آریائی مذہب
آریاؤں کے ابتدائی مذہب کی تفصیل نہیں ملتی ہے ، پھر بھی ایسے ذرائع موجود ہیں جن سے ان کی مذہبی حالت کا اندازہ ہوتا ہے اور یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کا ابتدائی مذپب ایشیائے کوچک میں آباد ہونے ولے متیانیوں ، ایرانیوں اور برصغیر میں آباد ہونے والے آریاؤں سے مختلف نہیں ہوگا ۔
ابتدائی مذہب
ترمیمبرصغیر میں آباد ہونے والے آریاؤں کے متعلق ہ میں معلوم ہے کہ وہ اوائل میں مناظر فطرت یعنی آب و آتش ، خاک و باد اور مناظر قدرت آفتاب و ماہتاب و برق و رعد کی پرستش کرتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ برائیوں اور آلام کے دیوتاؤں کا تصور رکھتے تھے ۔ متانیوں کے بارے میں جو کچھ معلوم ہوا ہے وہ یہی ہے کہ ان کے عقائد ہندی آریوں سے ملتے جلتے تھے ۔ ایسی حالت میں ایرانیوں کے بھی متعلق یہی رائے ہے کہ ان کا مذہب بھی اسی نوعیت کا تھا اور ساتھ ساتھ منشر طور پر ایسے شواہد بھی ملتے ہیں جن سے اس کی تصدیق بھی ہو تی ہے ۔
سوال یہ ہوتا ہے کہ ایرانی و ہندی ہم مذہب تھے تو ایرانیوں کے پاس وید ہونا چاہیے تھی یا کم از اتناحصہ ضرور ہونا چاہیے تھا جو ان کے ذیلی براعظم میں ورد سے پہلے لکھا گیا تھا ۔ مگر ایرانیوں کے پاس کسی ویدکا نشان نہیں ملتا ہے ۔ اس سے بہر حال یہ نتیجہ نکالاجاسکتا ہے کہ تمام ویدوں کی تصنیف اسی ذیلی براعظم میں ہوئی ہے ۔ کیوں کہ ویدوں کا گو نشان ایران میں نہیں ملتا ہے مگر ایرانیوں کا مذہب ہندیوں کے مذہب سے ملتا جلتا تھا اور ویدی دیوتاؤں کا پتہ چلتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہی قیاص کیا جاسکتاہے کہ ایرانیوں کے پاس ویدکا جو حصہ تھا وہ تلف ہو چکا ہے اور اس کی کوئی نقل باقی نہیں رہی ہے ۔
برصغیر میں آریوں کے قدیم ترین حالات رگ وید کے ابتدائی بھجنوں میں ملتے ہیں ۔ اس دور میں ہ میں آریاؤں کے اپنے ایرانی ساتھیوں کا کوئی حوالہ نہیں ملتا ہے یا تو ان لوگوں دانستہ اس عہد کو فراموش کر دیا یا انھیں ہجرت کیے ہوئے اتنا عرسہ گذر چکا تھا کہ اس کی کوئی یاد باقی نہیں رہی ۔ ر گ وید میں جو جغرافیائی حوالے ملتے ہیں اس سے ہ میں اندازہ ہوتاہے کہ یہ بھجن پنجاب و کابل کے درمیانی علاقے میں ترتیب دیے گئے ہیں ۔ کابل ، سوات ، کرم گومل اور پنجاب کے اہم دریاؤں کے ناموں کا ذکر ہے ۔ چونکہ جمنا (یمنا) کا حوالہ صرف تین بار اور گنگا کا تذکرہ ایک بار ہے ، لہذا کہا جا سکتا ہے کہ یہ ان کے سرحدی علاقے تھے اور وادی گنگا ان کے اقتدار سے باہر تھی ۔
کثرت پرستی
