یزدانی جالندھری
یزدانی جالندھری اردو میں جدید کلاسیکی روایت کے ترجمان شاعر ، افسانہ نگار ، مترجم، نقاد اور صحافی
یزدانی جالندھری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 16 جولائی 1915ء جالندھر ، برطانوی ہند |
وفات | 22 مارچ 1990ء (75 سال) لاہور ، پنجاب ، پاکستان |
شہریت | برطانوی ہند (16 جولائی 1915–14 اگست 1947) پاکستان (14 اگست 1947–22 مارچ 1990) |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، مدیر |
درستی - ترمیم |
ولادت
ترمیمیزدانی جالندھری (1915ء-1990ء) کی ولادت پنجاب کے ادب خیز شہر جالندھر کے گیلانی سادات گھرانے میں ہوئی۔ ان کا خاندانی نام ابو بشیر سیّد عبد الرشید یزدانی اور والد کا نام سیّد بہاول شاہ گیلانی تھا جو محکمہ تعلیم میں صدر مدرس تھے۔
تعلیم
ترمیمابتدائی تعلیم جالندھر میں حاصل کی۔ تقسیمِ برِصغیر سے پہلے ہی ان کا خاندان منٹگمری (ساہیوال) منتقل ہو گیا اور یزدانی وہاں سے مزید تعلیم کے لیے اسلامیہ کالج لاہور آ گئے جہاں ان کے دوستوں میں حمید نظامی،نسیم حجازی ،ضمیر جعفری،اور مرزا ادیب جیسے صحافی اور ادیب شامل رہے۔
شاعری
ترمیمشاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ پہلا شعر پانچویں جماعت میں کہا۔ ابتدا میں استاد تاجور نجیب آبادی سے اور بعد ازاں سلسلۂ مصحفی کے استاد شاعر مولانا افسر صدیقی امروہوی سے مشورہ سخن رہا۔ برِصغیر پاک و ہند میں انھیں اپنے دور کا اُستاد شاعر کہا جاتا ہے۔
صحافت
ترمیم1933 میں ادبی جریدہ "غالب" کا اجرا کیا جس میں احسان دانش اور خاطر غزنوی اور عبدالحمید عدم ان کی معاونت کرتے تھے۔
کالج کی تعلیم کے بعد کچھ عرصہ بمبئی کی فلم انڈسٹری میں گزارا جہاں ان کی دوستی ساحر لدھیانوی سے رہی۔ اس دور کے ان کے ادبی دوستوں میں کیفی اعظمی اور جاں نثار اختر کے نام بھی شامل ہیں۔ اسی دوران انھیں خوشتر گرامی کے رسالہ"بیسویں صدی" کی ادارت کا موقع بھی ملا۔ قیام پاکستان کے بعد یزدانی جالندھری پہلے کراچی مقیم رہے جہاں صہبا لکھنوی کے ادبی مجلہ "افکار" کی مجلسِ ادارت کے رکن رہے۔ اور چند فلموں کے لیے گیت اور مکالمے بھی لکھے۔ فلم کے لیے مہدی حسن نے جو پہلا گیت ریکارڈ کروایا وہ کراچی میں پاکستانی فلم ’’ شکار‘‘ کے لیے تھا۔ شاعر یزدانی جالندھری کے لکھے اس گیت کی دُھن موسیقار اصغر علی، محمد حسین نے ترتیب دی تھی۔ گیت کے بول تھے: ’’ نظر ملتے ہی دل کی بات کا چرچا نہ ہو جائے‘‘۔ اسی فلم کے لیے انھوں نے یزدانی جالندھری کا لکھا ایک اور گیت ’’میرے خیال و خواب کی دنیا لیے ہوئے۔ پھر آگیا کوئی رخِ زیبا لیے ہوئے‘‘ بھی گایا تھا۔
ساٹھ کے عشرے میں کراچی سے مستقل طور پر لاہور منتقل ہو گئے۔ یہاں وہ ماہنامہ "نیا راستہ"، "امدادِ باہمی"،" انقلابِ نو"،"محفل"، "اداکار" اور " اردو ڈائجسٹ" کے علاوہ روزنامہ سیاست کے ادارتی عملہ میں بھی شامل رہے۔ یزدانی جالندھری ادارۂ ادب کے سیکریٹری اور پاکستان رایٔٹرز گلڈ کے فعال رکن رہے۔ ان کی تخلیقات محفل، فنون، نقوش، تخلیق، شام وسحر، افکار اور پنج دریا جیسے معیاری ادبی جرایٔد میں جگہ پاتی تھیں۔ ادارۂ ادب، مجلسِ شمعِ ادب، مجلسِ سیرت اور ریڈیو پاکستان لاہور کے مشاعروں میں بھی شرکت کرتے تھے۔
رفقا
ترمیمیزدانی کے دوستوں میں طفیل ہوشیار پوری، انجم رومانی، شہرت بخاری، عبدالحمید عدم، ایف۔ڈی۔گوہر، شرقی بن شایٔق، عبدالرشید تبسم، تبسم رضوانی اورساغر صدیقی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
شعری مجموعے
ترمیمکتاب کا نام | تاریخ طباعت | تفصیل |
---|---|---|
ساغر انقلاب | 1930ء | رباعیات |
صبحِ سعادت | 1987ء | نعتیہ مثنوی |
تورات دل | 1991ء | غزلیات |
توصیف | 1992ء | نعتیہ شاعری |
تصانیف
ترمیم- لاہور کے شاعروں کا تذکرہ
- حسن پرست (افسانے)
- سماج
- قیدی کے خطوط
- آوارہ ( اردو ترجمہ)
- گورا (ناول از ٹیگور)
- افسانے (ٹالسٹائی)
وفات
ترمیمیزدانی جالندھری کا انتقال 22 مارچ 1990ء کو لاہورمیں ہوا۔ "روزنامہ جنگ" لاہور کے ادبی ایڈیشن نے احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وحید قریشی، میرزاادیب، ڈاکٹر انور سدید ،طفیل ہوشیارپوری، حمید اختر اور دوسرے اہم شعرا اور ادبا کے تعزیعتی پیغامات شائع کیے۔