یزید بن ابو سفیان
یزید بن ابو سفیان صحابی تھے۔ سب سے پہلے ملک شام کے بادشاہ ہرقل کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے کے لیے ان کو ہی روانہ کیا گیا تھا۔
یزید بن ابو سفیان | |
---|---|
(عربی میں: يزيد بن أبي سفيان بن حرب بن أمية) | |
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | مکہ |
وفات | نومبر639ء اماؤس |
وجہ وفات | طاعون |
والد | ابو سفیان بن حرب |
والدہ | زينب فراسیہ |
بہن/بھائی | |
خاندان | خلافت امویہ |
عملی زندگی | |
پیشہ | عسکری قائد |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمیزید نام، ابو خالد کنیت،خیر لقب،نسب نامہ یہ ہے، یزید بن ابی سفیان بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی قرشی اموی،ماں کانام زینب تھا، یزید حضرت امیر معاویہؓ کے سوتیلے بھائی اورابو سفیان کی اولاد میں سب سے زیادہ نیک اورسلیم الطبع تھے اس لیے یزید الخیر لقب ہو گیا تھا۔
اسلام و غزوات
ترمیمفتحِ مکہ میں اپنے اہل خاندان کے ساتھ مشرف باسلام ہوئے،غزوات میں سب سے اول حنین میں شرکت کی،آنحضرتﷺ نے حنین کے مالِ غنیمت سے چالیس اوقیہ (سونا یا چاندی) اورسو اونٹ مرحمت فرمائے [1] اوربنی فراس کا امیر بنایا۔ [2]
قیصر کی سلطنت
ترمیمملک شام کا بادشاہ ہرقل جس کا لقب قیصر تھا وہ اس وقت کا سب سے طاقتور بادشاہ تھا۔ شاہِ ایران کسریٰ اور شاہ روم قیصر اس وقت کی دو ایسی سپر پاور طاقتیں تھیں کہ جو آپس میں ایک دوسرے سے جنگ کرتی تھی لیکن کوئی تیسرا ان میں سے کسی ایک سے بھی جنگ کرنے کے قابل نہیں تھا۔ قیصر کی سلطنت کی سرحدیں مصر، شام اور قسطنطنیہ تک پھیلی ہوئی تھیں۔
قیصر پر پہلا حملہ
ترمیمقیصر کی سلطنت پر پہلا حملہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں، 8ھ میں موتہ کے مقام پر کیا گیا، جو دراصل قیصر کی سرکشی اور ظلم کا جواب تھا۔ مسلمانوں کے اندیشوں میں ایک یہ بھی تھا کہ اگر ملک شام کی سرحد پر حفاظت اور اقدام کا معقول انتظام نہ کیا گیا تو ممکن ہے کہ کبھی وہ مدینہ کے خلاف جنگ کا آغاز کر دے چنانچہ ابوبکر صدیق نے 634 عیسوی میں ایک ہزار گھوڑ سوار فوج کو یزید بن ابو سفیان کی قیادت میں ملک شام روانہ کیا اور اس کے قبیلۂ عامر کے ایک جانباز ربیعہ بن عامر کی قیادت میں ایک ہزار کی فوج بھیجی اور اس پوری فوج کا کمانڈر اعلیٰ یزید بن ابو سفیان کو بنایا۔ اس فوج کے مقابلے میں شاہ ہرقل (قیصر) نے دس ہزار کی فوج روانہ کی۔ قیصر کی رومی فوج چونکہ اپنے ملک میں تھی اور بہت ساری سہولتیں انھیں مہیا تھیں اس لیے مسلم فوج کی پریشانی کا سبب بننے لگی۔
کمک
ترمیممسلمانوں کے لیے جب صورت حال مخدوش ہونے لگی تو ابو بکر صدیق نے کمک کے لیے 9000 نو ہزار کی فوج عمرو بن العاص کی قیادت میں روانہ کیا اور اس کے بعد ابو عبیدہ بن جراح کو روانہ کیا گیا اور پورے فوج کی قیادت ان کے یعنی ابو عبیدہ بن جراح کے سپرد کی گئی۔
سیف اللہ کی قیادت
ترمیمجب مسلم فوج ابو عبیدہ بن جراح کی قیادت میں ملک شام میں قیصر کی رومی فوج سے بر سر پیکار تھی۔ ہرقل کی جنگی مہارت سے مسلمان کچھ دھوکا کھا گئے اور رومی فوج نے ایک طرح سے مسلمانوں کے گرد حصار ڈال دیا جس حصار سے نکالنے کے ابو بکر صدیق نے خالد بن ولید کو روانہ کیا جو اس وقت فتنۂ ارتداد کو کچلنے کے بعد شاہ ایران کسریٰ کے محلات کو ظلم و استبداد سے ازاد کر رہے تھے۔ جب انھوں نے تمام واقعہ سنا تو ایران کا محاذ مثنیٰ ابن حارثہ کے سپرد کیا اور برق رفتاری سے ملک شام اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے پہنچے اور تمام لشکر کے سپہ سالار اعلیٰ بنے۔ تمام لشکر کو آپ نے چند حصوں میں تقسیم کیا اور میسرہ (بائیں بازوں) کی قیادت یزید بن ابوسفیان کے حوالے کی۔
رشتے دار
ترمیمیزید کے والد ابو سفیان بن حرب تھے، ماں کا نام زینب بنت نوفل تھا ایک بھائی امیر معاویہ بن ابو سفیان تھے جن کی ماں حضرت ہندہ بنت وہب تھیں۔
حاکم دمشق
ترمیمجب ملک شام کے کئی علاقے فتح ہو گئے اور دمشق اسلامی سلطنت کا حصہ بن گیا تو یزید بن ابو سفیان کو وہاں کا حاکم (گورنر) بنایا گیا۔
ملک شام کے حکام
ترمیمشام کی فتوحات کی تکمیل کے بعد ابو عبیدہ بن جراح وہاں کے حاکم بنائے گئے۔ ان کے انتقال کے بعد معاذ بن جبل اور ان کے انتقال کے بعد یزید بن ابو سفیان ملک شام کے حاکم بنے۔
وفات
ترمیمملک شام میں طاعون کی بیماری پھیلی تو بڑی بڑی ہستیاں موت کی آغوش میں جا سوئیں، ابو عبیدہ بن جراح، معاذ بن جبل وغیرہ طاعون کے شکار ہوئے اور ایک دن 639 عیسوی میں یزید بن ابو سفیان بھی طاعون کے مرض کا شکار ہو کر مالک حقیقی سے جا ملے۔[3]