" مادر سری نظام "

جب انسان جنگلوں میں رہتے تھے تو مرد اور عورت کے درمیان فرق نہیں تھا۔ وہ گروہوں کی شکل میں جنگلوں میں رہتے تھے۔30سے 50 مردوں اور عورتوں کا گروہ ہوتا تھا ۔ فطرت کے قریب ترین رہتے تھے اور زندگی کا مقصد صرف غذا کا حصول تھا۔رقص اور موسیقی ان کی زندگی کا حصہ تھے۔مرد اور عورت اپنی زندگی میں آزاد تھے۔نہ جائداد کے ادارے تھے ،نہ قانون تھا نہ ہی ریاستی ادارے تھے۔تب لوگوں میں جو چیز مشترک تھی وہ زندگی اور فطرت سلیمہ سے محبت تھی۔

مادرسری نظام کے تحت مرد اور عورت کو برابری کے حقوق حاصل تھے۔عورت مرد کی بالا دستی سے آزاد تھی۔مرد اور عورت کو برابری کے حقوق حاصل تھے۔اس کے تحت معاشرے میں امن اور سکون کی فضا قائم تھی۔سیاست کی بجائے ثقافت کو فروغ ملتا تھا۔خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے تھے۔فطرت کے قریب ترین رہتے تھے اور زندگی سے محبت کرتے تھے ۔

تب عورت کو بحثیت ماں برتری حاصل تھی۔اس برتری کی وجہ بچوں کا پالنا تھا۔مادر سری نظام میں مرد عورت کے گھر جاکر رہتا تھا۔عورت کے ہی رشتہ داروں کو فوقیت حاصل تھی ۔

مادر سری نظام میں خانہ بدوشوں کی زندگی بسر کرتے تھے۔تب عورت زیادہ بچے بھی نہیں جنا کرتی تھی کیوں کہ بچوں کے ساتھ سفر کرنا مشکل کام تھا۔اس زمانے میں غذا کا حصول صرف شکار ہی تھا۔مرد شکار کی تلاش میں دور دور پھرا کرتے تھے۔کسی ایک خطے یا علاقے میں شکار کا حصول ممکن نہ تھا۔تب ان کے پاس سادہ قسم کے شکاری اوزار اور چمڑے یا پتوں سے بنے لباس ہی ملکیت ہوتے تھے۔

مرد جو شکار کر کے لاتے تو اس کو بانٹ دیا کرتے تھے اور مل جل کر کھاتے تھے۔ذخیرہ کرنے کے تصور تک نہیں تھے۔ایک دوسرے پر انحصار کرتے تھے۔ہمدردی اور مساوات عروج پر تھی ۔

عورتیں پیچھے کیمپ میں بوڑھوں اور بچوں کے ساتھ اکیلی رہ جاتی تھیں۔سارے کنبہ کی ذمہ داری ان کے سر پر ہوتی تھی تو وہ خاندان کی سر پرست کی حیثیت رکھتی تھیں۔ان کی آراء کو اہمیت دی جاتی تھی۔عورتیں جڑی بوٹیاں اور شہد وغیرہ تلاش کرکے لاتیں اور بچوں اور بزرگوں کو کھلاتی تھیں۔وہ لوگ گروہ در گروہ مسلسل سفر کرتے تھے ،جس کی  وجہ سے سازو سامان اٹھانا ،بچوں اور بوڑھوں کو بھی سہارا دینا بہت مشکل کا کام تھا ۔

وادی سندھ میں اموی نظام قائم تھا ،یعنی حسب و نسب اور وراثت کا سلسلہ ماں کی طرف چلتا تھا۔لہٰذا معاشرے میں عورت کا مرتبہ مرد سے اونچا تھا۔عورت کی ذات افزائش فصل و نسل کی محرک بھی تھی اور علامت بھی۔اج بھی ڈھکے چھپے لفظوں میں دھرتی کو ماں پکارا جاتا ہے۔عورت میں تخلیق کرنے کی صلاحیت مرد پر برتر کرتی ہے ۔

آریہ قوم جب ہندوستان میں دریائے سندھ کے کنارے آباد ہونے لگی تو انھوں نے پدر سری نظام کے تحت مادر سری کے نظام کو یکسر تبدیل نہیں کیا بلکہ انھیں اس ثقافت کا حصہ بنا ڈالا ۔

مرد نے جب طاقت کے بل بوتے سماج پر قبضہ شروع کیا تو مرد نے یہ بھی باور کرانا شروع کیا کہ حوا تو آدم کی پسلی سے نکلی ہے تو مرد و تخلیق کا منبع و مخرج قرار دیا۔اور عورت کی کوکھ کوایک سانچے کے طور پر دیکھا جانے لگا جہاں مرد کے وارث ڈھلتے ہیں۔

جب جنگلوں سے باہر نکل کر بستیاں قائم ہونے لگیں تو مرد اور عورت کے درمیان فرق رکھا جانے لگا عورت چار دیواری تک محدود ہوکر رہ گئی۔مادر سری کا نظام آہستہ آہستہ اپنا وجود کھونے لگا۔ثقافت کی بجائے سیاست جو فروغ ملنے لگا ۔

اس کی ایک وجہ دوسری قوموں کی تہذیب کا مدغم ہونا ہے۔انسان شروع سے نقالی کرنے کا ماہر ہے۔اور انسان کو تغیرات میں دلچسپی ہے۔اس کی وجہ سے مادر سری کا نظام ان کی اندرون خانہ سے نکلنے لگا اور بالآخر ختم ہو گیا ہے ۔

اب جدید دور میں عورت کے نام پر بہت ساری تحریکیں اور فیمینزم بن چکی ہیں،جن میں عورت اپنے کرادر کو تلاش کر رہی ہیں۔مادر سری نظام کے احیا کے تحت جنگوں اور خون ریزوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔مادر سری کے اسی نظام کو واپس لانا نا ممکن تو نہیں مگر اس کے لیے آج کے اس پدر سری نظام میں بہت سارے بندھنوں کو توڑنا ہوگا ۔