ترمیمآریا ایک معبود پر ایمان نہیں رکھتے تھے ۔ ان کے بے انتہا دیوتا اور دیویاں تھیں جن کی وہ پوچا کرتے تھے ۔ گو پوچا کا طریقہ ابتدا میں سادہ تھا ۔ منتروں کا پڑھنا ، دیوتا پر سوم رس چڑھانا اور قربانی کرنا عبادت تھیں ۔ اکثر محققین کا خیال ہے کہ اس وقت نہ مندر تھے نہ اصنام پرستی رواج ۔ بہرکیف ویدوں کے مطالعہ سے ان کے مذہب کے متعلق جو رائے قائم کی جا سکتی ہے وہ درج ذیل ہے ۔
- وہ متعد دیوتاؤں پر ایمان رکھتے تھے ۔
- آبا اجداد کی روحوں کو پوجتے تھے ۔
- مناظر فطرت کی پوجا کرتے تھے ، انھیں دیوتا قرار دے کر ان کو مختلف ناموں سے یاد کرتے اور ان سے مرادیں مانگا کرتے تھے ۔
- بعض حیوان بھی مقدس تھے ، اس طرح پہاڑ دریا بھی مقدس سمجھے جاتے تھے ۔
- کبھی کبھی وہ وحدانیت کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے ۔
الغرض یہ بتانا مشکل ہے کہ معبود کے متعلق ان کا کیا عقیدہ تھا اور ان کی تعداد کیا تھی ۔ چند دیوی دیوتاؤں کا نام کثرت سے رگ وید میں آیا ہے ۔ تمام دیوتاؤں میں اندرا کو زیادہ قوی خیال کرتے تھے ۔ دیومالا کے مطابق وہ ایک مثالی جنگو تھا ، جو لڑائی کے رتھ پر سوار ہوکر برق و رعد سے مسلح اپنے پرستاروں کی مدد کے لیے داسیوں کے خلاف جنگ میں شریک ہوتا تھا اور اپنے پرستاروں کے پیش کردہ سوما رس کے پیالے چڑھاتا تھا ۔ اس کا سب سے بڑا کارنا مہ درتا اژدہے کو ہلاک کرنا تھا ۔ جس نے طوفانی بادلوں کو جو کھیتوں کو سیراب کرتے تھے پہاڑ کی گپاؤں میں بند کر دیا تھا ۔ یہ دیوتا ان کے خیال میں بارش عطا کرتا تھا ۔
دیاوَس یعنی آسمان ، پرتھوی یعنی زمین دونوں آریاؤں کے قدیم دیوتا تھے ۔ جن کے درمیان انھوں نے ذوجین کا رشتہ پیدا کر دیا تھا اور یہ عقیدہ قائم کر لیا تھا کہ اختلاط سے تمام مخلوق پیدا ہوئی ہے ۔ بعد میں ان کی عظمت کم کردی گئی اور دارونا یعنی فلک محیط اور اندرا یعنی کڑک بارش و جنگ اور مترا یعنی آفتاب یا نور کو ان پر فوقیت دے دی گئی ۔
ورانا جس کا لقب آسورہ تھا ، یہ مادی و اخلاقی قوانین یا ریت کا نگران یا محافظ ہے ۔ رگ وید میں اس کی مدح کی گئی ہے ۔ یہ ایرانیوں کا متھرا ہے ۔ جو اوستا میں مشرہ آیا ہے اور فارسی میں مہر بن گیا اور ایرانی اسے چشم فلک کہتے تھے ۔ رگ وید میں ان دونوں کو آدینیا یا آدیتی کا بیٹا بتایا گیا ہے ۔ آدیتی دیوی ازل کی دیوی ہے اور بعض مقامات پر اسے کرہ زمہر اور زمتقا بیط کی دیوی کہا گیا ہے ۔ دیوا قدیم آریائی دیوتا ہے ، سنسکرت یا ویدی زبان میں یہ کلمہ دیاوَہ آیا ہے ، جس کے معنی خدا سمادات کے ہیں ۔ آخری ویدی دور میں دیاوہ یا دیوا کو بہت طاقت ور مانا گیا اور آسورہ پر اس کی برتری دکھائی گئی ہے ۔ شایدیہی دیوتا ہندی دیوتا شیوا ہے ، جس کو مہا دیوا کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کلمہ شوا بن گیا ہو ۔ ایران میں اس کے برعکس دیوا برائیوں کا دیوتا سمجھا گیا ہے اور اسے اہورا سے سرپیکار بتایا جاتا ہے ۔ یہ کلمہ فارسی میں دیو یعنی شیطان بن گیا ۔
