سانچہ:حقوق نسخہ مشکوک

مفتی محمد وقاص ولد ،محمد تاج،ولد ،حاجی محمد شریف ،ولد سکندر خان تاریخ پیدائش ریکارڈ کے مطابق 04-04-1979 اور والدین کے زبانی (1981 ) پرائمری تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول معصومہ میں حاصل کی ،پہلے استاد صادق بکوٹی ۔جنہوں تقریبا دس سال تک اس سکو

متن

ل میں پڑھایا۔ اور آج کل وہ بکوٹ ہائی سکول میں پڑھانے کے فرائض ادا کر رہے ہیں،اور دینی تعلیم کی ابتدامولانا شعیب علوی صاحب جو کے بیروٹ سے آ کر ہمیں گھر میں پڑھاتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد انھوں نے گھریلو مجبوری کیوجہ پڑھانے سے معذرت کی تو پھر مولانا قاری اسلم صاحب جو جامع مسجد باسیاں میں امامت کے فرائض اد کرتےتھے،وہ پڑھانے کے لئے آنے لگے،کچھ عرصہ بعد یہ بھی چھوڑ گئے، ان کے بعد 2 ،3 اساتذہ اور بھی پڑھانےآئے، جن کے نام یاد نہیں۔تعلیم کا یہ سلسلہ وقفہ وقفہ سے چلتا رہا، مطلب یہ کہ درمیان میں ربط ٹوتے تھے۔تقریبا 3 سال تک یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ اس دوان چونکہ وہ صبح کے وقت فارغ ہوتے تھے،تو دادا نٹ بھی جاتا تھا۔آخر کار قاری یسین صاحب جو کے کشمیر(ہٹیاں بالا) کے تھے وہ آئے،انہوں نے رہائش ہمارے چچا(حاجی احسان)جو ان دنوں کراچی میں رہائش پذیر تھے، کے گھر اختیار کی اور ہمارے گھر آ کر بیٹھک میں پڑھاے ان کی بات قریب واقع گونمنٹ سکول (معصومہ سکول)میں کرا دی ،وہ وہاں بچوں کو صبح اسمبلی سے پہلے قرآن اور اسمبلی میں نماز او کلمے وغیرہ سیکھا تے تھے۔ا بھی بھی ان کے پاس کافی وقت ہوتا تھا تو پھر دادا نے کوہالہ میں ایک ٹیلر (درزی) سے بات کر کے انھیں وہاں سلائی سیکھنے کے لئے چھوڑ دیا تھا،تاکے وہ ساتھ ساتھ ہنر بھی سیکھ جائیں۔یہ تقریبا 1990 کے لگ بھگ کی بات ہے اس زمانے میں قاری صاحب کو 2500 روپے ماہوار تنخواہ اور رہائش بمع کھانا دیتے تھے،اور بعض اوقات نقد جیب خرچ بھی دے دیتے تھے،میں نے انھی سے چوتھی کلاس میں جب سکول پڑھتا تھا،تو قرآن ناظرہ پڑھ لیا تھا،اس ے بعد انہوں نے حفظ میں بٹھایاتقریبا 2 پارے حفظ بھی کیے تھے۔یاد رہیے یہ قاری صاحب ہمارے گھر تقریبا 5 سال تک پڑھاتے رہے اس دوان کافی بچوں نے حفظ قرآن شروع کیا بعض تو 20 پاروں تک بھی پہنچے ۔ اسی دوران لوئر بیروٹ (چوکی) کی مسجد میں امام نہیں تھا تو دادا نے وہاں بات کی او قاری یسین صاحب کو مسجد مں امام مقرر کرا دیااور اب یہ وہاں مسجد سے ظہر کی نماز پڑھاکر فاران بس پر آتے تھے او عصر کی نماز سے پہلے تک پڑھاتے او پھر عصر کی نماز پر اپنی مسجد میں پہنچ جاتے تھے۔