آمری صوبہ سندھ میں ضلع دادو کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ جو دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر دریا سے ایک میل کے فاصلے پر آباد ہے۔ اس طرح نال صوبہ بلوچستان میں خصدار شہر سے ساڑھے چار کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ آمری اور نال کا فضائی فاصلہ تقریباً ڈھائی سو کلومیٹر ہے۔ ان دونوں مقامات کی کھدائی سے جو ثقافت برآمد ہوئی اسے ماہرین نے ایک ہی اکائی قرار دیا ہے۔ غالباً سب سے پہلے پرفیسر سوارٹ پگٹ نے آمری نال کی اصلاح استعمال کی تھی۔ بعد میں دوسرے ماہرین نے اسے اپنایا اور اب یہ طہ شدہ مسلہ ہے۔ لیکن ویلر نے آمری اور نال کی ثقافتوں کی مماثلثوں کی نسبت اس کے اختلافی پہلوؤں کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ ویلر کے خیال میں آمری تہذیب کا بنیادی طور پر رشتہ وادی سندھ کی تہذیب سے بنتا ہے اور نال کی تہذیب کا پہاڑی ثقافت سے۔ لیکن حقیقت یہ ہے آمری کے مقام سے اور نال کے قبرستان سے جو برتن ملے ہیں ان میں جو اختلافات ہیں وہ اتنے بنیادی نہیں ہیں۔ جب کہ ان کی بنیادی صفات ایک سی ہیں۔ جی ایم کیسل نے کھدائیوں کی تفصیلی رپورٹ اور تجزیہ کیا ہے اور اسے دو جلدوں کی صورت میں پیرس سے شائع کیا۔ جس میں بنیادی سوال یہ تھا کہ آمری ثقافت کا وادی سندھ سے مادری رشتہ ہے یا نہیں؟ اس کا جواب اثبات میں ہے، لیکن اس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ کوٹ ڈیجی کی قدیم تہذیب سے بھی اس کا رشتہ بنتا ہے۔ اسی طرح نال ثقافت سے بھی اس کی مماثلت واضح ہوجاتی ہے ۔

محل وقوع ترمیم

آمری نال ثقافت کا دائرہ کوئٹہ ثقافت سے بھی زیادہ وسیع ہے اور یہ مہارت اور کمال فن کے اعتبار سے بھی نہایت حسین و جمیل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے اس کا زمانہ بعد کا ہے۔ یہ ثقافت وسطی بلوچستان اور دریائے سندھ کے مغرب کے صوبہ سندھ اور جنوبی بلوچستان کے اکثر علاقوں پر محیط رہی ہے۔ جنوبی بلوچستان میں نندارہ کے مقام سے جو برتن ملے ہیں وہ آمری اور نال کا درمیانی مزاج رکھتے ہیں۔ خصدار میں دریائے نال سے لے کر اوپر وادی شکئی تک، ادھر کوئٹہ کے قریب درہ بولان تک اور دریائے کولاچی کے آغاز سے سندھ میں منچھر جھیل تک اور ادھر لسبیلہ میں آمری نال ثقافت کی باقیات ملی ہیں۔ اگر آپ پاکستان کے نقشے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ سلسلہ ہائے کوہ کیرتھر کے متوازی ایک لکیر لگائیں اور ادھر کیچ نہنگ کے سنگھم سے کوہلو تک ایک لکیر لگائیں تو نیچے ساحل سمندر خود بخود تیسری لکیر بن جاتا ہے۔ اس تکونے علاقے میں آمری نال ثقافت کے بے شمار شواہد بکھرے ہوئے ہیں ۔

