ابراہیم الحربی الامام
امام بخاریؒ کے تلامذہ میں سے تھے۔ فن لغت، ادب، نحو، فقہ کے امام مانے جاتے ہیں۔ خطیب لکھتے ہیں :
” | کان اماما فی العلم راسافی الزھد، عارفا بالفقہ، بصیرا بالا حکام، حافظا للجدیت، ممیزا للعلۃ، قیما بالادب، جماعۃ للغۃ، صنف غریب الحدیث و کتبا کثیرۃ | “ |
علامہ ثعلب ایک بہت بڑی لغوی اور نحوی مانے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام حربی کو لغت اور نحو کی درس گاہ سے پچاس برس ہو گئے کبھی ناغہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ مزاج میں اس قدر استغنا تھا کہ سلاطین کے وظائف اور تحائف کو نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھتے اور یہ استغنا ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو کبھی اس کے کمال کی تحقیق اور اشاعت اور حق گوئی سے باز نہیں رکھ سکتی۔ ایسا شخص بے رعب اور آزاد ہوتا ہے معتضد باللہ نے جو خلفائے عباسیہ سے ہے، ایک بار دس ہزار درہم نذرانہ بھیجے۔ حربی نے واپس کر دیا، پھر دوبارہ بھیجے لیکن پھر بھی نامنظور کیا۔
امام بخاریؒ کی تحقیقات علمیہ سے اسے جامعیت پر بھی مستغنیٰ نہ تھے۔ نہ معاصرت کی عار استفادہ سے مانع آتی۔[1]
حافظ ذہبی کہتے ہیں کہ : ابراہیم حربی کی چند نادر تالیفات مجھے ہاتھ لگی تھیں۔
وفات
ترمیمماہ ذی الحجہ 285ھ میں وفات پائی۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ تذکرۃ الحفاظ و مقدمۃ الفتح