اب قاری صاحب کی مسجد کی ذمہ داریاں بڑھنے لگی تو ان کی توجہ پڑھانے میں کم ہونے گی،اس وقت قاری صاحب کے پاس اسی(80 ) سے زیادہ بچے ہمار گھر میں پڑھنے آتے تھے۔جب قاری صاحب دیر سے آتے تو بچوں کی شکایات ہونے لگی ،کیونکہ اتنے بچوں کو سنبھالنا کسی اور کے بس میں نہیں تھا۔اس پر قاری صاحب سے کئی بار بات کی گئی،تاہم وہ بھی مجبور تھے کہ سجد کی ذمہ داراں او نمازیوں کی ضرویات کے لئے انھیں بعض اوقات رکنا پڑتا تھا۔۔تو انھوں نے پڑھانے کو خیر آباد کہ دیا اور اب مکمل طو پر مسجد میں ہی امامت اور وہاں کے بچوں کو پڑھانے میں مصروف ہو گئے۔ہمارا تعلیمی سلسلہ ایک بار پھر رک گیا۔کچھ ماہ کے بعد مولانا عثمان عباسی صاحب نے قاری منظور صاحب جو کے کہونی سکول میں اسلامیات ٹیچر تھے او کہوٹی میں چنڈگوئی والی مسجد میں امامت کےفرائض ادا کرتے تھے، ان سے بات کی اور اب وہ سکول سے چھٹی کے بعد ہمارے گھر پڑھانے آنے لگے۔اب کافی وقت سےتعلیمی سلسلہ ختم ہو گیا تھا، انھوں نے تمام بچوں کو دوبارہ شروع سے قرآن پڑھانا شروع کیا۔ میں نے ان سے نورانی قاعدہ اور عم پارہ(30)پارہ دوبارہ پڑھا، اسی دوران ان کی یہاں سے تبدیلی ہو گئ اور ہمارا تعلیمی سلسلہ ایک بار پھررک گیا،اور میں اپنے بھائیوں اور چچا زاد کے ساتھ باسیاں مسجد میں پڑھنے جانے لگے اس وقت وہاں مولانا عثمان عباسی صاحب جو ہوتریڑی سے نئے نئے باسیاں منتقل ہوئے تھے اور قاری علی اکبر صاحب جو غالبا بوئی کی طرف کے تھے او مڈل سکول کہونی میں عربی کے استاد تھے،ان سے پڑھنے لگا، چونکہ یہ قای یسن صاحب کے زمانے سے ہمارے گھر بچوں کا امتحان لینے آتے تھےاس لئے ان سے کچھ شناسائی تھی۔ یہ بھاری بھر کم جسامت کے مالک تھے۔اور بڑے بارعب انسان تھے۔طلبہ کے ساتھ عام لوگوں پر بھی ان کا رعب تھا,کچھ وقت حضرت سے پڑھا پھر دوبار قاری فضل ربی صاحب گھر میں پڑھانے کے لئے آنے لگے،یہ بھی لوئر بیروٹ (چوکی) کی جامع مسجد میں امامت کرتے تھے ابھی ان سے تین پارے ہ پڑھے تھے کہ انھوں نے چھوڑ دیا۔ پھر دو تین ماہ ایسے ہی گزر گئے، تو انھوں نے دوبارہ آنا شروع، چونکہ حسب معمول ہر استاد قرآن پہلے پارے سے شروع کراتا ہے، اس لئے انھوں نے بھی ہمیں دوبار پہلے پارے سے ہی شروع کروایا ابھی تیسرے پارے میں ہی پہنچے تھے کہ یہ پھر چھوڑ گئے،اس کے بعد بھی ایک دو استاد اور پڑھانے آئے لیکن ان کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزرا۔