آبِ بقا، دو الفاظ کا مرکب آب یعنی پانی اور بقا یعنی دائمی، یعنی ایسا پانی جس کے پینے سے ابدی زندگی حاصل ھو،یہ ایک الف لیلوی لفظ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں،مشہور عرب داستان الف لیلہ میں بکثرت اس کا ذکر ملتا ہے، کہتے ہیں کہ ایک چشمہ ہے کوہ قاف کے کسی جنگل میں جس کا پانی پی لینے سے انسان ابدی زندگی پا لیتا ہے، لیکن اس کا پتہ ھر کسی کو معلوم نہیں ایک قصہ حضرت خضر علیہ السلام اور سکندر اعظم کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام سکندر اعظم کو اس چشمے تک لے تو گے لیکن پانی خود پی لیا اور سکندر کو چشمے تک پہنچنے نہ دیا لیکن یہ ایک فرضی داستان ہے۔ آب بقا کو آب حیواں بھی کہا جاتا ہے۔

حوالہ جات ترمیم