آبادیاں ترمیم

آمری نال ثقافت کی تمام آبادیاں ٹیلوں پر آباد ہیں۔ ان ٹیلوں کی بلندی دس سے چالیس فٹ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر بیشتر برتن یا سطح سے اٹھائے گئے ہیں یا ٹھوری سی کھدائی میں مل گئے ہیں۔ بالائی سطح کے قریب ترین کوئی مدفون بسی کھود کر نکالی جاتی ہے یقناً اس کا طول و عرض اس ٹیلے کی تہ میں مدفون بستی سے کہیں چھوٹا ہوتا ہوگا۔ مثال کے طور پر پنج گور اور درخشاں کے قریب ایک ٹیلہ کار گشکی دمب ہے۔ جو اپنی بنیادوں میں 530 گز * 360 گز ہے اور اس کی اونچائی چالیس فٹ ہے۔ اس کی کھدائی اورل سٹین نے کروائی ہے۔ یہ بستی زمین سے تیس فٹ اونچی ہے اور اس کا طول و عرض 200 * 100 گز ہے۔ اس بستی سے نکلے والے برتن کلی ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں۔ نہیں معلوم ہے اس کو تہ تک کھودا جائے تو کیسا شہر اور کیسی چیزیں برآمد ہوں گی۔ سندھ میں بندھنی کے مقام پر مدفون گاؤں کا رقبہ 400 * 240 گز ہے۔ اس میں سے آمری ثقافت برآمد ہوئی ہے۔۔ سندھ میں پنڈی واہی تہ تک کھودی گئی۔ اس کا رقبہ 150 * 115 گز ہے اور غازی شاہ کو بھی تہ تک کھدا گیا ہے۔ اس کا رقبہ 170 * 160 گز ہے۔ اس طرح اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ان بستیوں کا رقبہ دو ایکڑ کچھ ہی کم رہتا تھا۔ اگر اس کا چوتھا حصہ گلیوں اور خالی جگہوں کی نذر کیا جائے تو باقی چھ سو گز کا رقبہ رہائش کے لیے استعمال میں تھا۔ اگر فی گھر اوسطً 60 یا 80 گز فرض کیا جائے تو ایک بستی میں کوئی ساٹھ کے لگ بھگ گھر ہوں گے۔ اگر ایک گھر میں دس افراد تسلیم کیے جائیں ( کیوں کہ پرانی بستیوں میں انسانوں کا ہجوم ہوا کرتا تھا ) تو کل بستی میں چھ سو کے لگ بھگ افراد رہتے ہوں گے۔ ان چھ سو افراد کو ایک خاندان یا کنبے کا رکن تسلیم کرنا مشکل ہے اور یہ فرض کرنا بھی مشکل ہے کہ چند خاندان ایک بستی میں رہتے تھے یا ایک قبیلہ ایک ہی بستی میں رہتا تھا۔ لہذا یہ مناسب ہے کہ ہم سمجھیں کہ ابھی خاندان نے مکمل اور حتمی شکل اختیار نہیں کی ہوگی۔ شروع میں خاندان کا ظہور اپنی ابتدائی شکل میں ہوگا اور ابھی پیداواری رشتوں میں کافی حد تک اشتراکی اصول کار فرما ہوں گے۔ ابھی اونچ نیچ کی درجہ بندیاں مستحکم نہیں ہوئی ہوں گی۔ سندھ میں ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک ٹیلہ ہے۔ جسے کوہتر اس بٹھی کہتے ہیں۔ اس میں سے ایک چھوٹی سی آبادی برآمد ہوئی ہے۔ جس کے ارد گرد دہری دیوار کی فصیل ہے۔ ان دونوں دیواروں کے درمیان کا فاصلہ 250 فٹ کا ہے۔ جب کہ دونوں دیواریں انتہائی موٹی اور بھاری بھرکم ہیں۔ یہ ایک قسم کا پہاڑی قلعہ معلوم ہوتا ہے۔ اس میں سے زیادہ تر آمری ظروف ملے ہیں۔ لیکن کافی سارے غیر نقوش سرخ رنگ کے ہڑپا ظروف بھی پائے گئے ہیں۔ اس لیے شہر پناہ کی تعمیر کے زمانے کا تعین نہیں کیا جاسکا۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ یہ پختہ آمری دور کی چیز ہے۔ سندھ میں ایک جگہ ڈھلانی جو کوٹ ہے۔ اس کے گرد بھی حفاظتی دیوار ہے۔ یہ گاؤں بھی آمری دور کا ہے۔ لیکن آمری دور کے زیادہ تر گاؤں فصیلوں کے بغیر ہیں۔ مکانات کی تعمیر میں پتھر استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن باقی دیواریں کچی اینٹوں یا تھوبے کی بنائی جاتی تھیں۔ لیکن بلوچستان میں نندارہ، کارگشکی دمب اور رود کان کے مقام پر پتھر کی سلیں گھڑ کر مٹی کے گاڑے سے بنائی جاتی گئی ہیں اوران سے کھرکی تک اونچی دیواریں بنائی گئی ہیں۔ یعنی زمین سے تقریباً چار پانچ فٹ اونچی۔ ان میں بعض میں پتھر کے ٹکڑوں کو گارے میں جما کر بڑی بڑی اینٹیں بنائی گئیں ہیں اور بعض جگہ پتھر ہی کو کاٹ کر بڑی بڑی سلیں بنائی گئی ہیں۔ نال کے قبرستان سے اس حجم کی مٹی کی اینٹوں سے دو شیر خوار بچوں سے مستطیل شکل کے مقبرے بھی بنائے گئے ہیں۔ اس طرح کا مزار ایک بالغ آدمی کا بھی بنایا گیا ہے۔ سندھ میں پنڈی واہی اور غازی شاہ میں رہائشی ملبہ تو بہت ملا ہے لیکن اینٹوں یا تھوبے دیواریں نہیں ہیں۔ پگٹ کا خیال ہے کہ تھوبے کی دیواریں ہزاروں سالوں کے عمل سے عام مٹی میں بدل گئیں اور ان کی شناخت ممکن نہیں رہی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اینٹیں تو عام مٹی سے مدغم ہونے کی شکل میں موجود ہوں۔ لیکن کھدائی کرنے والے انھیں شناخت نہ کرسکے۔ یہی صورت کوئٹہ کے ارد گرد کی بستیوں کی ہو سکتی ہو۔ کم وسیع و عریض کھدائیاں ہونے کے سبب پگٹ کہتا ہے کہ ان آبادیوں کا نقشہ بنانا سخت مشکل ہے۔ نندارہ شہر کا نقشہ شائع کیا گیا ہے۔ اس ظاہر ہوتا ہے کہ اس شہر میں بالخصوص جنوب مشرقی حضے میں معتدد عمارتوں کے بلاک بنے ہوئے تھے۔ جن کی ساخت ایک جیسی تھی۔ اس طرح کوہتر اس بٹھی میں جو پہاڑ کے اوپر قلعہ بند شہر ہے، اس میں مختلف بلاک ہیں۔ جو ایک دوسرے سے الگ بنائے گئے ہیں اور ان کے درمیاں گلیاں ہیں۔ ہر بلاک میں لا تعداد کمرے ہیں۔ ان میں کئی کمرے چھوٹئے اور کئی وسیع و عریض بھی ہیں۔ بہت سارے کمرے مل کر ایک بلاک تشکیل کرتے ہیں۔ ان سارے بلاکوں کے ارد گرد کچھ خالی جگہوں کو چوڑ کر ایک دیو ہیکل فصیل شہر ہے۔ یہ عظیم دیوار بڑی بڑی سلوں سے بنی ہوئی ہے اور اس چار مقامات پر برج بنے ہوئے ہیں اور شہر پناہ کا ایک ہی دروازہ ہے۔ اس بڑی فصیل کے باہر کی طرف فصیل کے ارد گرد ایک نسبتاً چھوٹی فصیل ہے۔ ان دونوں فصیلوں کے درمیان فاصلہ تقریباً 100 فٹ کا ہے۔ شہر میں کسی جگہ عبادت خانے یا کسی و حویلی کا سراغ نہیں ملتا ہے۔ دراصل آمری ثقافت کسی شہر میں کسی مندر، کسی عبادت خانے یا محل یا بڑی حویلی کا سراغ نہیں ملتا ہے۔ بلکہ اکثر بیشتر شہروں میں چھوٹے سائز کے گھر ملتے ہیں۔ نندارہ میں جہاں بلاک ہیں اور اجتماعی رہائش کا ثبوت ملتا ہے۔ وہاں ہر بلاک میں تقریباً 40 * 40 کا مربع ہے۔ پھر ہر بلاک آٹھ یا دس حصوں میں منقسم ہے۔ ان آٹھ یا دس حصوں میں متعدد چھوٹے یا بڑے کمرے یا صحن ہیں۔ ان کا سائز 15 * 15 فٹ یا 10 * 15 فٹ یا 5 * 8 فٹ ہے۔ نندارہ کے دو بلاکوں کے سائز نہایت صحت کے ساتھ رکھے گئے ہیں۔ کمروں کے سائز کی مساوات کا یہ التزام پور سندھ کے آمری نال شہروں میں پایا جاتا ہے۔ کوہتر اس بٹھی میں ایک کمرے کے کونے میں ایک چھوٹا سا کمرہ پایا گیا ہے۔ جس کے بارے میں ماجمدار کا کہنا ہے کہ یہ غسل خانہ تھا۔ اگر یہ اندازہ صحیح ہے تو پھر یہ اٹیج باتھ ہے جو بعد میں وادی سندھ کی تہذیب کا طرہ امتیاز بن گیا، اس عمارت میں ایک جانب ایک طرف سیڑھیاں ملی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے مکان کی چھت سیدھی تھی اور گھر کے لوگ اس چھت کو استعمال کرتے تھے۔ گھروں کے دروازوں کے نشانات بھی ملے ہیں۔ جن میں زیادہ تر پتھر کی دہلیز ہی باقی رہے گئی ہے۔ کار گشکی دمب میں دروازے کی چھت کے طور پر لکڑی استعمال کی گئی ہے۔ یعنی دروازے کا لنٹل لکڑی کا تھا۔ جو دست برو زمانہ سے بچ گیا ہے۔ رودکان میں ایک پانچ فٹ اونچی دیوار ملی ہے۔ جس میں ایک کھڑکی محفوظ ہے۔ اس کی چوڑائی ایک فٹ پانچ انچ ہے۔ کھڑکی کے اوپر پتھر ایک پر ایک آگے بڑھا کر زاغ بندی کی گئی ہے۔ گویا زینہ دار محراب ہے۔ ان شہروں میں ٹاون پلانگ اور گھروں کی منصوبہ بندی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے لوگ زیادہ تر یہاں یکجا رہتے تھے، اونچ نیچ نمایاں نہیں تھی۔ مذہبی عبادت گاہیں نہ تھیں۔ شاہی محل نہیں تھے۔ غریبوں کی آبادیاں نہیں تھیں۔ گویا منظم آبادیوں میں اشتراکی نظام کی کوئی نہ کوئی شکل تھی۔ غلے کے گودام یکجا تھے۔ دہری فصیل شہر کا مطلب ہے اس نظام کو خارجی حملوں سے خطرہ تھا اور شاید یہ ان ہی حملوں سے تباہ ہوں گے۔ کیوں کہ زمانہ قدیم اشتراکی سماج کے غلام داری سماج میں ڈھلنے کا زمانہ تھا۔ نیا حجری زمانہ ۔۔۔ البتہ پاکستان کا غلام داری نظام سلطنت روما یا چین سے مماثل نہ تھا۔ اس میں ذات پات یا قبائلی بالادستی اور زبردستی کی شکلیں رہی ہوں گی۔