دوسرے اہم دیوتا
ترمیمان اہم دیوتاؤں کے علاوہ ایرانیوں کا آرت سنسکرت کا ورت یعنی خدائے گیتی ، آذروان یا آذر ، سنسکرت کا اوردان یعنی برق دیوتا ، ایرانیوں کا اترگنی اور سنسکرت کا اگنی یعنی آگ کی دیوی ، ایرانیوں کا ایندراہ سنسکرت کا اندر یعنی کڑک دیوتا ہے ۔ یہ وہ دیوتا ہے جو ایرانیوں اور ویدوں میں مشترک ہیں ۔
ویدوں کے دوسرے اہم دیوتا دایو یعنی ہوا ، رور یعنی وبا و طوفان ، یوشا یعنی سپید و صبح ، سوریا یعنی سورج ، پرجانیہ یعنی بارش ، یاما مالک ممات ، ودسوت چمک وغیرہ ہیں ، جو مختلف طاقتوں کے مالک ہیں اور مختلف فرائض ادا کرتے ہیں ۔ مگر ان میں اندرا سب سے قوی ہے ، جو مردتوں یعنی طوفان و وبا کی روحوں کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کرتا ہے اور اپنے دوستوں کو غالب کرتا ہے ۔ اس کو دشمنوں کو قتل کرنے میں بڑا مزا آتا ہے ۔ سیم و زر اور مویشوں کا مالک ہے ۔
اس کے علاوہ متعدد چھوٹے دیوتا ہیں ، جو بڑے دیوتاؤں کے ماتحت ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں ، جن کا اضافہ آخری ویدی دور میں بھی ہوا ۔ ان میں ساوتر یا سوتیار زندگی بخشنے والا ، پوشن محافظ و رہنما ، ربھو ، موسم کا دیوتا ، برہمنپتی عبادت کا دیوتا ، وش دروپ روپ عطا کرنے والا دیوتا ، توشتار صناعی کا دیوتا ، اشون شفق صبح ، مروت طوفان و وبا ، اریامن شادی کا دیوتا ، گندھرو اساز و ترنم کادیوتا اور سرسوستی فصاحت و روانی کی دیوی قابل ذکر ہے ۔
خیر وشر کی طاقتیں
ترمیمقابل ذکر بات یہ ہے کہ ایران میں خیر و شر کی دو طاقتوں کا تصور پیدا ہو گیا ، جس نے ان کے مذہبی عقائد پر کہرا اثر ڈالا ۔ انگرامنو یا ہر من بدی کا دیوتا اور ہورا کے ساتھ ایک صفت مژدہ بمعنی عاقل کا اضافہ ہوا ۔ اس کے بعد ایرانیوں کے مذہبی تصورات انہی دو خداؤں یعنی خداون خیر و شر کے گرد چکر کھانے لگے ۔ ہندی آریاؤں کی طرح ایرانیوں کے درمیان بھی پرہتوں کا ایک طبقہ موجود تھا ، جس کو مغ یا مجسوس کہتے تھے ۔ مذہبی رسوم کی ادائیگی اسی طبقہ کے متعلق تھی ۔ اس طبقہ نے بھی مذہب کے اندر بہت پیچیدگیاں پیدا کر دیں تھیں ۔ قربانی کے وقت ایک مقدس گھاس کا رس پینا عبادت میں شامل تھا ۔ اس گھاس کا نام سوما اور اوستا میں ہوما بتایا گیا ہے ۔ یہ غالباََ بھنگ ہے جس کا عرق آج بھی پاک و ہند میں استعمال ہوتا ہے ۔
ماخذ
ترمیمڈاکٹر معین الدین ، قدیم مشرق
ڈاکٹر معین الدین ، عہد قدیم اور سلطنت دہلی