حضرت ابو شریح ؓ صحابی رسول تھے۔فتح مکہ سے پہلے مشرف باسلام ہوئے،فتح مکہ میں شریک تھے۔

حضرت ابو شریح ؓ
معلومات شخصیت

نام ونسب

ترمیم

ابو شریح کے نام میں بہت اختلاف ہے،بعض خویلد،بعض عمرو،بعض کعب اور بعض ہانی بتاتے ہیں،ابو شریح کنیت ہے اور اسی سے وہ مشہور ہیں، نسب نامہ یہ ہے ،خویلد بن عمرو بن ضحر بن عبدالعزی بن معاویہ بن محترش بن عمرو بن زمانہ بن عدی بن عمرو بن ربیعہ خزاعی کعبی۔

اسلام و غزوات

ترمیم

فتح مکہ سے پہلے مشرف باسلام ہوئے،فتح مکہ میں شریک تھے اور بنی کعب کا ایک نشان ان کے ہاتھ میں تھا۔ [1]

وفات

ترمیم

68ھ میں مدینہ میں وفات پائی۔ [2]

فضل وکمال

ترمیم

ابو شریح کا شمار عقلائے مدینہ میں تھا،[3] مذہبی علوم میں کوئی امتیازی حیثیت نہیں رکھتے تھے،ان سے بیس حدیثیں مروی ہیں، ان میں سے دو متفق علیہ ہیں اور ایک میں امام بخاری اورایک میں امام مسلم منفرد ہیں، ابو سعید مقبری اورنافع بن جبیر وغیرہ نے ان سے رویتیں کی ہیں۔ [4]

تبلیغ فرمان رسول

ترمیم

ابو شریح کو جس کی جانب سے بھی کسی فرمان رسول کی مخالفت نظر آتی خواہ وہ کتنی ہی بڑی شخصیت وقوت کیوں نہ ہوتی فوراً اس کو متنبہ کرتے،عمرو بن زبیرؓ اورعبداللہ بن زبیرؓ دونوں بھائیوں کے اختلافات کے زمانہ میں جب عمرو نے مکہ پر چڑھائی کی تو ابو شریح نے عمرو کو آنحضرتﷺ کے تحریم حرم کے حجۃ الوداع والے خطبہ کا حوالہ دیکر روکا، عمرو نے کہا بڑے میاں آپ جایے میں آپ سے زیادہ حرم کی حرمت سے واقف ہوں، حرم خون ریزی کرنے والوں، باغیوں اور جزیہ روکنے والوں کو پناہ نہیں دیتا، ابو شریح نے کہا میں تحریم حرم کے خطبہ کے وقت موجود تھا اور تم نہ تھے اور آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ جو لوگ موجود ہیں وہ ان لوگوں کو جو موجود نہیں ہیں، خبر کر دیں،اس لیے میں نے تم کو خبر کردی،آیندہ تمھیں اختیار ہے [5]اسی طرح جس زمانہ میں عمرو بن سعید اموی عبد اللہ بن زبیرؓ کے مقابلہ کے لیے مکہ فوجیں بھیج رہا تھا،تو اس کو بھی آنحضرتﷺ کا خطبہ سنایا، اس نے جواب دیا، میں تم سے زیادہ واقف ہوں،لیکن حرم، نافرمان،مفرور،قاتل اورجزیہ روکنے والوں کو پناہ نہیں دیتا۔ [6]

فیاضی

ترمیم

وہ بڑے فیاض اوردریادل تھے،لوگوں کو اپنی چیزوں کے استعمال کی عام اجازت دے رکھی تھی اوراعلان کر دیا تھا کہ جب تم دیکھو کہ میں اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے روکتا ہوں تو مجھے مجنوں سمجھو اور داغ کر میرا علاج کرو اورجو شخص ابو شریح کا دودھ ،گھی اور برہ وغیرہ پائے ،تو وہ اس کے لیے حلال ہے اور اس کو بلا تکلف کھا پی سکتا ہے۔ [7]

حوالہ جات

ترمیم
  1. (ابن سعد،جلد4،ق2،صفحہ:32)
  2. (ایضاً)
  3. (استیعاب :2/716)
  4. (تہذیب الکمال:452)
  5. (اسد الغابہ:5/226)
  6. (سیرت ابن ہشام:2/225)
  7. (استیعاب:2/716)