قبرستان ترمیم

اس عہد کی زندگی کو سمجھنے کے لیے کچھ مدد قبرستانوں سے ملتی ہے۔ آمری ثقافت کی بستیوں میں سے کوئی قبرستان نہیں ملا۔ لیکن نال ثقافت کے دو قبرستان ملے ہیں۔ ایک سندھ میں دوسرا بلوچستان میں۔ بلوچستان میں نال کے مقام پر سوہر دمب میں قبرستان ہے۔ یہاں سے ایک انگریز کرنال جیکب نے ذاتی طور پر کھدائیاں کروا کر تقریباً 200 برتن لے گیا۔ جس کا پھر کوئی پتہ نہیں لگا۔ وہ برتن موجود ہوتے تھے تو شاید ہمیں بہت کچھ مدد مل جاتی۔ سوہر دمب کا قبرستان ایک برباد آبادی کے ملبے پر بنایا گیا ہے۔ نچلی آبادی کا آمری نال ثقافت سے کوئی تعلق ہے۔ مختلف شواہد کا جائزہ لینے کے بعد پگٹ نے یہ خیال ظاہر کیا کہ اس قبرستان میں قبروں کے ایک سو گروہ ہوں گے۔ کیوں کے اکثر قبریں چھ یا سات کے گروہ کی شکل میں اکھٹی بنی ہوئی ہیں۔ اس طرح پورے قبرستان کوئی سات سو قبریں ہوں گی۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے پورا قبرستان اوپر نیچے دو سطحوں میں واقع ہے۔ قبرستان کے اوپر دوسرا قبرستان موجود ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ نہایت طویل عرصہ تک یہ شہر آباد رہا ہے۔ کرنل جیکب کے علاوہ اور دوسرے لوگوں نے جو برتن چرائے ہیں ان کی تعداد تین سو سے کم نہیں ہوگی۔ البتہ ہار گریوز نے بعد میں جو کھدائیاں کروائیں تو 270 برتن نکالے۔ یہی سرمایا ہے جس پر ماہرین نے اس شہر کی مادی ثقافت کی بنیاد رکھی ہے۔ بعض چھوٹی بستیوں کے نذدیک بڑے قبرستان اس بات کی دلیل ہیں کہ وہ ارد گرد کے کئی گاؤں کے مشترکہ قبرستان کی حثیت رکھتے تھے۔ ان لوگوں کا تدفین کا طریقہ یہی تھا کہ مرنے والے کی لاش کو جوں کا توں قبر میں دفنا دیتے تھے۔ نال میں ایک گروہ میں بالغ اور تین معصوم بچوں کی لاشیں ملی ہیں۔ ان لاشوں میں فقط ہڈیوں کے ڈھانچے بچے ہیں۔ بالغ کو بائیں کروٹ اور کس قدر گھٹنے تہ کرکے لٹایا جاتا تھا۔ اس کے مقابلے میں سوہر دمب میں ڈھانچے کے ٹکڑے دفن کیے گئے۔ بعض قبروں میں بالغ اور بچوں کو یکجا دفن کیا گیا ہے۔ عام طور پر قبریں سادہ گڑھے کی شکل میں تھیں۔ قد آدم لمبا گڑھا کھود کر اس میں لاش کو لٹا دیا جاتا تھا اور اس کو مٹی سے بھر دیا جاتا تھا۔ نال میں چند قبریں اینٹوں سے تعمیر شدہ مستطیل شکل کی بنی ہوئی تھی ملی ہیں۔ ان میں اینٹوں کا سائز 12 * 9 * 1/2 3 انچ تھیں۔ ان کے اوپر اینٹوں یا لکڑیوں کی چھت نہیں ڈالی گئی۔ بلکہ ان کو مٹی سے پھر دیا گیا ہے۔ دمب بٹھی میں بعض ایسی ہی پتھر کی قبریں پائی گئیں۔ جو ساتھ ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ نال کے قبرستان میں ایک جگہ ویران گھر میں قبریں بنائی گئیں ہیں۔ ان تمام قبروں میں لاشوں کے ساتھ برتن رکھے گئے تھے۔ آخر قبروں میں برتن کیوں رکھے جاتے تھے؟ مغربی ماہرین کا خیال ہے کہ لوگ موت کے بعد دوبارہ زندگی پر یقین رکھتے ہوں گے اور یہ برتن دوبارہ زندگی استعمال کرنے کے خیال سے رکھے گئے ہوں گے۔ دوسری طرف آمری نال ثقافت میں کہیں عبادت گاہوں کا سراغ نہیں ملا۔ اس کا مطلب مابعد الطبیعاتی خیالات تو لوگوں میں پیدا ہو چکے تھے۔ لیکن ابھی مذہب نے ادارے کی شکل اختیار نہیں کی تھی۔ دوسرے الفاظوں میں سماجی اونچ نیچ کا آغاز ہو چکا تھا، لیکن خاندان نے ابھی مکمل شکل اختیار نہیں کی تھی اور نہ ہی ریاست ابھی بنی تھی۔ کیوں کہ مذہب انسانی سماج کا قدیم ترین ریاستی ادارہ ہے۔ نال میں ایک قبر میں تانبے کی ایک کلہاڑی بھی ملی ہے۔ اسی قبرستان میں چھ یا سات قبروں میں بھیڑوں اور بکریوں کی ہڈیوں بھی ملی ہیں۔ دمب بٹھی میں بیل کی ہڈیاں ملی ہیں۔ پگٹ کا کہنا جانوروں کی ہڈیوں کا مطب گوشت اس کے ساتھ رکھا گیا تھا کہ جب آنکھ کھلے اور بھوک لگے تو خوراک مہیا ہو۔ ان ہڈیوں سے کم از کم اتنا تو طے ہے کہ وہ گوشت خور تھے۔ نال و دمب بٹھی میں ایک ایک قبر ایسی ہے جس میں لاش کے ساتھ سرخ رنگ رکھا گیا تھا۔ یہ سرخ رنگ دمب بٹھی کی قبر میں سیپیوں میں رکھا گیا تھا اور نال کی قبر میں رنگ پسنے والی کونڈی میں۔ نال کی اکثر قبروں کے ساتھ خاصی تعداد میں منکے بھی رکھے گئے تھے۔ آمری اور نال ثقافت میں خاص پر سندھ میں اکثر و بیشتر قبروں میں سیپیاں اور مٹی کی بنی ہوئی چوڑیاں یا کنگن ملے ہیں۔ بعض قبروں میں منکوں سے بنے ہار بھی ملے ہیں۔ نال کے قبرستان کے دو گڑھوں میں تانبے کے ہتھیار بھی ملے ہیں اور ان کے ہمراہ کوئی لاش نہیں تھی۔ چوڑیاں، منکے سیپیاں اور ہار تو زیورات میں شمار ہو سکتے ہیں اور ہتھیار بھی مادی ضرورت کا حصہ ہیں۔ لیکن سرخ رنگ کا تعلق کسی نہ کسی شکل میں مذہب سے تعلق ہے ۔

