ابو رفاعہ عدوی
حضرت ابو رفاعہؓ عدوی صحابی رسول تھے۔فتح مکہ کے بعد کسی زمانہ میں مشرف باسلام ہوئے۔
حضرت ابو رفاعہؓ عدوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمتمیم نام، ابو رفاعہ کنیت، نسب نامہ یہ ہے،تمیم بن اسید بن عدی بن مالک بن تمیم بن دؤل بن جبل بن عدی بن عبدمناۃ بن اوبن طانجہ بن الیاس بن مضر عددی مضری۔
اسلام
ترمیمغالباً فتح مکہ کے بعد کسی زمانہ میں مشرف باسلام ہوئے، اسلام کا واقعہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ مسجد میں خطبہ دے رہے تھے کہ ابو رفاعہ پہنچے اور قریب جاکر عرض کیا یا رسول اللہ ایک غریب الدیار، اپنے دین کی بابت سوال کرنے آیا ہے،وہ نہیں جانتا کہ اس کا مذہب کیا ہے،اس سوال پر آپ نے خطبہ روک کر اپنے پاس بلایا اورایک کرسی پر جس میں لوہے کے پایے لگے ہوئے،تھے بیٹھ کر ان کو ضروری تعلیم دی۔ [1]
جہاد فی سبیل اللہ اورشہادت
ترمیمابو رفاعہ کی رگ رگ میں جہاد فی سبیل اللہ کا خون دوڑتا رہتا تھا وہ خدا سے دعا مانگا کرتے تھے کہ خدا مجھے ایسی طاہر اورپاکیزہ موت دے جس پر دوسرے مسلمانوں کو رشک آئے، اوروہ موت تیری راہ میں ہو [2] ان کی یہ پراخلاص دعا مقبول ہوئی۔ 44ھ میں عبد الرحمن بن سمرہ کی ماتحتی میں کابل پر فوج کشی ہوئی، اس فوج میں بنو حنیفہ کا پورا قبیلہ شریک ہوا ابو رفاعہ نے بھی شرکت کا ارادہ کیا،ابو قتادہ عدوی نے روکا کہ تمھارے بال بچے بالکل تنہا ہیں،اس لیے تم نہ جاؤ، لیکن یہ ذوق شہادت میں بے تاب تھے،جواب دیا،میں مصمم ارادہ کرچکا ہوں،اس لیے ضرور شریک ہوں گا؛چنانچہ فوج میں شامل ہوکر کابل روانہ ہو گئے،سجستان پہنچنے کے بعد رات بھر فوج ایک قلعہ کے گرد چکر لگاتی رہی اور ابو رفاعہ شہادت کی تیاری میں ساری رات عبادت کرتے رہے،آخری میں شب میں نیند کا غلبہ ہوا، ڈھال کا تکیہ لگا کر سو گئے،صبح کو اسلامی فوج دشمن کے رخ کا اندازہ لگانے میں ایسا مشغول ہوئی کہ کسی کو ابو رفاعہ کا خیال نہ رہا، ابو رفاعہ رات بھر کے جگے تھے، صبح کو بھی آنکھ نہ کھلی، دشمنوں نے انھیں تنہا پا کر ذبح کر دیا،کچھ دیر کے بعد جب لوگوں کو ان کا خیال آیا اوران کی تلاش میں نکلے تو دیکھا کہ وہ خاک و خون میں غلطان ہیں اور تین گبر جنھوں نے ان کو قتل کیا تھا ان کے کپڑے اتار رہے ہیں کہ اتنے میں مسلمان پہنچ گئے اورقاتلوں کو بھگا کر شہید فی سبیل اللہ کی لاش ساتھ لے گئے۔ [3]
فضل وکمال
ترمیمفضل وکمال کے لحاظ سے ممتاز صحابہ میں تھے، علامہ ابن عبد البر لکھتے ہیں کہ ابو رفاعہ فضلائے صحابہ میں تھے قرآن کی متعدد سورتیں براست زبان نبویﷺ سے یاد کی تھیں،حدیثوں سے بھی تہی دامن نہ تھے، حمید بن بلال اورصلہ بن اثیم نے ان سے روایتیں کی ہیں۔
ذوق عبادت
ترمیمعبادت اورریاضت ان کا خاص مشغلہ تھا،تلاوتِ قرآن سے غیر معمولی شغف تھا،تہجد بڑے التزام اورپابندی کے ساتھ پڑہتے تھے،ایک موقع پر انھوں نے خود بیان کیا تھا کہ جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے بقرہ اوردوسری آیاتِ قرآنی سیکھی ہیں، اس وقت سے نہ بقرہ نے میرا ساتھ چھوڑا اورنہ قیام لیل سے کسل پیدا ہوا۔ [4]