تو میرے قرآن کی تعلیم کے یہی ابتدائی استاد ہیں جن سے میں نے قرآن اور ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی اس کے ساتھ چونکہ سکول پڑھنے کی بھی ترتیب تھی ،کیونکہ یہ قرآن کی تعلیم تو حسب روایت ظہر کے بعد ہوتی تھی۔تو میں پہلے عرض کر چکا ہوں کے سکول میں پہلے استاد جناب صادق صاحب تھے جو بکوٹ سے پڑھانے آتے تھے۔ یہ انتہائی سخت مزاج اور پڑھانے میں ماہر استاد تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ سکول ان ہی کی وجہ سے چلتا تھا تو بجا نہ ہو گا، وہ پڑھانے کے ساتھ علاقے کے لوگوں سے بھی اچھے تعلقات رکھتے تھے۔جس کی وجہ سے ہر ایک دکھ درد میں شریک ہوتے تھے پہلی جماعت (قاعدہ)ان ہی سے پڑھی اور ان کے ساتھ دوسرے استاد ظہیر صاحب تھے جن کا تعلق غالبا سرکل دلولہ سے تھا معروف پہلی کلاس (جو سکول میں بچوں کا دوسرا سال ہوتا ہے) وہ ظہیر صاحب سے پڑھی، یہ سکول کے دفتر میں ہی رہتے تھے چونکہ ان کا گھر دور تھا اور روزانہ آنا جانا مشکل تھا۔میں پہلی اور دوسری کلاس میں پڑھتا کم اور شرارتیں زیادہ کرتا تھا،جس کی وجہ سے صادق صاحب کے عتاب کا شکار رہتا تھا، البتہ دوسری کلاس کے بعد ٹھیک طرح پڑھنے لگا۔چونکہ دینی تعلیم کا گھر میں انتظام تھا، اس لئے دینی تعلیم کی وجہ سے میں ہہت سارے دوسرے طالب علموں پر فائق رہتا تھا، ویسے بھی ہمارے استاد محترم جناب صادق صاحب مذہبی ذہن کے مالک تھے۔تو وہ ایسے طلبہ کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ ان کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔وہ اکثر طلبہ سے نماز کا بھی پوچھا کرتے تھے۔ میں روزانہ صبح کی نماز پابندی سے پڑھتا تھا۔او پوچھنے پر بتاتا تھا کہ آج شروع کر دی ہے، جس کی وجہ سے شاباش ملتی او استاد خوش ہوتے تھے۔ تقریبا تیسری کلاس سے میں نے اسمبلی میں تلاوت کرنا شروع کی جو پانچویں تک تقریبا بلا ناغہ کرتا رہا، چونکہ گھر میں پڑھانے والا کوئی نہیں تھا، اس لئے خود ہی جو کام لکھنا کا ملا کرتا وہ کر دیاکرتا باقی یاد کرنے والی بات نہیں تھی، پرئمری تعلیم کے دوران ایک صاحب جو بے روزگار تھے اور کھبی کھبی سکول آ جاتے، چونکہ وہ کچھ پڑھے لکھے تھے ان کی بیٹی ہمارے ساتھ سکول میں پڑھتی تھی ،وہ اسے گھر میں بھی پڑھاتے تھے و کھبی کھبار وہ ریاضی کے سوالات حل کر لیتی تو اس کے والد صاحب اسے کلاس کا مانیٹر مقرر کر دیتے تھے۔ البتہ اکثر ٹائم مانیٹر بھی میں ہی ہوتا تھا۔