطین میں سے نمایاں شہرت حاصل ہوئی۔ اُسے عربی زبان و فارسی زبان کے تمام خطوط پر مہارت حاصل تھی۔ اُسے شش قلم خطاط اور قبلۃ الکتاب بھی کہا جاتا ہے۔

یاقوت مستعصمی
(عربی میں: ياقوت بن عبد الله الرومي المُستعصمي الطواشي البغدادي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش 13ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اماسیا   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1298ء (47–48 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ
ایل خانی سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
تلمیذ خاص ارغون کاملی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ خطاط ،  مصنف ،  ادیب   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی ،  فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل اسلامی خطاطی   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

نام یاقوت اور آخری خلیفہ خلافت عباسیہ المستعصم باللہ کی نسبت سے مستعصمی ہے۔ لقب جمال الدین تھا۔ یاقوت خلیفہ المستعصم باللہ کا غلام تھا جسے سقوط بغداد 1258ء میں ہلاکو خان نے قتل کروا دیا تھا۔ یاقوت کا سال پیدائش کسی تذکرہ نگاری کی کتاب میں موجود نہیں، البتہ اُس کا مقام پیدائش اماسیا ہے جو اَب ترکی میں شامل ہے۔ترک ماہرین خطاط یاقوت کو قِبلَۃ الْکِتَاب کہتے ہیں۔

تحصیل علم و فن خطاطی

ترمیم
 
یاقوت مستعصمی کا ایک شہ پارہ خط ثلث میں۔ (غالباً تیرہویں صدی)

خلیفہ المستعصم باللہ یاقوت کو بہت ہی عزیز رکھتا تھا، اُس نے نے یاقوت کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ یاقوت ادیب، عالم و فاضل اور شاعر تھا۔ مدرسہ مستنصریہ کے کتب خانہ میں وہ کتاب دار تھا۔ یاقوت نے ابن البواب کے دو شاگردوں عبد المومن اور شیخ حبیب کے سامنے خطاطی کی مشق کی۔بعد ازاں وہ خلیفہ کا کاتب دِیوان ہو گیا۔ ابن البواب کے بعد یاقوت مستعصمی خلافت عباسیہ کا نامور خطاط قرار پاتا ہے جس پر تجویدِ خط ِ ریاست کا خاتمہ ہو گیا۔یاقوت کے زمانے سے ہی شش قلم خطوط کا نام کتب میں آتا ہے۔ خط ثلث، خط نسخ، خط ریحان، خط محقق، خط توقیع اور خط رقاع۔ کوئی شخص ماہر کاتب قرار نہیں دِیا جاتا تھا جب تک کہ وہ اِن چھ خطوط میں مہارت حاصل نہ کرلے۔ یاقوت اِن چھ خطوط کا ماہر تھا۔ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ وہ خط ثلث اور خط ریحان سب سے بہتر لکھاکرتا تھا۔ قوانین خطوط کو اُس نے اپنے ایک شعر میں یوں جمع کر دیا ہے کہ:

اُصول و ترکیب کراس و نسبتہصعود و تشمیر نزول و ارسال

بہرکیف اُس نے فن کتابت اور تجویدِ خط کو ابن البواب سے آگے بڑھایا۔ اُس کے ہاتھ کے لکھے ہوئے آثار دنیا کے بہت سے عجائب گھروں میں موجود ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ اُس نے 364 مرتبہ مکمل قرآن مجید کو اپنے ہاتھ سے لکھا۔ استنبول، قاہرہ اور لندن میں اُس کے تحریرکردہ نسخہ ہائے قرآن مجید موجود ہیں۔ ایک نسخہ قرآن مجید خدا بخش اورئینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ میں موجود ہے جس مغل شہنشاہ شاہ جہاں اور اورنگزیب عالمگیر کی مہریں ثبت ہیں۔[1] مزید ایک نسخہ قرآن مجید ذخیرہ ٔ نوادرات سر سالار جنگ میوزیم، حیدرآباد دکن میں موجود ہے اور اِس پر مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر کی مہر ثبت ہے۔[2]

فن خطاطی سے عشق

ترمیم

اِس کو اپنے فن یعنی خطاطی سے عشق تھا۔ سقوط بغداد 1258ء میں جب ہلاکو خان نے بغداد میں قتل عام کروایا، دریائے دجلہ لوگوں کے خون سے سرخ ہو گیا، لوگ اپنی جانیں بچانے کی خاطر بغداد سے فرار ہونے لگے تو یاقوت بھی ایک ویران شکستہ مسجد میں جاکر چھپ گیا۔ قلم دوات تو ساتھ تھی، البتہ کاغذ پاس نہ تھا۔ دنیا کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے مگر یاقوت کو اپنی خطاطی کی مشق کی فکر تھی۔ اُس نے اِسی اثنا میں اپنی دستار کو کاغذ بناکر اُس پر لکھنا شروع کر دیا۔ دستار کو مینار سے باندھ کر پھیلا لیا، کمال یہ دکھلایا کہ دو بالشت موٹے حروف (اٹھارہ انچ کی موٹائی ) میں لکھنے شروع کردیے اور اِس مہارت سے لکھا کہ کپڑے کی لکھائی اور کاغذ کی لکھائی میں فرق معلوم نہ ہو سکا۔ اِسی دوران اُس کے ایک شاگرد نے آکر کہا کہ بغداد میں قتل عام ہو رہا ہے، کشتیوں کے پشتے لگ گئے، جلدی سے یہاں سے بھاگ نکلیں، اپنی جان بچائیں تو یاقوت نے جواب دِیا: ’’ خاموش! میں نے ایسا لکھا ہے کہ تمام دنیا اِس کی قیمت نہیں بن سکتی، بغداد اور یاقوت کس گنتی و شمار میں ہیں؟‘‘ ۔[3]

دربار جوینی سے وابستگی

ترمیم

سقوط بغداد 1258ء میں جب ہلاکو خان نے بغداد کو تباہ کیا تو یاقوت بغداد سے بھاگ نکلا تھا اور اِسی دوران وہ اتابک علاء الدین الجوینی کے دربار سے وابستہ ہو گیا تھا۔ اِس دور میں اُس کے پاس دور دور سے امرا اپنے بچوں کو خطاطی کی تعلیم دِلوانے کے لیے اُس کے پاس بھیجاکرتے تھے۔

شاگرد

ترمیم

یاقوت کے پانچ شاگرد تھے : ارغون کاملی، یوسف مشہدی، مبارک شاہ تبریزی، سید حیدر گندہ نویس، شیخ زادہ سہروردی بغدادی۔ اِن پانچوں شاگردوں نے شہرت پائی۔[4]

وفات

ترمیم

اواخر عمر تک وہ بغداد میں ہی مقیم رہا اور 698ھ مطابق 1298ء میں اُس کا انتقال بغداد میں ہوا اور اُسے امام احمد بن حنبل کے جوار میں دفن کیا گیا۔[5]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. باقیات شبلی، صفحہ 42، مطبوعہ مجلس ترقی ادب، لاہور 1965ء
  2. الزبیر: کتب خانہ نمبر،  صفحہ 122۔
  3. صحیفہ خوش نویساں،  صفحہ 187۔
  4. محمد سلیم:  تاریخ خط و خطاطین،  صفحہ 119، 120۔
  5. محمد سلیم: تاریخ خط و خطاطین،  صفحہ 118۔