ابو جہم بن حذیفہ
ابو جہم بن حذیفہ قرشی عدوی اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم صحابی تھے اور وہ فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے تھے ۔
ابو جہم بن حذیفہ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
رہائش | مكة والمدينة |
اولاد | محمد بن ابی جہم عدوی |
عملی زندگی | |
پیشہ | محدث |
درستی - ترمیم |
نسب
ترمیمان کے نام اور نسب میں اختلاف تھا تو کہا گیا: ابو جہم بن حذیفہ بن غانم بن عامر بن عبد اللہ بن عبید بن عویج بن عدی بن کعب قرشی عدوی نے کہا: عبید بن حذیفہ بن غانم ابو جہم انصاری اور ابو نعیم نے کہا اور اسے کعب کی طرف منسوب کیا اور کہا: انہوں نے کہا: ابوبکر بن ابی عاصم نے کہا: وہ انصار میں سے تھے، چنانچہ ابن مندہ نے کہا۔ ابوعاصم نے ابوجہم بن حذیفہ اور عبید بن حذیفہ کے درمیان فرق بیان کیا اور ابن اثیر نے کہا: ابن مندہ کا قول ہے: وہ انصار ہے، اور ابن ابی عاصم کا قول ہے: ان کا شمار انصار میں ہوتا ہے۔ ابو جہم جس کا یہ نسب ہے وہ قریش کا دشمن ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ، نعیم ،النحام اور مطیع بن الاسود ایک ہیں: عبید بن عوائج عائم نے ابن ابی عاصم سے روایت کی ہے کہ ان کی تعداد انصار میں نہیں ملتی جو ان کی کتاب میں ہے۔ اس کا عرفی نام ابو جہم تھا اس نے فتح کے سال اسلام قبول کیا، وہ قریش کے شیخوں میں سے تھا، اور وہ دو بار کعبہ کی تعمیر کا مشاہدہ کر چکا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں، جب قریش نے اسے تعمیر کیا، اور ایک بار جب عبد اللہ بن زبیر نے اسے بنایا۔ [1]
اسلام
ترمیمزبیر بن بکار اور ابن سعد نے ذکر کیا ہے کہ ابو جہم فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے ۔ اور اس کے بعد مدینہ تشریف لے گئے اور وہاں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گھر بنایا اور وہ قریش کے ایک ممتاز رہنما تھے۔ ان میں اور ان کے بیٹوں زبیر اور بغوی نے مصعب کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ابوجہم بن حذیفہ اس کے معماروں میں سے تھے اور وہ سلسلہ نسب کا علم رکھتے تھے۔ ان چاروں میں سے ایک جن سے قریش نے علم انساب سیکھا۔[2][3] ان کے عہدوں میں سے یہ ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خمیصہ دیا جس پر ایک جھنڈا تھا۔وہ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے زمانہ جاہلیت میں بیت اللہ کو تعمیر کیا ، پھر وہ اس وقت تک زندہ رہے جب تک کہ اس نے عبد اللہ بن زبیر کے ساتھ مل کر اسے تعمیر نہ کرایا۔ دونوں عمارتوں کے درمیان اسی سال سے زیادہ کا فاصلہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک بار تصدیق کرنے والا بنا کر بھیجا تھا۔ اس کی کوئی روایت نہیں ہے۔ [4][5][6]
رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ہدیہ
ترمیمآنحضرتﷺ کے ساتھ خاص روابط تھے ایک مرتبہ ابو جہم نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں ایک بوٹے دار قمیص ہدیہ کی آپ نے اسے پہن کر نماز پڑھی، بوٹوں کی وجہ سے آپ خیال بٹ گیا، اس لیے نماز پڑہنے کے بعد واپس کردی۔
امارتِ صدقہ
ترمیمایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو صدقہ وصول کرنے پر مامور فرمایا ایک آدمی نے صدقہ دینے میں جھگڑا کیا،ابوجہم نے اسے مارا،اتفاق سے وہ زخمی ہو گیا،اس کے قبیلہ والوں نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم کو اس کا معاوضہ ملنا چاہیے آپ نے فرمایا،اتنی اتنی رقم لے لو،وہ راضی نہ ہوئے،آپ نے دوسری مرتبہ پھر فرمایا،پھر وہ لوگ رضا مند نہ ہوئے،آپ نے تیسری مرتبہ ارشاد فرمایا،اس مرتبہ راضی ہو گئے آنحضرتﷺ نے فرمایا،آج رات کو میں لوگوں کے سامنے تقریر کرکے تمھاری رضا مندی کی اطلاع دونگا،انھوں نے کہا مناسب ہے؛چنانچہ شب کو اُن کی موجود گی میں صحابہ کے سامنے تقریر کی یہ لیثی زخمی کرنے کا معاوضہ مانگنے کے لیے آئے تھے،میں نے ان کے سامنے اتنی اتنی رقم پیش کی،یہ لوگ راضی ہو گئے،یہ ارشاد فرما کر لیثیوں سے خطاب فرمایا کہ تم لوگ راضی ہو اس وقت یہ لوگ انکار کرگئے،ان کے انکار پر مہاجرین نے انھیں مارنے کا ارادہ کیا،لیکن آنحضرتﷺ نے روک دیا، اس کے بعد رقم میں اورزیادہ اضافہ کرکے فرمایا، اب راضی ہو، انھوں نے کہا ہاں، آپ نے فرمایا میں لوگوں کے سامنے تقریر کرکے تمھاری رضا مندی کی اطلاع دونگا، انھوں نے اجازت دی؛چنانچہ آنحضرتﷺ نے تقریر کرکے لوگوں کے سامنے ان کی رضا مندی کی تصدیق کرادی۔ [7]
تدفین عثمان غنیؓ
ترمیمحضرت عثمانؓ کی شہادت کے وقت مدینہ میں نہایت سخت فتنہ برپا ہوا،مدینہ باغیوں کے قبضہ میں تھا اوران کے خوف سے کسی کو خلیفۂ مظلوم کی لاش دفن کرنے کی ہمت نہ پڑتی تھی،دوسرے دن جن چند سرفروش مسلمانوں نے ہتھیلیوں پر سر رکھ کر بے گور و کفن لاش کو دفن کیا تھا ان میں ایک ابو جہم بھی تھے۔ [8]
وفات
ترمیمابو جہم نے کافی عمر پائی ان کی طوالت عمر کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ انھوں نے کعبہ کی تعمیریں دیکھیں، ایک زمانہ جاہلیت میں رسول اللہ ﷺ کے بچپن میں قریش کی تعمیر،دوسری ابن زبیرؓ کے زمانہ خلافت میں ان کی تعمیر،ان دونوں زمانوں میں کم وبیش ایک صدی کا فصل تھا، اس طویل عمر کے بعد عبد الملک کے عہد حکومت میں وفات پائی، [9] بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر معاویہ کے زمانہ میں وفات پاچکے تھے لیکن پہلی روایت زیادہ مستند ہے۔
فضل وکمال
ترمیمابو جہم کا مذہبی علوم میں کوئی پایہ نہ تھا،لیکن نسابی میں جو جاہلیت کا نہایت ممتاز علم تھا، بڑا کمال رکھتے تھے اوران چار علمائے نسب میں سے ایک تھے،جو اس عہد میں سارے عرب میں استاد مانے جاتے تھے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ شمس الدين الذهبي (1985)، سير أعلام النبلاء، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، مجموعة (ط. 1)، بيروت: مؤسسة الرسالة، ج. 2، ص. 556
- ↑ ابن أخي الأصمعي في "النوادر
- ↑ كتاب الطبقات الكبير لمحمد بن سعد بن منيع البصري الزهري المشهور بابن سعد
- ↑ ابن الأثير الجزري (1994)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود، علي محمد معوض (ط. 1)، بيروت: دار الكتب العلمية، ج. 6، ص. 56
- ↑ سير أعلام النبلاء ج2ص557
- ↑ (اسد الغابہ:5/162)
- ↑ (ابوداؤد :2،کتاب الدیات باب العامل یصاب علی یدیہ خطار)
- ↑ (اصابہ:7/34)
- ↑ (استیعاب:2/650)