چوتھی کلاس میں تھا کہ صادق صاحب کی ٹرانسفر ہو گئی اور وہ بکوٹ چلے گئے اور ان کے ساتھ جو استاد ظہیر صاحب پڑھاتے تھے انکی ٹرانسفر اس سے پہلے ہو گئی تھی اور ان کی جگہ جمیل صاحب آئے ان کا تعلق پچپن سے تھا۔ انھوں نے ایک یا ڈیڑھ سال پڑھایا او پھر ان کی ٹرانسف ہو گئی،یہ بہت ہی نرم مزاج استاد تھے۔اب پتہ نہیں کہاں ہوں گے جہاں بھی ہوں اللہ انھیں خوش رکھے ،اور اگر فوت ہو گئےہیں، تو اللہ ان کی مغفرت کرے۔

پھرفرید صاحب جن کا تعلق بھی بکوٹ سے ہے وہ آ گئے یہ ایک انتہائی نرم مزاج انسان تھے طلبہ سے ہہت نرمی کرتے تھے، جس کی وجہ سے صادق صاحب بعض اوقات انھیں ڈانٹ بھی دیتے تھے صادق صاحب کے جانے کے بعد ان کی جگہ اعظم صاحب استاد بن کر آئے، جو اس وقت کم عمر تھے غالبا شادی بھی نہیں کی ہوئی تھی ۔جو درمیانہ مزاج کے استاد تھے۔ سزا بھی دے دیتے تے اور طلبہ سے گپ بھی کر تے تھے۔کچھ وقت کے بعد ان کی بھی ٹرانسفر ہو گئی تو پھر فرید صاحب اکیلے ہی سب کلاسوں کو پڑھانے لگے پانچوں کی کلاس فرید صاحب سے پڑھی اور بورڈ کا امتحان گونمٹ مڈل سکول باسیاں (کہونی) میں دیا، اور پاس ہونے پر پھر یہاں ہی چھٹی کلاس میں داخل ہوا۔

              یہاں اس وقت ہیڈ ماسٹر ممتاز شاہ صاحب تھے ، جو اکثر کلاسوں کو انگش پڑھاتے تھے۔البتہ میں نے ان سے نہیں پڑھا،اور غالبا ساتویں کلاس میں تھے کہ یہ ریٹائر ہو گئے ، طلبہ پر ان کا بڑا رعب تھا کئی طلبہ نے ان سے ڈر کر سکول چھوڑا ،یہ طلبہ کو ڈنڈے سے مارنے کے ساتھ زبان سے بھی ہہت کچھ کہتے تھے اکثر طلبہ کو ان کے دادا کے نام سے بلاتے تھے جو طلبہ کے لئے باعث شرم ہوتا تھا۔اکثر وہ طلبہ جن کے دادا فوت ہو چکے ہوں  تو وہ کچھ زیادہ ہی برا مناتے تھے۔ بہت کم طلبہ ان کی مار سے بچتے تھے۔ وہ کسی نہ کسی ہہانے ڈنڈا مار ہی دیتے تھے۔ خوش خطی کے شیدائی تھے اور اکثر طلبہ کو ”نڑ ″ کی قلم اور پھر لکڑی کا بنا ہوا ”ہولڈر″ استعمال کرواتے تھے۔ بال پوائنٹ کے استعمال کے سخت دشمن تھے طلبہ کو بال پوائنٹ استعمال نہیں کرنے دیتے تھے ۔اس وقت مڈل سکول میں دیگر اساتذہ میں وحید صاحب (کہوشرقی) جو آج کل ہائی سکول بیروٹ میں پڑھا رہے ہیں۔یہ بھی سخت مزاج استاد تھے۔ان سے بھی طلبہ بہت ڈرتے تھے اکثر وہ اور ہیڈ ماسٹر صاحب ایک گاڑی پر آتے تھے،  او طلبہ اسمبلی کے دوران ہی گاڑی کے طرف دیکھتے تھے، کہ آج آئے ہیں یا نہیں۔ ان سے چھٹی کلاس میں انگلش پڑھی اور ساتویں اور آٹھویں میں ریاضی  پڑھا جونکہ ان کا دینی تعلق تبلیغ جماعت سے ہے او یہ ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں چلہ لگانے جاتے ہیں اور نومبر میں  رائیونڈ اجتماع میں ضرور شرکت کرتے ہیں۔ آٹھویں والے سال یہ اجتماع کے بعد بیمار ہو گئے تھے جس کی وجہ سے انھوں نے کافی چھٹیاں کی تھیں ،ان کا معمول ہوتاتھا ۔ کہ اجتماع کے بعد آٹھویں کلاس کے ریاضی کی دورائی کراتے تھے، جونکہ آٹھوین میں بورڈ کا امتحان ہوتا تھا، اور نومبر تک سلیبس ختم کر لیا جاتا تھا، یہ کوشش کی جاتی تھی کہ جلدی ختم ہو جائے، اور دورائی شروع کی جائے۔ بہر حال ان کی یماری کی وجہ سے ہماری کلاس کو مار کھانے سے ریلیف مل گیا تھا، چھٹی کلاس میں ہم ابھی نئے نئے آئے تھے کہ قاری مطیع الرحمان صاحب بھی ٹرانسفر ہو کر مڈل سکول باسیاں آگئے تھے، یہ ایک کمزو جسم عالم دین تھے جن کا وسعت مطالعہ غضب کا تھا، پڑھانے میں بھی کافی سخت مزاج تھے، مجھے پڑھائی میں تو نہیں، البتہ لکھائی کی وجہ سے کھبی کبار ڈانٹ یا مار پڑ جاتی تھی۔ ان سے چھٹی کلاس میں اردو اور اسلامیات پڑھی او ساتویں اور آٹھویں میں صرف اسلامیات پڑھنے کا موقع ملا، البتہ ان سے دوران طالب علمی بھی اور بعد میں بھی ایک اچھا تعلق رہا ۔یہ سکول کے ساتھ لوئر بیروٹ (فرش) میں ایک مسجد میں امامت کراتے تھے ،وہاں ہی انھوں نے مسجد کے ساتھ اپنا گھرانہ رکھا ہوا تھا۔اور خطابت کوہالہ بازار کی مرکزی جامع مسجد میں کراتے تھے۔کچھ وقت کے بعد انھیں کینسر کا مرض ہو گیا، جس کی وجہ سے انھوں ریٹائر منٹ قبل از وقت لے لی تھی۔ البتہ مسجد میں نماز پڑھاتے تھے۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ آبائی علاقے منتقل ہو گئے ۔ 2006  یا 2007 مں حویلیاں کسی مسجد میں امامت و خطات کے لئے چلے گئے،اور وہاں ہی ان کاانتقال ہو گیا ۔اللہ تعالی ان کی مغفرت کرے ،اور اپنی کروڑوں رحمتیں ان کی قبر پر  برسائے، ان کے علاوہ قاری علی اکبر صاحب جن کا ذکر قرآن پڑھنے کے حوالے سے پہلے کر دیا ہے،وہ بھی مڈل سکول باسیاں میں عربی کے استاد تھے ان سے چھٹی اور ساتھویں کی کچھ عربی پڑھی  پھر ان کی بھی ٹرانسفر ہو گئی ۔ اب سنا ہے کہ وہ مدینہ میں ہوتے ہیں (واللہ اعلم )یہ بھی انتہائی ذہین اور وسیع مطالعہ رکھنے والے سخت مزاج استاد تھے البتہ طلبہ پر بڑے شفیق تھے ،اپنے مؤقف پر ڈٹ جاتے تھے پھر چاہیے کچھ بھی ہو جائے اس سے پیچھے ہٹنے کا نام ان کی زندگی میں نہیں تھا۔تقریبا مروجہ علوم ساے ہی ان کے مطالعہ سے گز چکے تھے اور ادیاناور مسالک پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔۔ان کے علاوہ ایک استاد اظہر صاحب تھے جن کا تعلق ایبٹ آاد نیو شہر سے تھا ، انہوں نے مڈل سکول باسیاں میں دس  سال تک پڑھایا ہے یہ سارے علاقے اور لوگوں کو جانتے تھے۔۔جب    ہیڈ ماسٹر ن کر سکول آئے تو۔اظہر صاح کہنے لگے یہ بھی یہاں پہلے سائنس کے استاد رہ چکے ہیں اب مجھے ھی ٹانسفر کرا لینی چاہئے ،تاکہ پھر ہیڈ ماسٹر ن کر آؤں اس وقت ہمیں یہ بات عجیب لگی لیکن 2 ،  3   سال بعد انھوں نے اپنی ٹرانسفر  کرا لی اور ایٹ آاد چلے گئےپھر کچھ عرصہ بعد دوارہ ہیڈ ماسٹر ن کر آئے او تقریا دو یا تین سال تک ہیڈ ماسٹر رہے ، پھر ٹرانفسر کرا لی آج کل وہ ایبٹ آباد نیو شہر میں گھر کے قریب ہی پڑتے ہیں اور  کبھی کبھار سالانہ امتحانات میں ڈیوٹی وغیرہ لگوتے رہتے ہیں ان کے ساتھ پی ،ٹی کی پوسٹ پر پویز صاحب تھے۔جو کہ پی ٹی کے ساتھ ساتوین او آٹھویں میں  انگریزی پڑھاتے تھے  تازہ تازہ ایم۔ اے کیا تھا،تو باقی اساتذہ پر فائق رہتے تھے۔ چونکہ اس وقت ہمارے ہت سارے اساتذہ ایف ۔اے کیے ہوئے تھے۔جس طرح ویڈ صاحب جن کا ذک پہلے کر چکا ہوں او اظہر صاحب بی۔ایس سی ،کیے ہوئے تھے بہ حال یہ اس وقت کی ات تھی جس وقت ٖایف ۔اے ھی ہت مشکل او اعلی تعیم شمار کیا جاتا تھا۔ ایک بات یاد رکھنے کی ہے اکثر لوگ پانی کتایں دیکھ کر کہہ دیتے ہں کے کتنے آسان ھی میں ہوتا تو پتہ نہیں کیا کر دیتا،تو یاد رکھیں اس وقت وہ کتایں بھی مشکل تھیں ،جدید سہولیات نہیں تیں گائیڈ یا خلاصہ کے لئے ھی ایٹ آباد جانا پڑتا تھا۔لہذاوہ لوگ جنھوں نے کسمپرسی  کے حالات میں پڑھا یہ ان کا کما ہے وررنہ موجودہ زمانے کا بچہ اس طح نہیں پڑھ سکتا۔ ا گائیڈ خلاصے پاکٹ کی۔ او کتایں ھی جدید انداز میں لکی جانے لگی ہیں کہ آدم تحوی سی محنت سے اسے سمجھ سکتا ہے۔ البتہ جدید طریقہ تعلیم مں استاد اس طح ڑھا نہیں پا رہے جس سے بچہ خود کسی قابل ہو سکے۔ کتاوں کا وجھ تو بڑھ   گیا لیکن عم زیادہ نہیں ہوا او نہ سمجھ پیدا ہو سکی۔یہ ایک سوچنے کی بات ہے ۔ ان ے علاوہ ڈائنگ ماسٹر کی پوسٹ پ آصف صاحب تھے ان کا تعلق ی ایبٹ آاد کے سی علاقے سے تھا ،آج کل وہ غالبا حویلیاں میں پڑھا رہے ہیں۔ سکول کے اساتذہ میں گروپ تھے،جن کا اظہار اکثر اوقات سامنے آتا تھا۔جس کی مثال کسی دوسرے وقت میں دوں گا۔یہ گروپ بندی علاقائی اعتبا ر سے ھی بنی ہوئی تھی ،اور مسلک وغیرہ    کے اعتبار سے بھی تھی۔