حضرت ابوبکرہؓ صحابی رسول تھے۔

حضرت ابوبکرہؓ
معلومات شخصیت

نام ونسب

ترمیم

نفیع نام، ابوبکرہ کنیت، باپ کا نام مسروح تھا، امیر معاویہ کے مشہور گورنر زیاد کے ماں جائے بھائی تھے،طائف کے ایک رئیس کی غلامی میں تھے۔

اسلام وآزادی

ترمیم

جب آنحضرتﷺ نے طائف کا محاصرہ کیا تو عام اعلان فرمایا کہ جو آزاد ہم سے مل جائے گا وہ مامون ہے اور جو غلام چلا آئیگا وہ آزاد ہے،یہ اعلان سن کر رؤسائے طائف کے بہت سے غلام اسلام کے دامنِ حریت میں آگئے، ان میں ایک ابوبکرہ بھی تھے،اعلان کے مطابق آپ نے انھیں آزاد فرمادیا،لیکن آزادی کے بعد ہی وہ اپنے کو آقائے دوعالم کا غلام ہی کہتے رہے۔ [1] لوگوں سے کہتے تھے میرے لیے یہ فخر کافی ہے کہ تمھارا دینی بھائی اورسرکار رسالت کا غلام ہوں اوراگر تم لوگوں کو آبائی نسبت پر اصرار ہے تو نفیع بن مسروح کہا کرو [2] آزادی کے بعد قدیم آقا نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میرا غلام میرے حوالہ کیا جائے،آپ نے فرمایا،وہ خدا ورسول کے آزاد کردہ ہیں، اس لیے اب واپس نہیں کیے جا سکتے۔ [3]

حدقذف کا اجرا

ترمیم

حضرت عمرؓ کے آغازِ خلافت تک دیار حبیب ہی میں رہے، بصرہ آباد ہونے کے بعد یہاں سکونت اختیار کرلی، اسی زمانہ میں زنا کے ایک مقدمہ میں بحیثیت شاہد پیش ہوئے، لیکن شہادت ناکافی تھی اس لیے ان پر حدِ قذف جاری ہوئی، اس کے بعد عہد کر لیا کہ آیندہ سے کسی دو آدمیوں کے درمیان شہادت نہ دیں گے۔ [4]

فتنہ سے کنارہ کشی

ترمیم

حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب دورِ فتن کا آغاز ہوا اوربڑے بڑے لوگ اس میں مبتلا ہو گئے، اس وقت ابوبکرہ نے اپنا دامن بچائے رکھا،فرماتے تھے کہ جنگ جمل میں قریب تھا کہ میں اصحاب جمل کے ساتھ ہوجاؤں ،مگر رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان نے جس قوم نے اپنا حاکم عورتوں کو بنایا،وہ کبھی فلاح نہیں پاسکتی ،مجھے بچالیا۔ [5] جنگِ صفین سے بھی علاحدہ رہے اور حتی الامکان دوسروں کو بھی ان خانہ جنگیوں میں شرکت سے بچا نے کی کوشش کی،ایک شخص ہتھیار لگا کر حضرت علیؓ کی مدد کو جارہا تھا،راستہ میں ابوبکرہ ملے،پوچھا کہاں کا قصد ہے،اس نے کہا ابن عم رسول اللہ کی مدد کو جارہا ہوں، ابوبکرہ نے کہا رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان بھی سنا ہے کہ جب دو مسلمان ایک دوسرے کے خلاف تلواریں نکالیں تو دونوں جہنمی ہیں۔ [6]

وفات

ترمیم

امیر معاویہ کے عہدِ حکومت میں بصرہ میں وفات پائی۔

اولاد

ترمیم

حضرت ابوبکرہؓ اولاد کی جانب سے بڑے خوش نصیب تھے،اپنے بعد متعدد لڑکے عبد اللہ ،عبید اللہ،عبد الرحمن،عبد العزیز، مسلم، رواد، یزید اورعقبہ وغیرہ یاد گار چھوڑے۔ [7] عبید اللہ ہجستان کے گورنرتھے،عبیداللہ کے علاوہ اورلڑکے بھی علم و فضل اورمال و زر سے مالا مال تھے۔

فضل وکمال

ترمیم

گو ابوبکرہ بہت آخر میں مشرف باسلام ہوئے،لیکن غلامی کی نسبت سے نہیں آنحضرتﷺ کی صحبت اور آپ کے سر چشمۂ فیض سے استفادہ کا کافی موقع ملا؛چنانچہ ان سے 132 حدیثیں مروی ہیں،ان میں سے آٹھ متفق علیہ ہیں،اورپانچ میں امام بخاری منفرد ہیں،ان سے روایت کرنے والوں میں زیادہ تر ان کے صاحبزادگان ہیں۔ [8]

ذوقِ عبادت

ترمیم

وہ زہد وورع کا ایک پیکر مجسم تھے،عبادت وریاضت انکا مشغلہ حیات تھا جو آخری لمحہ تک قائم رہا، کان ابوبکرہ کثیرا لعبادۃ حتی مات۔ [9]

حوالہ جات

ترمیم
  1. (ابن سعد،جلد7،ق اول،صفحہ:9)
  2. (اسد الغابہ:5/151)
  3. (ابن سعد،جلد7،ق1،صفحہ9)
  4. (استیعاب واسد الغابہ:151)
  5. (بخاری کتاب النبی ﷺ الی کسری وقیصر)
  6. (بخاری کتاب الفتن باب اذا التقی المسلمان بسیفہما)
  7. (ابن سعد،جلد7،ق اول،صفحہ:138،139)
  8. (تہذیب الکمال:404)
  9. (اسد الغابہ :5/151)