سماج ترمیم

آمری نال ثقافتوں اور دیگر ہم عصر ثقافتوں کے تعین کا واحد ذریعہ برتن سمجھے جاتے ہیں اور پگٹ کا خیال ہے کہ آمری اور نال ثقافت میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ ایک ہی دور، ایک ہی سماجی نظام اور ایک ہی ثقافت کے دو پہلو ہیں۔ جن میں باہمی فرق نہ ہونے کے برابر ہے۔ بعد کی کھدائیوں سے پگٹ کا خیال درست ثابت ہوا ہے۔ مکانات کی تعمیر، ان میں استعمال ہونے والا مواد اور ان کی منصوبہ بندی، برتنوں کی نوعیت، اسلوب اور تزئین یہ سب اشیائ ثابت کرتی ہیں کہ ایک تو ان کی معاشی بنیاد ایک ہی تھی۔ دوسرے ان کا سماجی نقشہ بھی ایک جیسا تھا۔ برتنوں اور زیورات کی مماثلت ان تمام لوگوں کی نسلی ایکتا کا بھی ثبوت ہے۔ نندارہ میں جو چیزیں ملی ہیں۔ یعنی برتن اور زیورات وہ آمری نال ثقافت کے خالقوں کے اسلاف کی ثقافت ہے۔ گویا پورے بلوچستان کے لوگ نسلی آپس میں ملے ہوئے تھے اور ان میں واضح نسلی امتیاز کرنا ممکن نہیں ہے۔ انہی لوگوں کی ابتدائی کاوشیں آمری ثقافت وابستہ ہیں اور اس کی ترقی یافتہ شکل نال ثقافت میں ہے خاص کر نال میں۔ لیکن نال اور آمری ظروف جہاں انتہائی مختلف شکل اختیار کر لیتے ہیں، وہاں بھی صاف نظر آ رہا ہے ان کا ماخذ ایک ہی ہے ۔

ظروف ترمیم

آمری اور نال کے ظروف نہایت عمدہ ملائم بادامی یا گلابی مائل گندھی ہوئی مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض سفید کے قریب ہیں اور بعض میں ہلکی سی سبز جھلک بھی نظر آتی ہے۔ ان کے اوپر گھلے ہوئے سفید رنگ کا پانی چڑھایا جاتا ہے اور پھر اس کے اوپر نقش گری کی جاتی ہے۔ یہ اکثر چاک کے بنے ہوئے ہیں۔ ان کی دیواریں باریک ہیں۔ جو نہایت عمدہ مٹی سے بنائی گئیں ہیں۔ اکثر برتن اسی اوصاف کے ہیں۔ صرف نال میں چند ایسے ملے ہیں جو خاکستری یا گہرے بھورے رنگ کے یا سیاہ ہیں۔ سندھ کے مختلف مقامات مثلاً لوہری اور دمب بٹھی کے اور ادھر بلوچستان سے جو برتن ملے ہیں، ان کی بناوٹ گلاب جیسے کٹورے کی سی ہے۔ نال اور آمری کے ظروف کی بناوٹ کی نسبت فرق زیادہ ہے۔ لیکن پھر بھی یکسانی کے کئی پہلو ہیں اور گلاب نما کٹورے اس کی نمایاں ترین مثال ہیں۔ جو دونوں ثقافتوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ آمری اور پنڈی واہی میں کسی جام یا پیالے کے پائے یا ستون ملے ہیں۔ اسی طرح نال کے مقام سے ایک ایسا ہی پائدان ملا ہے۔ یہ لمبائی میں ذرا زیادہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاؤں پر کھڑے ہونے والے پیالے دونوں طرف بنائے جاتے تھے۔ دونوں ثقافتوں میں طروف پر نقاشی ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے۔ بلوچستان میں جہاں جہاں گھریلو برتن ملے ہیں، ان میں دیگر چیزوں کے ساتھ ایک عمومی دیواروں والی بالٹی نما چیز ملی ہے۔ اس کی شکل گھڑے کی طرح مدور نہیں ہے۔ نال کے قبرستان میں گھڑے جیسے برتن ملے ہیں۔ البتہ ان کی گردن نہیں ہے۔ اسی شکل کے پیالے بھی ہیں اور بڑے برتن بھی۔ ایک دلچسپ چیز جو آمری اور نال دونوں جگہ سے ملے ہیں۔ وہ عمودی دیواروں والا مٹی کا کنستر ہے۔ اسی طرح طرح لمبے لمبے جار بھی دونوں جگہوں بکثرت سے ملے ہیں۔ نال میں ایک برتن ایسا ملا ہے۔ وہ اٹھی ہوئی منڈیروں والی پرچ نما تھالی۔ اس میں چاروں طرف چھوٹی سی چونچ بنائی گئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہ اس وقت کا چار شعلوں والا چراغ ہے۔ جو ماضی قریب میں پاکستان میں مروج رہا ہے۔ آمری نال ثقافت میں برتنوں پر نہایت پیچیدہ قسم مہارت طلب نقاشی کی کئی ہے۔ نال ضروف پر جانوروں کی کافی تصویریں ملتی ہیں۔ لیکن آمری ظروف ان سے خالی ہیں۔ البتہ آمری علاقوں میں ٹنڈو رحیم خان اور جوڑہ کے مقام پر بیلوں کی تصویروں والے کچھ برتن ملے ہیں۔ نال ظروف میں بعض مخصوص نقش بار بار مختلف شہروں کے برتنوں میں دہرائے گئے ہیں۔ اس طرح آمری ظروف پر خاص طور پر جنوبی بلوچستان کے علاقوں میں کچھ ایسے نقش نظر آتے ہیں جو نال برتنوں پر نظر نہیں آتے ہیں۔ اس اعتبار سے نقاشی کے نمونوں کو تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔

( 1 ) جو نال اور آمری ثقافتوں میں مشترک ہیں اور یہ تعداد میں زیادہ ہیں ۔

( 2 ) صرف نال ثقافت میں ملے ہیں ۔

( 3 ) وہ جو صرف آمری ظروف میں ملتے ہیں۔ مگر ان تینوں میں کچھ صفات مشترک ہیں۔ مثلاً یہ تمام نمونے سیاہ یا سیاہی مائل بھورے حاشیے کے اندر ہیں۔ یہ حاشیہ سخت بالوں والے برش سے بنایا گیا ہے۔ سرخ رنگ ثانوی طور پر لگایا گیا ہے۔ کہیں کہیں زرد، نیلا اور ہرا رنگ بھی استعمال ہوا ہے۔ کثیر رنگوں کا یہ استعمال تینوں قسم کے نقوش میں استعمال ہوا ہے۔ رنگوں کی کثرت کا استعمال قبل از تاریخ زمانے میں پاکستان کے علاوہ کہیں نہیں تھا۔ مغربی ایشیائ یعنی ایران، عراق اور افغانستان میں اس کا نشان نہیں ملتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کیمسٹری اور صنعتی ترقی میں پاکستان کا علاقہ اپنے ہمسایوں سے کہیں آگے تھا۔ ان تمام برتنوں پر نقش گری کی گئی ہے، ان میں سب سے پہلے خانے بنا کر عمودی اور افقی خطوط کھنچ کر پوری سطح کو خانوں میں باٹ دیا گیا۔ پھر ان خانوں میں ایک ہی پھول یا نقوش بنا کر تمام خانوں میں دہرایا گیا ہے یا مزید چھوٹے چھوٹے سفید یا سیاہ خانے بنا کر ڈیزائن بنایا گیا ہے یا سرخ سیاہ لکیریں یکے بعد دیگر لگا کر گول یا بیضوی شکلیں بنا کر ہر خانے کو بھرا گیا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ زیادہ لکیرں افقی ہیں اور ان میں ہیروں جیسی شکلیں بار بار بنائی گئی ہیں۔ یہ نمونے اکثر افقی پٹی وار بھی ہیں۔ کہیں بیضوی اور مربع شکلیں ہیں۔ کہیں سیدھی اور الٹی کلغی دار یا طغریٰ نما شکلیں ہیں۔ ان میں سے اکثر و بیشتر نمونے اتنے نفیس اور پیچیدہ ہیں کہ جن کو بنانے کے کیے انتہا درجہ کی مہارت چاہیے۔ یہ پاکستان کی انتہائی قدیم مصوری ہے جس میں رنگ اور لکیروں کا استعمال ہے۔ زیادہ تر آرائشی ہے اور جہاں کہیں جانوروں کی تصویریں ہیں وہ حقیقت پسندانہ ہیں۔ جانوروں میں زیادہ تر مچھلی، گائے بیل، بکری شیر اور بچھو کی تصویریں ہیں۔ غیر جاندار آرائشی نمونوں میں اکثر لکیریں سیاہ ہیں اور ان کے اندر جو رنگ بھرا گیا ہے، وہ سرخ، نیلا، سبز اور زرد ہے۔ جہاں رنگ نہیں بھرا گیا ہے وہاں خارجی لکیریں سرخ ہیں۔ پٹی دار نمونے، قائمۃ الزاویہ مخنی لکیریں، ہیرے، زینہ دار نمونے، دائرہ، برابر طرفین والے نشانات +++ وغیرہ شطرنج کی بساط کی طرح سفید اور سیاہ ڈبیوں والا نمونہ۔ الغرض جیومیٹری کا پھر پور استعمال اس مصوری میں کیا گیا ہے۔ چونکہ اس کا بنیادی مقصد آرائش ہے اور یہ سارا کا سارا برتنوں پر ہے۔ اس لیے اس میں انسانی زندگی کا مطالعہ یا زندگی کی عکاسی نہیں کی گئی۔ بعض برتنوں پر پر دل کی شکل کے نقش بنائے گئے ہیں یا پیپل کے پتے بھی ہو سکتے ہیں۔ یہی شکل بعد میں ہڑپہ اور موہنجوڈارو میں بار بار استعمال کیا گیا ہے۔ نال ثقافت کے زیادہ ترقی یافتہ دور میں یہ آرائشی مصوری زیادہ پیچیدہ ہو گئی۔ سادہ نمونے مثلاً چار خانے، ہیرے اور سرخ لکیروں والے چوکھٹے متروک ہوجاتے ہیں اور کثیر تعداد میں سیدھی لکیروں کی مدد سے بنائے گئے نمونے یا قوس دار لکیروں سے بنی پیچیدہ آرائشیں زیادہ مقبول ہوجاتی ہیں، ان میں بعض گلکاریاں سہل اور ممتنع ہوجاتی ہیں کہ دیکھنے میں آسان ہیں، مگر بنانے میں محنت اور مہارت طلب ہیں۔ جانوروں کی شبہیوں میں کچھ نئے جانوروں کا اضاٰفہ ہوتا ہے۔ مثلاً پرندے، لمبے لمبے پیچھے کو مڑے ہوئے سینگوں والی جنگلی بکریاں اور بچھو اب برتنوں پر نظر آنے لگے۔ یہاں جوئے سے ملتی جلتی علامتی شکل بھی نظر آنے لگی۔ پگٹ کا خیال ہے کہ آمری، نال اور نندارہ اسالیب مصوری کا تعین کرنا تو مشکل ہے۔ البتہ اتنا تاثر ضرور ملتا ہے کہ نال اسلوب مصوری جو زیادہ مفصل، مہین اور عمدہ ہے بلوچستان میں زیادہ مقبول رہا ہے اور آمری کا اسلوب نسبتاً سادہ طویل عرصہ تک سندھ میں اور نندارہ اسلوب مزکورہ دونوں اسالیب کے ساتھ جاری رہا ہے۔ اگر تینوں کا ماخذ ایک ہی ہے اور تینوں بلوچستان اور سندھ کے طول و عرض میں مقبول رہے ہیں اور تینوں اسالیب میں مماثلت اور تیکنکی تسلسل بھی ہے تو یقیناً تینوں ثقافت کے مختلف پہلو ہیں اور ان میں یقینا ارتقائی رشتہ بھی ہے۔ اندازہً نندارہ سب سے پرانا، پھر آمری اور آخر میں نال اسلوب کا ظہور ہوا ہوگا۔ گو کہ پرانی چیز نئی ترقیوں کے بعد بھی چلتی رہتی ہیں۔

دھاتیں ترمیم

نال کے ایک مقبرے میں دو جگہ تانبے کے ہتھیاروں کے دفینے ملے ہیں۔ ان میں تین سیدھی چپٹی کلہاڑی ملی ہیں۔ جن کہ پھل کونوں سے پیچھے کو مڑے ہیں۔ ایک مستطیل لمبائی کی چھینی ہے۔ جس کی دھار کے دونوں کونے سیدھے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ترکھان کی چھنی ہے۔ اس دفینہ سے تامبے کا ایک ٹکڑا ملا ہے۔ جو یا تو کسی مخروطی کلہاڑی کا ٹکڑا ہے یا کسی خمدار پھل والی چھنی کا۔ یہ کل پانچ اوزار ہیں۔ تین کلہاڑیوں اور دو چھنیوں کا یکجا ہونا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ ان جگہوں پر لوگ لکڑی کا کام کرتے تھے اور غالباً پیشوں کی تخصیص ہو چکی تھی۔ نیز یہ افراد معاشرے میں معزز مقام رکھتے تھے۔ جبھی تو مزار میں دفن ہوئے۔ اگر یہ قیاس درست ہے تو اس سماج میں دستکاروں کا مقام بہت بلند تھا اور ہو سکتا ہے یہ لوگ بالادست طبقات میں سے ہوں۔ سماج میں ترکھان کا مقام سب سے بلند ہونا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ لوگوں کا پیشہ زراعت ہوچلا ہے اور چرواہے کا پیشہ ثانوی حثیت اختیار کرچکا تھا۔ چرواہا معیشت تک نیم آباد بستیوں میں کمھار کا مقام سماج میں بلند ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہ لوگوں کو ایک جگہ مستقلاً آباد ہونے اور اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے بنیاد فراہم کرتا تھا۔ جب زراعت کا چلن ہوا تو پھر ترکھان کی اہمیت بڑھ گئی۔ کیوں کہ ہل اور دیگر زرعی آلات کو لکڑی سے تراشتے تھے۔ وہی کاریگر جو مٹی کا کام کرتے تھے ان میں سے بہت سے کام لکڑی کے کام پر منتقل ہو گئے ہوں گے اور طویل عرصہ تک دونوں پیشہ یکجا رہے ہوں گے۔ اوزاروں کا دوسرا دفینہ بھی اسی قبرستان کے ایک کمرے سے ملا ہے۔ اس میں کل چھ اوزار ہیں۔ ان میں دو کلہاڑیاں ہیں جن کی دھار قوس دار اور کناروں سے پیچھے کو مڑی ہوئی ہے اور ان کے کندے تنگ اور لمبوترے ہیں۔ جن سے شاید ہتھوڑی کا کام لیا جاتا ہو۔ تیسری چیز کلہاڑی یا چھینی ہے اور اس کی دھار کونوں سے خمدار ہے اور اس کا کندہ بہت لمبا اور سریا نما ہے۔ اس سے شاید لکڑی پھاڑنے اور چیرنے کا لیا جاتا ہوگا۔ چھوٹھی چیز ایک مستطیل شکل کی آری ہے۔ پانچویں چیز ایک ٹکڑا ہے۔ جو یاتو کسی نوکدار چاقو کے پھل کا اگلا حصہ ہے یا کسی نیزے کی انی کا اگلا حصہ ہے۔ ایک اور تامبے کے ٹکڑے کا جو ان دفینوں کے قریب ملا تھا کمیائی تجزیہ کیا گیا تو اس میں شامل دھاتوں کا تناسب یہ تھا۔ تانبا 93.05 فیصد، سکہ 2.14 فیصد، نکل 4.80 فیصد اور سنکھیا ( زہر ) کے محض آثار ہیں۔ زہر کے آثار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ جنگی ہتھیار کا حصہ تھا۔ اس طرح تامبے کے کچھ ہتھیار نال کے مقام سے ملے ہیں۔ نندارہ سے تانبے کا ایک کنگن ملا ہے۔ غازی شاہ ( سندھ ) کے مقام سے آمری ثقافت کا ایک تامبے کا منکا ملا ہے۔ ان سب اوزاروں میں نکل کا تناسب میسوپوٹیمیا اور دوسرے مغربی ایشیائ کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ جہاں یہ تناسب 2.20 فیصد سے لے کر 3.34 فیصد تک ملا ہے۔ بعد میں وادی سندھ کی تہذیب میں نکل کاتناسب 9.38 فیصد تک ملا ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ ان ہتھیاروں میں جو تامبا استعمال کیا گیا وہ بلوچستان کی کانوں سے نکالا جاتا تھا۔ کیوں کہ بعض ماہرین کے مطابق بلوچستان میں قبل از تاریخ کے زمانے کی دھات سازی کی کار گاہیں ملی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو صرف تامبے کا مقامی ہونا یقینی ہے، بلکہ دھات سازی کی سائنس کا مقامی ہونا یقینی ہے۔ یہاں سے جوکلہاڑیاں ملی ہیں، ان کی بناوٹ ہڑپہ سے ملنے والی اسی دور ( قبل از ہڑپہ دور ) کی کلہاڑیوں کے مطابق ہے ۔

زیورات اور قیمتی پتھر ترمیم

دھاتوں کی اشیائ کے علاوہ قیمتی پتھر کے بعض زیور ملے ہیں۔ مثلاً نال کے قبرستان میں سنگ سلیمان کے منکے ملے ہیں۔ یہ لمبے اور درمیان سے ابھرے ہوئے ہیں اور کناروں سے باریک ہیں۔ ان میں سے بعض گول ہیں اور بعض درمیان میں ابھری ہوئی جگہ پر کنارے بنائے ہیں۔ ایسے منکے غازی شاہ سے بھی ملے ہیں۔ یہ بھی سنگ سلیمان کے بنے ہوئے ہیں۔ نال سے بعض منکے لاجورد کے بنے بھی ملے ہیں۔ ایک لاجوری منکا سندھ میں پنڈی واہی کے مقام سے ملا ہے۔ نال قبرستان سے مٹی کے بنے ہوئے منکے بھی ملے ہیں۔ ان پر بالو کے چمکدار زرات چپساں ہیں۔ یہ گول گول ٹکیاں ہوتی تھیں جن کے وسط میں سوراخ ہوتا تھا۔ مٹی اور چمکیلی بالو کے امتزاج سے چیزیں بنانے کا فن ہم عصر ہڑپہ میں بھی بہت رواج تھا۔ مگر یہ ٹیکنک بھارت میں نظر نہیں آتی ہے ۔

متفرق اشیائ ترمیم

نال سے پتھر کے بنے ہوئے سوراخ دار باٹ بھی ملے ہیں۔ نچارا سے بھی اسیے ہی دو اوزاران ملے ہیں۔ موہنجوڈارو سے ملنے والے باٹوں کی بھی ایسی ہی شکل و صورت ہے۔ البتہ یہ ہڑپہ کے باٹوں سے مختلف ہے۔ سندھ میں آمری دور ثقافت کے سات مقامات سے پتھر کے چاقو بھی ملے ہیں۔ جس کا مطلب ہے یہ کانسی کے زمانے کا ابتدائی مرحلہ تھا ۔

آبادیوں کی منصوبہ بندی ترمیم

آمری ثقافت میں چھوٹے چھوٹے گاؤں ہوتے تھے۔ مکانات کی بنیادیں پتھروں سے اور باقی مکان کی تعمیر کچی اینٹوں ہوتی تھی۔ یہ لوگ پکی اینٹوں کے استعمال سے ناواقف تھے۔ شہری منصوبہ بندی اور مکانات کی اندونی ترتیب کے بارے میں زیادہ تفصیل سے کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے۔ البتہ اتنا واضح ہے کہ ہر گاؤں دو ایکڑ پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس کے اندر سیدھی قطاروں میں مکانات ہوتے تھے، گلیاں تنگ اور کشادہ دونوں طرح کی ہوتی تھیں۔ گاؤں کے اندر یہاں وہاں کھلی جگہیں ہوتی تھیں۔ چھوٹے اور بڑے گھر نہیں ملے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ امیر اور غریب کا واضح فرق پیدا نہیں ہوا تھا اور اگر کچھ تھا بھی تو یہ ابتدائی مرحلے میں تھا۔ کوہتراس بٹھی ایک ایسا گاؤں یا شہر تھا جو پہاڑ کی چوٹی پر تھا، قلعہ بند اور دیو ہیکل دہری فصیل میں گھرا ہوا تھا۔ اس کے اندر عمارات بڑے بلاکوں کی شکل میں تھیں۔ ہر بلاک میں جو گھر ہیں وہ متناسب اور پر آسائش زندگی کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ فن تعمیر ترقی یافتہ۔ اس دور میں جب سماج تیز تبدیلیوں کی ذرد میں تھا۔ کسی انتہائی مر تکز حکومت کا تصور کرنا تو محال ہے۔ اس لیے اس شہر کو دالحکومت سمجھنا درست نہیں۔ کیوں کہ اس میں رہنے والے یقناً ایسے لوگ تھے جنہیں حفاظت کی ضرورت تھی۔ غیر ملکی حملہ آوروں سے نہیں۔ کیوں کہ ایسا ہوتا تو شہر فصیلوں میں ہوتے۔ جب کہ ایسے صرف چار شہر ملے ہیں۔ جو فصیلوں میں ہیں۔ ایک کوہتراس بٹھی، دوسرا توجی، تیسرا مزینہ دمب ( یہ دونوں جنوبی بلوچستان میں ہیں ) اور چوتھا جھاؤ کے علاقے میں سیاہ دمب۔ فصیلوں میں رہنے والے ان لوگوں کو حفاظت اپنے ارد گرد بسنے والے لوگوں سے کرنے کی ضرورت تھی۔ ناکافی شواہد کے باعث حتمی تمیز کرنا مشکل ہے۔ البتہ اتنا ضرور قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ شہر اس دور سے تعلق رکھتا ہے جب آمری نال سماج طبقوں میں بٹ چکا تھا۔ ورنہ اتنی حفاظت کی ضرورت نہیں تھی۔ ٍ

ان شہروں میں مذہبی عبادت خانے نہیں ملتے ہیں نہ ہی شاہی محل۔ جن سے ثابت ہوکہ مذہبی پیشوا اور حاکم موجود ہوں جن سے مرکزی حکومت کا تصور نکلتا ہو۔ آمری نال لوگ زراعت پیشہ بھی تھے اور گلہ بانی بھی کرتے تھے۔ ان کی معیشت کا دارو مدار رزاعت، گلہ بانی اور دستکاریوں پر تھا۔ اس ثقافت کا زمانہ 3500 ق م یا 3600 ق م سے کے کر پانچ یا چھ سو سال تک رہا۔ ماخذ

یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور