شیخ آدم بن ملی، قبیلہ یوسف زئی کے مشاہیر میں سے تھے اور یوسفزئیوں کے مشہور مَلک، ملک احمد خان کے ہمعصر اوران کے رفقا میں سے تھے۔ اُن کے زہد کی یہ کیفیت تھی کہ ایک روز ایک شخض ایک چڑیا شکار کر کے آپ کی خدمت میں لایا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہتے نے یہ چڑیا کہاں سے شکار کی ہے ۔ اسی شخص نے اس جگہ کا پتا بتایا۔ تو آپ نے اس کے کھانے سے انکارکردیا اور فرمایا کہ جہاں سے تو یہ چڑیا شکار کر کے لایا ہے اُس علاقے کے لوگ رہزنی اور حرام خوری میں مشہور ہیں۔ شاید اس چڑیا نے ان کے دانوں میں سے کوئی دانہ کھایا ہو۔ چنانچہ احتیاط واجب کی بنا پر اس کو کھانا جائز نہیں۔ شیخ آدم ملی کا سب سے بڑا کارنامہ وہ انتظام اراضی بندوبست ہے جو انھوں نے ایک کتاب کی صورت میں دفتر کے نام سے مرتب کیا تھا اوراس کے مطان قبائل یوسف زئی، منڈنڑ اور ان کے معاون قبائل نے سابقہ گندھارا یعنی موجودہ وادی پشاور بشمول ریاست ہائے صوبہ خیبر پختون خواہ کی زمینوں کی تقسیم کی تھی۔ اس کی رو سے قبائل میں اراضی کی تقسیم بذریعہ قرعہ اندازی ہوتی تھی۔ تقسیم کے بعد خیل کو دستور کی مقررہ مدت کے مطابق اس علاقے کی اراضی پر رہنا پڑتا تھا۔ یہ مدت بارہ سال کی تھی۔ اس مدت کے گزرنے پر دوبارہ قرعہ اندازی ہوتی تھی۔ پھر جو اراضی جس قبیلے کے نام نکلتی تھی، وہ قبیلہ اس اراضی پر مستقل ہوجاتا تھا۔ شیخ آدم ملی کے مرتب کردہ نظام میں زمین قومی ملکیت تھی اور اس کا قابض مقررہ مدت کے مطابق اس کی پیداوار کا مالک ہوتا تھا۔

انگریزی حکومت کے قیام تک صوبہ خیبر پختون خوا میں شیخ آدم ملی کے مرتب کردہ دستور کے مطابق عمل ہوتا رہا اور آج بھی اس صوبے کے کوہستانی علاقے کے بعض قبائل مثلاً حسن زئی، اكازئی، نصرت خیل اور چغہ زئی وغیرہ میں شیخ آدم ملی کے مرتب کردہ دستور کے مطابق عمل ہوتا ہے۔ اور ان قبائل کے بہت سے معاملات اسی دستور کے مطابق طے ہوتے ہیں۔ پشتو کے مشہور شاعر خوشحال خان خٹک نے اپنے ایک شعر میں شیخ آدم ملی کے اس دستور کو سراہتے ہوئے کہا ہے :۔

“ سوات میں دو چیزیں خفی یا جلی موجود ہیں۔ ایک دردیزا کا مخزن اور دوسرا شیخ ملی کا دفتر۔ “

شیخ آدم ملی کا مزار ہشت نگر میں واقع ہے۔ [1]

حوالہ جات ترمیم

  1. انسائیکلو پیڈیا معلومات، صفحہ 293،294، جلد 10- از سید قاسم محمود، مکتبہ جدید پریس، لاہور / مارچ 1971