(تاج مسعود صاحب کی جدائی ) کلیوں کو میں سینے کا لہو دے کے چلا ہوں صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی🌹🌹🌹 اس دنیا میں کچھ لوگ بہت عظیم ہوتے ہیں. یہ لوگ صرف زندگی میں ہی عظیم نہیں ہوتے بلکہ موت کے بعد بھی ان کی عظمت کا چرچارہتا ہے، چنانچہ جب یہ عظیم لوگ ہمارے درمیان بھی نہیں رہتے تو بھی اپنی محبتیں، اپنی یادیں، اپنا خلوص چھوڑجاتے ہیں، اور صدیوں تک لوگوں کے دِلوں میں نقش رہ جاتے ہیں۔ وہ اپنے کام اور سچے جذبوں سے ہمارے لئے بہت کارآمد باتیں چھوڑجاتے ہیں۔ یہ انمول لوگ ہوتے ہیں جو بسا اوقات گمنام ضرور ہوتے ہیں مگر ایسی شمع روشن کر جاتے ہیں کہ برسوں لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں. تازہ ترین افسوس ناک سانحہ بھائیوں جیسے دوست اور دوستوں جیسے بھائی ٹیچر شعبہ علوم اسلامیہ ہزارہ یونیورسٹی جناب مولانا تاج مسعود صاحب کی وفات کا حادثہ ہے جو نہ صرف اپنے عزیز و اقارب بلکہ ہزاروں متعلقین اور محبت رکھنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی کے ساتھ جا ملے. مولانا تاج مسعود صاحب جن کو آج رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہوئے دل پر آرے چل رہے ہیں. تاج مسعود صاحب کے ساتھ تعلق سنہ 2000 کے بعدبنا 2008 کے بعد تعلق میں مزید وسعت ہوئی اور 2014 کے بعد تو زیادہ قربت رہی اس پورے عرصے میں تاج مسعود صاحب کو ایک بہترین انسان پایا، ان کی زبان، اخلاق، کردار نے بہت متاثر کیا، یہی وجہ ہے کہ آج ان کی وفات کے بعد چھوٹےکیا بڑےکیا اپنے کیا پرائےکیا ہر شخص ان کی تعریف کرتا نظر آتا ہے۔ وہ تھے بھی ایسے ہی کیونکہ اخلاص ان کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، تحمل، بردباری اور برداشت محنت جہدو جہد ان کا خاصہ تھا۔ نرم و شفیق لہجہ، صلح جو طبیعت حسن اخلاق، زندہ دلی اور دور اندیشی و دانائی ان سب خوبیوں سے مرقع تھے. مرحوم نے جیسی زندگی گزاری اور جس طرح انہوں نے اپنی زندگی کے آخری حصے تک دینی، عصری اور علمی خدمت کو اپنی زندگی کا مشن ومقصد بنائے رکھا اس نے ان کے نام کو علمی حلقوں میں ایک جانا پہچانا بلکہ قابل احترام نام بنا دیا تھا، قاری صاحب ان ہستیوں میں سے ایک تھے جن کے وقار واعتبار کی گواہی دی جا سکتی تھی وہ بڑے صاف گو اور بااخلاق وملنسار تھے. معاملات کی گہرائی تک جانا اور اس کا حل تلاش کرنے میں خاص دلچسپی دکھانا ان کا خاص ہنرتھا. یقیناً انسانی برادری کے کسی بھی فرد کو شخصیت بننے تک کا سفر طے کرنے میں برسوں لگ جاتے ہیں اور برسوں کے اس طویل سفر میں انہیں کئی ایسے امتحانوں اور آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے کہ ہر کوئی ان کا سامنا کرنے کی اپنے اندر ہمت نہیں رکھتا قاری تاج مسعود صاحب یقیناً ان تمام چیزوں میں باہمت انسان تھے. ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے مختلف امور پر گپ شپ ہوتی رہتی تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل جناب ڈاکٹر ساجد محمود صاحب کے ھمرا میرے گھر پر تشریف لائے پھر کزن نزیر صاحب کے ہمراہ ہم لوگ اچھڑ نالہ کی طرف کچھ دیر کے لیے چلے گئے قاری صاحب وہاں کی قدرتی حسن اور پانی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے واپس آکر کھانا کھایا پھر واپس ہوگے دوسرے دن جب ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ اب میں دوبارہ بچوں اور فیملی کو لیکر آپ کے پاس چکیاہ آؤں گالیکن کاش کہ زندگی وفا نہ کرسکی. کچھ دنوں سے ہم مختلف چیزوں پر مشورہ کررہے تھے بالا آخر اس میں وہ کامیاب ہوئے دو دوستوں کا راضی نامہ کروایا اور پیکچر گروپ میں بھیجی جس پر میں نے ایک چھوٹا سا شعر لکھ دیا جس کا تذکرہ ڈاکٹر سعید الحق جدون صاحب نے بھی اپنی تحریر میں کیا ھے کہ (گل مل کر مل جل کررہنےوالےدنوں کو غنیمت سمجھو. جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ھے) اس شعر کا اب پتہ چل رہا ہے کہ اصل میں یہ شعر میری زبان سے کس کے لیے نکلا تھا اور کون ہم سے جدا ہورہا تھا... دوسرے دن ڈیپارٹمنٹ میں کہنے لگے کہ اب دوسرے دوست کو بھی راضی کرنے کے لیے بعد میں بیٹھتے ہیں پھر کلاسسز میں مصروفیت کی وجہ سے مل بیٹھ نہ سکے. 22نومبر کی صبح ڈیپارٹمنٹ پہنچنے پر طبعیت کچھ خراب تھی موقع پر موجود دوستوں ڈاکٹر ساجد محمود صاحب ،عارف صاحب ،محبوب صاحب اور میں نے کافی اصرار کیا ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے لئے لیکن اس وقت تیار نہ ہوئے بعد میں ہم نے زبردستی گاڑی منگوا کر گھر بھیجا اور میں اور ڈاکٹر شاہد آمین صاحب انہیں گاڑی تک چھوڑنے ساتھ گے ہمیں یہی کہہ رھے تھے کہ میں تو بلکل ٹھیک ہوں آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں. ہم انہیں رخصت کرکے ایم فل کے وائیوا میں شریک ہوئے پھر مہمانوں کو لیکر گیسٹ ہاؤس پہنچے تو ڈاکٹر ساجد صاحب اور محبوب صاحب نے کال کرکے انکی فوتگی کی اطلاع دی یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہوگیا ھے کیونکہ کبھی کبھی موت پر اس وقت حیرت ھوتی ہے جب یہ کسی ایسی زندگی کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے جس کے بارے میں موت کا تصور دور دور تک نہ ہو۔اور اچانک موت دروازے پر دستک دے کر اس شخص کی زندگی کے اجالوں کو موت کے اندھیروں میں بدل دے تو دیکھنے اور سوچنے والے حیران اور پریشان رہ جاتے ہیں. یہ درست ھے کے جینا جھوٹ اور مرنا سچ ہے اور خالق کائنات کے ودیعت کردہ کروڑ ہا ذائقوں میں سے ایک ذائقہ موت کا ذائقہ ہر ذی روح نےچکھنا ہے. تاہم موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ اس دنیا میں موجود ہر انسان، ہر ذی روح نے ایک نا ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس فانی دنیا میں ہر چیز کی بنیاد ہے ماسوائے انسان کے، انسان جہاں تمام مخلوقات میں سے اشرف ہے وہیں زندگی کے معاملے میں سب سے بڑھ کر عدم یقینی کا بھی شکار ہے۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں کب کہاں کس حالت میں ساتھ چھوڑ جائے۔ ایک سانس کے بعد اگلا سانس لینا نصیب میں ہے یا نہیں اس کی کوئی گارنٹی نہیں، کوئی ضمانت نہیں. اسی طرح ہمارے دوست اور بھائی تاج مسعود صاحب مرحوم کی نماز جنازہ شام 7:30پر ادا کی گئی نماز جنازہ میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے والے احباب نے شرکت کی. مولانا قاری تاج مسعود صاحب مرحوم ممتاز علمی شخصیت جناب مولانا قاری تاج محمود صاحب کے بڑے صاحبزادے اور مولاناعامرمحمود، مولانا سہیل محمود، مولانا قاسم محمود، مولانا عادل محمود، قاری عاصم محمود، قاری نعمان محمود اورقاری عمر محمود کے بڑے بھائی تھے. قاری صاحب کے تین صاحبزادے ہیں بڑے بچے کا نام محمد زید، دوسرے بچے کا نام محمد اُسید اور تیسرے بچے کا نام محمد سنان ہیں. دعاھیکہ کہ اللہ تعالیٰ قاری صاحب مرحوم رحمتہ اللہ کی قبر اور آخرت کی تمام منازل کو آسان فرماکر جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے اور تمام لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے (محمد معروف صدیقی )

اطلاع فوتگی چکیاہ رستم اعوان صاحب آج ہم سے جدا ہو گے ہیں ۔ چکیاہ ارشد اعوان صاحب ایڈووکیٹ کے بھائی سابق DFO ریٹائرڈ رستم اعوان صاحب وفات پا چکے ہیں نماز جنازہ کل مورخہ یکم نومبر 2023 بروز بدھ کو چکیاہ میں ادا کی جائے گی ۔ مرحوم چکیاہ کی ہر دل عزیز شخصیت تھے ۔جنکی چال ڈھال میں تواضع، عاجزی انکساری ڈپتی ہوئی نظر آتی تھی۔ آپ فارسٹ ڈیپارٹمنٹ سے DFO ریٹائرڈ ہوئے وہاں بھی شاندار انداز میں خدمات سرانجام دیں، ریٹائرڈ منٹ کے بعد سے مسجد کی خدمت میں بھی مصروف تھے آج ظہر کی نماز ادا کی اور پھر تلاوت قرآن پاک کے بعد جناب رستم اعوان صاحب اپنے خالق حقیقی سے جاملے جناب رستم اعوان صاحب کی جدائی سے علاقہ ایک اور عظیم شخصیت سے محروم ہو گیا ہے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی آنے والی منازل کو آسان فرمائے اور تمام لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے ۔محمد معروف صدیقی چکیاہ ۔

