آرائش معشوق ایک مثنوی جو شاہ نجم الدین دہلوی المعروف شاہ مبارک آبرو کی تصنیف ہے۔ آبرو صاحب دیوان ہیں مگر 1857 کی جنگ میں ان کا دیوان تلف ہو گیا اور اب نایاب ہے۔ آرائش معشوق کا ذکر بہت کم ملتا ہے۔ رام بابو سکسینہ کی تالیف ” تاریخ ادب اردو ” میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔ ڈاکٹر سید محمد عقیل نے اپنی کتاب ” اردو مثنوی کا ارتقا ” میں آرائش معشوق کے بارے میں جو تفصیل درج کی ہے۔ اس سے اس مثنوی پر کچھ روشنی پڑتی ہے۔ لکھتے ہیں، آبرو کی مثنوی کا نام ” تعلیم آرائش خوبان روزگار ” رکھ لیا گیا ہے اور یہ نام قائم چاند پوری سے متعلق کہا جاتا ہے مگر قائم نے مثنوی کا یہ نام نہیں بتایا۔ قائم کی عبارت یہ ہے: ” مثنوی صد و پنجاہ بیت در باب تعلیم آرائش خوباں روزگار موزوں کردہ است۔ " قائم نے دراصل مثنوی کے موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مثنوی کا کچھ نام نہیں ہے۔ 1930 میں فرحت اللہ بیگ نے رسالہ ” اردو ” میں یہ مثنوی شائع کی۔ اس مثنوی کے کل ننانوے اشعار ہیں۔ گو قائم بتاتے ہیں کہ اس میں ڈیڑھ سو اشعار ہیں۔ معلوم نہیں کہ حقیقت کیا ہے۔ مثنوی اس طرح شروع ہوتی ہے۔ آبرو ایک دن اداس ہو کر سیر کرنے کو نکلے۔ راستے میں اتفاقاً ایک لڑکے سے ملاقات ہو گئی۔ لڑکے کی خوبصورتی آبرو کو بھا جاتی ہے۔ لڑکا آبرو کا نام سن کر بہت خوش ہوتا ہے اور ان سے اشعار سنانے کی خواہش کرتا ہے۔ آبرو کہتے ہیں کہ تو میرے اشعار نہ سمجھ سکے گا۔ پہلے تو زمانے کے مذاق کے مطابق اپنے کو خوبرویوں کی طرح سجانا سیکھ اس کے بعد میرے اشعار سننے کی فرمائش کر۔ کیونکہ میری شاعری میں خوبرویوں کی تزئین، ان کے خوبصورت خدوخال کا تذکرہ ہے تو انھیں کیسے سمجھ سکے گا۔

تب کہا میں نے کہ یہ میرے سخن

وصف میں خوباں کے ہیں سر تا پئیں

یا بیاں ہے ان کے رنگ و روئے کا

ذکر ہے یا خال و خط و موئے کا

سو تو وہ طرحیں تمھیں آتی نہیں

دل سے وہ باتیں تمھیں بھاتی نہیں

پھر وہ خوبصورت لڑکا آبرو کی نصیحتیں سننے پر تیار ہوتا ہے۔ تو آبرو اس جو سجنے کا طریقہ بتاتے ہیں جو اس دور کے لوگوں کا طریقہ تھا۔ پوری مثنوی میں یہی طریقہ بتایا گیا ہے۔ جس کا نمونہ ملاحظہ ہو۔

اولاً رکھ سر اُپر پٹے مدام

بال رکھ دونوں طرف کے سب مدام

سر کو پیشانی کے اوپر سے مُنڈا

کنپٹی پر استرے کو مت چلا

دھو کے پھر سکھلا کنگھی سے صاف کر

تیل دے کر گوندھ رکھ موباف کر

بال گوندھے ہوں تو چیرا مت اتار

خوب نہیں لگتے کسی کو زینہار

گو یہ ذوق ہندوستان کا نہ تھا مگر اس وقت کی سوسائٹی میں ہندوستان میں ایسے لوگ موجود تھے جو اس مذاق کے دلدادہ تھے جن کے مذاق پر آبرو کی اس مثنوی سے کافی روشنی پڑتی ہے۔ مثنوی کے آخر میں آبرو اس بات پر خفا بھی ہوتے ہیں کیونکہ ہندوستان کے لوگوں کو دیکھ دیکھ کر سب اچھا مذاق خراب ہو گیا۔ اپنے اس خیال کو طنزیہ انداز میں اس طرح ظاہر کرتے ہیں :-

اب زمانے میں اجالے ہیں کچھ اور

سیکھ کر ہندوستان زادوں کا طور

آبرو نے نصیحت بھی کی ہے کہ جو لڑکا اس طرح نہیں سجتا وہ اپنی عادتوں کو بگاڑ رہا ہے۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. شاہکار انسائیکلوپیڈیا، ناشر سید قاسم محمود، صفحہ 349، مطبوعہ چوک سنت نگر لاہور