آٹھویں میں بورڈ کا امتحان دیا او پاس ہو کر بیروٹ ہائی سکول میں داخلہ لے لیا۔نویں جماعت سے سائنس اور آرٹس کے دو گروپ تھے ،تو سائنس کا انتخاب ۔ہائی سکول کا ماحول کافی آزادانہ تھا،پڑھائی کرنا طلبہ اپنی توہین سمجھتے تھے،حاضری کے عد اکثر طلہ بازا میں گھومتے تھے،اللہ کا شکر ہے کہسائنس گروپ تھا،جس کے طلبہ  پڑھنے والے شمار کیے جاتے تے اگرچہ پڑھتے وہ ھی نہیں تھے جیسا کہ آگے ذکر کروں گا۔ چونکہ یہ وہ عم ہوتی ہے ،جس میں انسان کی زندگی میں نمو ہو رہا ہوتا ہے،اسی عمر میں آدمی کے جسمانی قد کاٹ میں بھی اضافہ ہوتا ہے ،اور ھی ہت ساری تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اس وجہ سے طہ کچ زیادہ ہی آزادی کے طلبگا ہوئے ہوتے ہیں ،ہماری کلاس کے دو تین لڑکوں کے علاوہ س ہی اپنا وقت پورا کرنے کے انتظار میں ہوتے تھے،یہی وجہ ہے کہبہت کم طلبہ آگے تعلیم مکمل کر سکے ،جہاں تک مجھے معلوم ہے ایک نثار جو سکول کے ساتھ ہی رہتا تھااس نے ایم ایس سی کی ہے۔ایک عاطف جس کا تعلق ترمٹھیاں سے تھا اس نے انجنئیرنگ کی ہے اور آج کل وہ باہر کسی ملک میں کام ک رہا ہے۔   اور ایک اصغر نام کا لکا کہو کا تھا جس نے ایم اے انگلش کی ہے۔اس کے علاوہ میرے علم میں کوئی اور نہیں۔اس میں س سے افسوس کی بات  ایک انتہائی ذہیں طال علم جو ذہیں او ظاہری شکل صورت والا لڑکا تھا ،جس کے ارے میں سوچا کتا تھا کہ وہ ضور کسی اعلی پوسٹ پرر ہو گا۔ گزشت سال تقرریبا 16 سال کے عد ملا تو مجھے اس کی اتوں پ یقین نہیں آ رہا تھا کے میے سامنے ساجد نامی وہی شحص ہے جس کے ارے میں بہت سارے خیالات بنا یٹھا تھا   قسمت نے اس کا ساتھ نہیں دیا وہ بیچارہ مٹرک سے آگے نہیں پڑھ سکااور اپنے ھائی کے ساتھ دکان کر رہا ہے۔ خیر نوین کلاس میں سائنس گروپ میں بیٹھ گئے اور کتابیں وغیرہ لیں دو سال میں مجھے حسا کی کتاب نہیں ملی  اور نہ ہی ضرورت سمجھی،اس سے مقصود تعلیم نظام کی کمزورری بتانا ہے۔ہمیں حساب کا مضمون اقبال شاہ صاحب پڑھاتے تھے۔ جو پڑھانے سے زیادہ کہانیاں سناتے تھے  ۔سوالات حل کرانے کی بجائے ایک رٹے رٹائے انداز میں کہتے تھے کہ یہ سوال ہم نے پہلے پڑھ لیا ہے اور یہ آگے پڑھ لیں گے او یہ آپ کو آتا ہے۔ بس کتاب بند  بہت کم ہی سوالات حل کانے کی تکلیف وہ کرتے تھے۔اس کی بڑی وجہ خاندانی تعصب تھا ،کیونکہ ان کا تعلق قول ان کے سید فیملی سے تھا اور پڑھنے والے اکثر طلبہ  عباسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔دنیا بھر کی کہانیاں وہ کلاس میں سناتے تھے  کوئی موضوع دے دو بس آگے کہانی ان کے پاس تیار ہوتی تھی۔طلبہ   ھی ان کے مزاج کو سمجھ گئے تھے،جب کھبی ان کا موڈ خراب ہوتا اور ڈر ہوتا کہ آج مار پ سکتی ہے تو ہمارے ساتھ ایک طالب علم منصو جو نکر قطال کے تھے اور باسیاں میں چچا کے ساتھ رہتے تھے وہ انھیں کوئی موضوع دے دیتا او پھر استاد بیٹو  کہ کر شروع ہو جاتے،مذہبی موضوعات بھی زیر بحث  آتے تھےجس میں وہ اکثرر مخالفیں پر بہت ہی زیادہ تنقید کرتے تھے طلبہ استاد ہونے کے ناطے خاموشی میں ہی عافیت سمجھے تھے جاری ہے،اگر کوئی بولنے کی جسارت کر دیتا او کہتا کہ یوں نہیں یوں بات ہے تو پھر اس کے سکول سے نکنے تک خیر نہیں ہوتی تھی اسے ذاتی دشمن شمار  کیا جاتا تھا،اسی طرح بیالوجی کا مضمون شعیب شاہ صاحب پڑھاتے تھے،دو سال میں 35 صفحات ہی پڑھ سکے جب ان سے کہا جاتا کہ نصاب پوا کریں تو وہ کہتے کہ پہلے جو پڑھا ہے وہ سناؤ۔ اگرچہ وہ متعصب تو نہیں تھے

لیکن عمر کی وجہ سے پڑھانے کی طرف زیدہ توجہ نہیں دے پا رہے تھے۔وہ ساتھ ساتھ حکمت کا کام بھی کرتے تھے۔ان کا 3 سال پہلے انتقال ہو گیا ہے اللہ ان کی مغفرت کرے۔نویں او دسویں دونوں سالوں مں فام ماسٹر یاسر صاحب تھے، اپنے مخصوص انداز میں آتے حاضری لیتے اور پڑھانا شروع کر دیتے تھے۔کی نہیں دیکھا کہ کون کا ک رہا ہے،یاد نہیں کے دو سال میں کاپی چیک کی ہو،کتاب کھولتے ہی ٹے ٹائے انداز میں شروع ہو جاتے تھے۔اور آخ میں کتا بند کی او اہر نکل گئے۔ تعیم کے ساتھ تربیت کا کوئی حجان نہیں تھا۔ اکثر طہ پیچھے بیٹھ کر شرارت کرتے تھے، اور بعض اوقات آواز ان تک ھی آ جاتی تھی،لیکن وہ ایک سخت لفظ استعمال ک کے آگے پھانا شروع کر دیتے تھے۔اس کے علاوہ شیراز صاحب جن کا تعلق لوئر بیروٹ (چوکی) سے ہے۔ ان سے اردو پڑھی تھی۔وہ سخت مزاج تھے ۔بعض اوقات سخت الفاظ استعمال کرتے تھے۔جس کی وجہ سے طلبہ کافی ججھکتے تھے۔دسویں جماعت میں بعض اوقات اصلاحی انداز میں اپنے علماء کا تذکرہ بھی کرتے تھے،برحال مسلکی تعصب کسی قدر محسوس کی جا سکتی تھی۔ان کا تعلق تبلیغی جماعت سے تھا تو ان ہی بزرگوں کے تذکرے کیا کرتے تھے،

ان کے علاوہ اعظم صاحب جن کا تعلق ایبٹ آباد سے تھا،ان سے مطالعہ پاکستان پڑھاتھا،یہ ایم اے کے ہوئے تھے انتہائی شریف انسان تھے۔ی محنت سے پھاتے تھے۔ کتاب سے متعلق موضوع پر مطالعہ کر کے آتے تھے،اور نوٹ لکھواتے تھے۔اس کے علاوہ دو پی ٹی آئی بھی تھے ایک تو مڈل سکول باسیاں سے تبدیل ہو کر گئے تھے۔