مفتی سعید احمد خان الندوہ لائبریری اسلام ترمیم

(مولانا مفتی سعید احمد خان علم و ادب کے علمبردار)

26 نومبر 2023 بروز اتوار کو اسلامک اینڈ ریلیجئس سٹڈیز کے وفد کے ساتھ مولانا مفتی سعید احمد خان صاحب بانی الندوہ لائبریری اسلام آباد سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا. مولانا مفتی سعید احمد خان ایک ایسے عظیم انسان ہیں جنہوں نے اپنی زندگی علم و ادب کے فروغ کے لیے وقف کر دی ھے ۔ انہوں نے ایک ایسی لائبریری قائم کی ہے جو اسلام آباد بلکہ پاکستان کی ایک اہم علمی و ثقافتی مرکز ہے۔

مولانا مفتی سعید احمد خان کی شخصیت علم و ادب سے بھرپور ہے۔ آپ ایک متقی، عالم اور مخلص انسان ہیں۔ وہ ایک اچھے خطیب بھی ہیں۔آپ ہمیشہ علم اور تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرتے رہتے ہیں۔

آپ نے الندوہ لائبریری کی بنیاد کئی سال پہلے  رکھی  تھی۔ اس وقت، مولانا مفتی سعید احمد خان ایک نوجوان طالب علم تھے۔ انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے اس لائبریری کو ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے میں تبدیل کر دیا ہے۔

الندوہ لائبریری میں عربی، فارسی، اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں کے کتابوں کا وسیع ذخیرہ ہے۔

الندوہ لائبریری اسلام آباد کی ایک اہم علمی و ثقافتی مرکز ہے۔ یہ لائبریری ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کو بدل رہی ہے۔

الندوہ لائبریری درج ذیل خصوصیات پر مشتمل ھے. یہ لائبریری تمام طبقات کے لوگوں کے لیے کھلی رہتی ھے۔یہ لائبریری علم اور معلومات کا ایک بڑاذخیرہ ھے ۔یہ لائبریری ثقافتی ورثے کی حفاظت میں مدد کرتی ہے۔یہ لائبریری سماجی اور فکری بیداری کو فروغ دیتی ہے۔مولانا مفتی سعید احمد خان کی ان خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مفتی صاحب علم و ادب کے ایک علمبردار ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ اس مقصد کے لیے وقف کر دیا۔

محمد معروف صدیقی لیکچرار ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ Muhammad Mahroof Siddiqui (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:18، 5 دسمبر 2023ء (م ع و)

وائس چانسلر ہزارہ یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محسن نواز صاحب ترمیم

"وائس چانسلر ہزارہ یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محسن نواز صاحب: ایک علمی رہنما"

پروفیسر ڈاکٹر محسن نواز صاحب، ہزارہ یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر ہیں علم و دانش کے ایک عظیم مجسم ہیں۔ ان کی شخصیت میں علم کی روشنی، تدبر، اور قائدانہ صلاحیتیں جابجا نظر آتی ہیں۔ ایک مؤقر علمی مقام پر فائز ہونے کے باوجود، وہ انتہائی عاجزی اور انکساری سے اپنا کردار نبھا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی علم کے فروغ، تحقیق کی ترویج، اور طلباء کی فکری اور اخلاقی تربیت کے لیے وقف کر رکھی ہے ۔

ڈاکٹر محسن نواز صاحب نے مختلف تعلیمی و تحقیقی منصوبوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کی تحقیقی مقالات علمی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کے کام نے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی حاصل کی ہے۔ ان کی تحقیقی دلچسپیاں اور عمیق مطالعہ مختلف موضوعات پر محیط ہے، جن میں سائنسی تحقیق، تعلیمی ترقی، اور اخلاقی فلسفہ شامل ہے.

ایک وائس چانسلر کی حیثیت سے، ڈاکٹر محسن نواز صاحب نے ہزارہ یونیورسٹی کی ترقی اور بہتری کے لیے بے شمار اقدامات کیے ہیں۔ ان کی قائدانہ صلاحیتوں نے یونیورسٹی کو ایک نیا مقام دلایا ہے۔ انہوں نے تعلیمی معیار کو بلند کرنے، جدید تحقیقاتی منصوبے متعارف کرانے، اور طلباء کے لیے ایک سازگار تعلیمی ماحول فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

ڈاکٹر محسن نواز صاحب کی شخصیت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ فیکلٹی، ایڈمنسٹریشن کے ساتھ ساتھ طلباء کے لیے ایک مشفق رہنما ہیں۔  وہ ہر فرد کے مسائل کو نہایت سنجیدگی سے سنتے ہیں اور ان کے حل کے لیے عملی اقدامات کرتے ہیں۔ ان کی موجودگی ایمپلائیز اور طلباء کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہے اور ان کی راہنمائی میں طلباء تعلیمی میدان میں نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔

ہزارہ یونیورسٹی، جو کہ خیبر پختونخواہ کے خوبصورت علاقے میں واقع ہے، اپنی علمی اور تحقیقی خدمات کی وجہ سے نمایاں مقام رکھتی ہے۔ یونیورسٹی نے اپنی تاسیس سے لے کر آج تک تعلیمی معیار کو بلند کرنے اور تحقیق کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ہزارہ یونیورسٹی مختلف علمی شعبہ جات میں تعلیمی پروگرامز پیش کرتی ہے،  یونیورسٹی کا تحقیقاتی شعبہ بھی انتہائی فعال ہے، جو مختلف قومی و بین الاقوامی تحقیقی منصوبوں میں مصروف عمل ہے۔

یونیورسٹی کا علمی ماحول اور ثقافتی ورثہ طلباء کو ایک منفرد تعلیمی تجربہ فراہم کرتا ہے۔ یہاں مختلف ثقافتی اور علمی تقریبات کا انعقاد ہوتا رہتا ہے، جو طلباء کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، یونیورسٹی کا خوبصورت کیمپس، قدرتی مناظر سے گھرا ہوا ہے، جو طلباء کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر محسن نواز صاحب کی قیادت میں ہزارہ یونیورسٹی ایک روشن مستقبل کی جانب گامزن ہے۔ ان کی علمی و تحقیقی خدمات، قیادت، اور انتظامی صلاحیتوں نے یونیورسٹی کو ایک نمایاں علمی و تحقیقی مرکز بنا دیا ہے۔ ان کی شخصیت اور ان کے کام کی بدولت، ہزارہ یونیورسٹی نے نہ صرف مقامی بلکہ، صوبائی، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھی ایک ممتاز مقام حاصل کیا ہے۔

اللہ تعالی ڈاکٹر محسن نواز صاحب اور جامعہ ہزارہ  کو دن دوگنی ترقی نصیب فرمائے.

(محمد معروف صدیقی لیکچرار اسلامک سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ) Muhammad Mahroof Siddiqui (تبادلۂ خیالشراکتیں) 05:16، 18 مئی 2024ء (م ع و)