ابوالقاسم محمد بن طلحہ
حضرت ابو القاسم محمد ؓبن طلحہ صحابی رسول تھے۔
حضرت ابو القاسم محمد ؓبن طلحہ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
لقب | سجاد |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیممحمد نام،ابو القاسم کنیت، سجاد لقب، مشہور صحابی حضرت طلحہؓ احد من العشرۃ المبشرہؓ کے صاحبزادہ ہیں، نسب نامہ یہ ہے، محمد ؓبن طلحہ بن عبید اللہ بن عثمان بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن لوئی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ قریش، ماں کا نام حمنہ تھا،حمنہ ام المومنین حضرت زینبؓ کی حقیقی اورآنحضرتﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھی،اس رشتہ سے محمد آنحضرتﷺ کے بھانجے ہوئے۔
پیدائش
ترمیممحمد زمانہ اسلام میں پیدا ہوئے اور حصول برکت کے لیے آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کیے گئے،آپ نے پوچھا نام کیا رکھا گیا ،کہا گیا "محمد" فرمایا میرے نام پر، اچھا ان کی کنیت بھی ابو القاسم ہے۔ [1] حضرت عمرؓ کے بھائی زید کے پوتے کا نام بھی محمد تھا، ایک مرتبہ کسی نے ان کو پکار کر برا بھلا کہا، حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا تو آپ نے بلا کر فرمایا کہ تمھارے نام کی وجہ سے اسم محمدﷺ پر گالیاں نہیں پڑسکتیں چنانچہ اسی وقت ان کا نام بدل کر عبد اللہ حمن رکھا، اورحضرت طلحہؓ کے لڑکوں کے پاس آدمی بھیجا کہ ان میں جن جن کا نام محمد ہے بدل دیا جائے، یہ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے،محمد بن طلحہ نے عرض کیا ،امیر المومنین میرا نام محمد رسول اللہ ﷺ کا انتخاب کردہ ہے،فرمایا اگر یہ سچ ہے ،تو جاؤ رسول اللہ کا رکھا ہوا نام میں نہیں بد ل سکتا۔ [2]
جنگ جمل میں شرکت اورکنارہ کشی
ترمیمجنگ جمل میں محمد کا دلی میلان حضرت علیؓ کی طرف تھا، لیکن ان کے والد حضرت عائشہؓ کے ساتھ تھے، اس لیے باپ کی خاطر سے ضمیر کے خلاف حضرت عائشہؓ کے ساتھ نکلے،لیکن دل مطمئن نہ تھا، اس لیے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا اماں بیٹے کے متعلق کیا حکم ہوتا ہے؟ حضرت عائشہؓ ان کا منشا سمجھ گئیں ،گوان کا منشا حضرت عائشہؓ کے خلاف تھا،لیکن آپ نے جواب دیا، ایسی حالت میں تم خبر بنی آدم کا طریقہ اختیار کرو اوراپنا ہاتھ روک لو۔ [3]
شہادت
ترمیمیہ اجازت ملنے کے بعد انھوں نے تلوار میان میں کرلی،اورزرہ کو بچھا کر اس پرکھڑے ہو گئے (اسد الغابہ واصابہ تذکرہ محمد بن طلحہ) حضرت علیؓ کو ان کے دلی جذبات اور ان کی مجبوریوں کا علم تھا اس لیے اپنی فوج میں اعلان کر دیا تھا کہ سیاہ ٹوپی والے (محمد) پر کوئی تلوار نہ اٹھائے،مگر میدان جنگ میں کون امتیاز کرتا ،اس لیے محمد کی غیر جانبداری اورحضرت علیؓ کے اعلان کے باوجود کسی نے ان کا کام تمام کر دیا،قاتل کا نام بعض مدبح،بعض شداد اوربعض عصام بن مسعر بصری کو بتاتے ہیں زیادہ خیال آخر شخص کی طرف ہے۔ [4]
حضرت علیؓ کا تاثر
ترمیماختتامِ جنگ کے بعد جب حضرت علیؓ اوران کے ساتھ حضرت حسن ؓ اور عمار بن یاسرؓ اپنے مقتولین کو تلاش کرنے لگے، توحضرت حسنؓ کی نظر ایک لاش پر پڑی جو منہ کے بل زمین پر پڑی ہوئی تھی، قریب جاکر سیدھی کی اورصورت پر نظر پڑی،تومنہ سے بے اختیار ،انا للہ وانالیہ راجعون نکل گیا اور فرمایا واللہ یہ قریشی بچہ ہے۔ حضرت علیؓ نے پوچھا خیر ہے عرض کیا محمد بن طلحہ! ان کا نام سن کر فرمایا افسوس کیا جوان صالح تھا یہ کہہکر وہیں ملول وغمزدہ بیٹھ گئے،محمد کی شہادت کا حضرت حسنؓ پر اتنا شدید اثر ہوا کہ انھوں نے حضرت علیؓ سے کہا میں آپ کو اس جنگ سے روکتا تھا،لیکن آپ فلاں اشخاص کے کہنے میں آگئے،فرمایا جو کچھ ہونا تھا ہو چکا، کاش میں آج سے 20 سال پہلے مرگیا ہوتا۔ [5]
فضائل اخلاق
ترمیممحمد بن طلحہ یوں تو تمام فضائل اخلاق کا ایک مجسم پیکر تھے،لیکن زہد وعبادت کا رنگ بہت غالب تھا،اتنی عبادت وریاضت کرتے تھے کہ"سجاد" بڑا سجدہ کرنے والا لقب پڑ گیا تھا [6]محمد پہلے شخص ہیں جو سجاد کے لقب سے ملقب ہوئے [7]حضرت علیؓ نے جب ان کی لاش دیکھی تو ان کے دوسرے اوصاف بیان کرنے کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ "ربِ کعبہ کی قسم یہ سجاد ہیں،انھوں نے والد کی اطاعت میں جان دی " [8]گو محمد دوسرے صحابہ کے مقابلہ میں بہت کم سن تھے لیکن ان کے زہد و تقویٰ کی وجہ سے بڑے بڑے صحابہ ان سے برکت حاصل کرتے تھے اوران کی دعائیں لیتے تھے۔ [9]