آخری سون صنعت آخری مابین برفانی دور سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے بعد بھی جاری رہی۔ اس کے ساتھ ہی اس کا علاقہ وادی سون تک محدود نہیں رہتا، بلکہ کشمیر صوبہ سرحد وغیرہ تک پھیل جاتا ہے۔ تیسری برف بندی کے زمانے کی ارضی سطح کی جو کھدائی ہوئی ہے، اس میں گھوڑے اور کتے کے دانت ملے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اونٹ، بیل اور بھینس کے مجحرات بھی ملے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان ان جانوروں کو سدھا چکا تھا اور وہ اس کی عملی زندگی میں کسی قدر اس کے کام آتے تھے۔ اس صنعت کے اوزار راولپنڈی سے تقریباً چالیس میل دور جنوب میں قبضہ چونترہ کے علاقے سے ملے ہیں۔ اس زمانے کی صنعت کے دو مراحل جو ارضیاتی طور پر دو سطوں میں مستقیم ہیں۔ پہلا مرحلہ تو ابتدائی سون صنعت کا تسلسل ہے۔ جس میں پتھر کے گول ڈھیلوں سے سادہ اوزار بنائے گئے ہیں۔ لیکن ان میں تھوڑا سا فرق یہ ہے کہ ان کی شکل بیضوی ہے۔ جس کا مطلب ہے قدرتی بیضوی ڈھیلوں کو تراشا گیا ہے۔ جس میں ایک طرف تو تیز دھار بنائی گئی ہے۔ جو ایک ہی ضرب سے فالتو پتھر ہٹانے سے بنی ہے اور دوسری طرف پشتہ ہے جس کو ڑگر کر ہموار نہیں کیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں ان کی شکل تو ابتدائی سون صنعت سے بہتر ہے اور کاریگری بہتر نہیں کی گئی ہے۔ یہ دوسرے سنگریزہ اوزاروں سے بڑے ہیں۔ ان میں سے بعض کی لمبائی تو ایک فٹ تک ہے اور بعض اس بھی زیادہ لمبے ہیں۔ یہ زیادہ تر مغز پتھر سے بنے ہیں۔ کبھی کبھی چھلکا پتھر سے بھی بنائے گئے ہیں۔ ان کو بعض اوقات لکڑی اور ہڈی کی ہلکی ضربوں سے بھی تراشہ گیا ہے۔ لکڑی سے تراشے گئے اوزار آخری زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان اوزاروں کو سون کا دستی کلہاڑا سمجھنا چاہیے۔ ماہرین نے اس دستی کلہاڑوں کو مدراس صنعت کا نام بھی دیا گیا ہے۔ یہ نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کے اوزار پہلے پہل مدراس کے علاقے میں بھارت سے 1863 میں بروس فٹ BRUCE FOOT کو ملے تھے۔ لہذا اس کاریگری کا نام مدارس صنعت رکھ دیا گیا۔ ایسے دستی کلہاڑے جونترہ میں بڑی تعداد میں ملے ہیں۔ پاکستان سے ملنے والے دستی کلہاڑوں کو جو آخری سون صنعت کے دو قسم کے اوزاروں میں سے پہلی قسم ہے اور اسے مدراس صنعت کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن پاکستان اور بھارت کی مدارس صنعت میں امتیازی خصوصیات بھی ہیں اور دونوں باہمی تعامل ۔۔۔۔ ایک دوسرے پر اثر اندازی اور ایک دوسرے پر اثر پزیری ۔۔۔۔۔ بھی نظر آتی ہے۔ تاہم جنوبی اور وسطی بھارت میں ہمہ گیر عنصری مدارس صنعت یعنی دستی کلہاڑے کی صنعت کا ہے۔ جب کہ پاکستان میں غالب عنصر سون سنعت یعنی حجری ٹوکہ کا ہے۔۔ ہر چند کہ ان دونوں کا استعمال تو ایک جیسے کاموں میں استعمال ہی ہوتا ہوگا۔ سٹوارٹ پگٹ نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ مدارس صنعت پر اس کی اپنی انفرادی حثیت کے ساتھ ساتھ سون صنعت کا اثر بھی پایا جاتا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانوں کا سفر شمال سے جنوب اور مغرب سے مشرق کی طرف زیادہ اور اس کے برعکس سمتوں میں کم رہا ہوگا۔ موخر سون صنعت کے دوسرے مرحلے کے اوزاروں میں زیادہ نفیس، چھوٹی جسامت کے باریک کام کرنے والے اوزار شامل ہیں۔ جن کو بہتر مہارت اور نفاست سے بنایا گیا ہے۔ اس دور کے حجری اوزاری کی ورکشابیں بھی ملی ہیں۔ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیداواری عمل میں اجتماعیت کا اصول غالب تھا۔ دوسرے مرحلے کے اوزاروں میں زیادہ تر علاقوں میں دستی کلہاڑے نہیں ملے۔ (ماسوائے چوترہ کے )

بھارت بھی سون صنعت کے اوزار ملے ہیں۔ جن مقامات سے یہ اوزار ملے ہیں ان میں دولت پور، گلیر، ڈیرہ ڈھلیارا اور کانگڑہ مشہور ہیں۔ ان جگہوں پر بھی تین سطحوں میں اوزار ملے ہیں۔ جن کو سون صنعت کے اول، وسطی اور موخر دور کے مماثل قرار دیا جاتا ہے اور کوئی ایسی چیز ان جگہوں سے نہیں ملی۔ جن کی بنا پر وادی سون کی حجری صنعت کے بارے میں عمومی نظریات میں ترمیم کی ضرورت محسوس ہو۔ زمانہ بھی علی الترتیب وہی اور کاریگری کا انداز ویسا ہے۔ راجستھان اور مالوہ میں دریائے چمبل کی وادی مین معتدد مقامات پر قدیم حجری دور کے ہتھیار ملے ہیں۔ ضلع چتور گڑھ میں ان ہتھیاروں کی زیادہ فراوانی ہے۔ یہ سب سون صنعت سے ملتے جلتے ہیں۔ لیکن کہیں اختلافی پہلو بھی سامنے آتے ہیں۔ جو ضمنی ہیں۔ پاکستان میں آخری سون صنعت کے اوزار کئی مقامات سے ملے ہیں۔ جن میں ڈھوک پٹھان کے اوزارں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ مغز پتھر کی صنعت پاکستان ( سون صنعت ) بھارت ( مدارس صنعت )، جوبی افریقہ، مغربی یورپ اور عرب میں بھی زبردست باہمی مماثلت رکھتی ہے۔ بلکہ بعض اوقات تو عین یکسانی رکھتی ہے۔ گو پاکستان اور بھارت میں ان مغز پتھر اوزاروں کھ ہمراہ کوئی انسانی ڈھانچہ نہیں ملا۔ لیکن سوائے سوانس کومبی سے ملنے والے اوزاروں کے ہمراہ ایک انسانی کھوپڑی ملی ہے۔ اگر اس کھوپڑی کو نمائندہ تسلیم کیا جائے تو پھر وہ کھوپڑی جدید انسان سے زرا بھر مختلف نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس صنعت کا خالق باشعور آدمی ’ ہوموسیپئن ‘ تھا۔ جو ایک ہی زمانے میں دنیا پھر میں پھیلا ہوا تھا۔ آخری سون صنعت کا زمانہ دیڑھ لاکھ سال قبل سے ایک لاکھ قبل تک سمجھنا چاہیے۔ پاکستان میں باشعور آدمی کے حجری اوزاروں کے علاوہ وہ اس کے استعمال کی چیزیں نہیں ملی ہیں۔ جس سے اس کی زندگی کا نقشہ تیار کیا جا سکتا ہے۔ بہر حال جو کچھ ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ یہ لوگ آوارگی پسند شکاری گروہ رہے ہوں گے۔ مل جل کر اوزار بناتے ہوں گے، مل جل کر کھاتے پیتے ہوں گے۔ ابھی انھوں نے غاروں سے جانوروں کو بھگا کر وہاں اپی رہائش گاہیں بنائی ہوں گی۔ کیوں کہ پاکستان میں غاروں میں قیام کا زمانہ بہت بعد کا ہے۔ البتہ یہ لوگ گھاس پھوس اور تنکوں کے خیمے بنا کر شاید رہتے ہوں گے۔ شاید ان کے پاس لکڑی کے اوزار بھی ہوں گے۔ گھاس پھوس، تنکوں، پتوں یا رشوں کو کسی استعمال لاتے ہوں گے۔ جانوروں کا شکار کرنے کے بعد ان کی کھالیں لباس کے طور پر استعمال کرتے ہوں گے۔ پاکستان کے نچلے حجری دور کے انسان کی نسلی تعین کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ کیوں کہ یہ دور ایک لاکھ سال قبل پر ختم ہوتا ہے اور یہ وہ زمانہ ہے جب باشعور آدمی مشترکہ ذخیرے کی حثیت رکھتا تھا۔ دنیا پھر میں اس کا سفر بلا روک ٹوک جاری تھا اور ابھی مستقل آبادیاں بنا کر رہنے نہیں لگا تھا۔ اس لیے کسی نسل کا وجود میں آجانا ممکن نہ تھا۔ نوع نسانی کا نسلوں میں تقسیم ہوجانا بالائی قدیم حجری دور سے وابستہ ہے اور یہ نسل سازی آج سے پچاس ہزار ساک شروع ہوا۔ ماخذ

حوالہ جات

ترمیم

یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور