ابو بصیر، جن کا نام عُتبہ بن اسید الثقفی (اور بعض کے نزدیک عبید بن اسید) تھا، ان صحابہ میں سے تھے جو مکہ میں اسلام لانے کے بعد مشرکین کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے۔ اسلام قبول کرنے سے قبل وہ بنی زہرہ کے حلیف تھے۔ صلح حدیبیہ کے بعد انھوں نے مدینہ منورہ میں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی۔

ابو بصیر
معلومات شخصیت

صلحِ حدیبیہ کا امتحان

ترمیم

صلح حدیبیہ کے معاہدے میں ایک شرط یہ تھی کہ مکہ سے جو بھی مسلمان ہو کر مدینہ آئے گا، رسول اللہ ﷺ اُسے واپس کر دیں گے۔ چنانچہ جب ابو بصیر مدینہ پہنچے تو قریش نے دو آدمی انھیں واپس لینے کے لیے بھیجے۔ رسول اللہ ﷺ نے وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے ابو بصیر کو واپس کر دیا، لیکن انھیں صبر اور اللہ کی مدد کی تلقین کی۔[1] [2] [3] [4]

قریش کے نمائندے پر حملہ

ترمیم

جب ابو بصیر دونوں قریشی نمائندوں کے ساتھ مدینہ سے نکلے اور راستے میں ایک جگہ آرام کے لیے رکے، تو ان میں سے ایک شخص نے فخر سے اپنی تلوار دکھاتے ہوئے کہا: "میں اس تلوار سے دن بھر اوس و خزرج کو قتل کرتا رہا ہوں۔" ابو بصیر نے چالاکی سے اس سے تلوار مانگی اور جیسے ہی ہاتھ آئی، اس کی گردن اڑا دی۔ دوسرا شخص خوف زدہ ہو کر بھاگا اور مدینہ پہنچ کر رسول اللہ ﷺ سے فریاد کی کہ اس کا ساتھی قتل ہو گیا۔

ابو بصیر کی واپسی اور آزادی کا اعلان

ترمیم

اسی اثنا میں ابو بصیر بھی رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے اور کہا: "یا رسول اللہ، آپ نے مجھے ان کے حوالے کیا اور اللہ نے مجھے ان سے بچا لیا۔ پس آپ کی ذمّہ داری پوری ہو گئی۔" رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "افسوس! یہ تو جنگ کی چنگاری ہے، کاش اس کے ساتھ کچھ لوگ ہوتے۔"

مگر عہد کی پاسداری کرتے ہوئے آپ ﷺ نے ابو بصیر کو مدینہ سے جانے کا حکم دیا، جس پر وہ اطاعتاً مدینہ سے نکل گئے۔ ابو بصیر العیص نامی جگہ پر جا بسے اور وہاں وہ تمام مظلوم مسلمان جو مکہ سے مدینہ آنا چاہتے تھے مگر صلح حدیبیہ کے سبب نہیں آ سکتے تھے، اُن سے آ کر مل گئے۔ ان میں ابو جندل بن سہیل بھی شامل تھے۔ یوں ایک مضبوط جماعت بن گئی، جو قریش کی تجارتی قافلوں پر حملہ کرنے لگی۔

قریش کی بے بسی اور رسول اللہ ﷺ سے التجا

ترمیم

جب قریش کی معیشت پر ضرب پڑنے لگی تو انھوں نے خود رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ جو لوگ اب مدینہ آئیں، آپ انھیں پناہ دے دیں۔ اس طرح صلح حدیبیہ کی اس شق کو قریش نے خود منسوخ کر دیا۔

جب نبی کریم ﷺ کا پیغام ابو بصیر تک پہنچا، اُس وقت وہ موت کے قریب تھے۔ انھوں نے خط پڑھا اور اسی حال میں وفات پا گئے۔ ابو جندل نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور وہیں دفن کیا۔[5]

جہاد ابو بصیرؓ

ترمیم

جب ابو بصیر العیص کے مقام پر جا بسے، تو وہ جگہ قریش کے قافلوں کا شام کی طرف جانے والا تجارتی راستہ تھی۔ مکہ میں موجود دیگر مظلوم مسلمان جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہجرت نہیں کر سکتے تھے، جب انھیں ابو بصیر کی خبر ملی، تو وہ بھی ایک ایک کر کے ان سے آ ملے۔ یہاں تک کہ ان کی تعداد ساٹھ یا ستر کے قریب ہو گئی۔ یہ مجاہدین جب بھی قریش کے کسی آدمی پر قابو پاتے، اُسے قتل کر دیتے اور جو بھی تجارتی قافلہ ان کے پاس سے گزرتا، وہ اُسے روک کر سامان اپنے قبضے میں لے لیتے۔

یہ کارروائیاں قریش کے لیے ناقابلِ برداشت بن گئیں، چنانچہ انھوں نے نبی اکرم ﷺ کو خط لکھا اور آپ سے رشتہ داری کا واسطہ دے کر درخواست کی کہ ان لوگوں کو مدینہ آنے کی اجازت دی جائے، ہمیں ان کی اب کوئی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے قریش کی یہ درخواست قبول کر لی اور ان تمام مہاجرین کو مدینہ آنے کی اجازت دے دی۔ ابو جندل بن سہیل بھی انہی افراد میں سے تھے جو ابو بصیر کے ساتھ جا ملے تھے۔

وفات ابو بصیرؓ

ترمیم

جب رسول اللہ ﷺ کا خط ابو جندل کے ہاتھ ابو بصیر تک پہنچا، اُس وقت ابو بصیر شدید بیماری میں مبتلا تھے اور موت کے قریب پہنچ چکے تھے۔ جیسے ہی انھوں نے خط پڑھا، خوشی و اطمینان سے اُن کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ رسول اللہ ﷺ کا پیغام اُن کے ہاتھ میں تھا اور وہ اُسے پڑھ رہے تھے۔ ابو جندل اور اُن کے ساتھیوں نے ابو بصیر کی نمازِ جنازہ ادا کی اور وہیں انھیں دفن کر دیا۔[6] [7] [8]

حوالہ جات

ترمیم
  1. عبد الملك بن هشام۔ بيروت: دار ابن كثير۔ ج 2۔ ص 317–319 {{حوالہ کتاب}}: نامعلوم پیرامیٹر |نام= رد کیا گیا (معاونت) وپیرامیٹر |title= غیر موجود یا خالی (معاونت)
  2. محمد بن سعد۔ بيروت: دار صادر۔ ج 4۔ ص 291–292 {{حوالہ کتاب}}: نامعلوم پیرامیٹر |نام= رد کیا گیا (معاونت) وپیرامیٹر |title= غیر موجود یا خالی (معاونت)
  3. شمس الدين الذهبي۔ مؤسسة الرسالة۔ ج 2۔ ص 295 {{حوالہ کتاب}}: نامعلوم پیرامیٹر |نام= رد کیا گیا (معاونت) وپیرامیٹر |title= غیر موجود یا خالی (معاونت)
  4. يوسف بن عبد البر۔ دار الجيل۔ ج 3۔ ص 1183 {{حوالہ کتاب}}: نامعلوم پیرامیٹر |نام= رد کیا گیا (معاونت) وپیرامیٹر |title= غیر موجود یا خالی (معاونت)
  5. أسد الغابة، ابن الأثير
  6. علي بن أبي الكرم ابن الأثير۔ بيروت: دار الفكر۔ ج 3۔ ص 270 {{حوالہ کتاب}}: نامعلوم پیرامیٹر |نام= رد کیا گیا (معاونت) وپیرامیٹر |title= غیر موجود یا خالی (معاونت)
  7. إسماعيل بن عمر بن كثير۔ بيروت: دار إحياء التراث العربي۔ ج 4۔ ص 203 {{حوالہ کتاب}}: نامعلوم پیرامیٹر |نام= رد کیا گیا (معاونت) وپیرامیٹر |title= غیر موجود یا خالی (معاونت)
  8. سانچہ:حوالہ كتاب