مترجم، مصنف اور معروف شاعر

پیدائش ترمیم

اجملؔ اجملی 1 مارچ 1932ء کو الہ آباد کے ایک معروف علمی، ادبی اور متصوفانہ روایات کے امین گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد دائرہ شاہ اجمل کے سجادہ نشین تھے۔[1]

تعلیم و تربیت ترمیم

اجملی کی پروش خانقاہی ماحول میں ہوئی۔ 1955ء میں الہ آباد یونیورسٹی سے بی اے اور 1957ء میں ایم اے کیا۔ 1964ء میں ’اردو کے افسانوی ادب میں عوامی زندگی کی عکاسی‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر ڈی فل کی ڈگری کی حاصل کی۔[2]

تدریس ترمیم

اسلامیہ کالج سرینگر میں اردو کے استاد رہے۔ 1964ء میں دہلی آگئے،[3]

ادبی سفر ترمیم

سویت انفارمیشن سروس میں رسالہ ’سویت دیس‘ کی مجلس ادارت میں شامل ہو گئے۔ 1990ء تک اسی رسالے سے وابستہ رہے۔ اجمل اجملی نے 1990ء میں اپنی شاعری کا انتخاب ’سفرزاد‘ کے نام سے شائع کیا۔ شاعری کے علاوہ انھوں ’اردو سے ہندوؤں کا تعلق‘ اور ’شاعر آتش نوا : بنگالی شاعر قاضی نذر الاسلام کی شاعری اور سوانح‘ کے نام سے دوکتابیں بھی لکھیں اور متعدد تراجم بھی کیے۔ اجمل اجملی شاعری اور زندگی دونوں سطح پر ترقی پسند نظریات سے بہت متاثر تھے وہ ایک لمبے عرصے تک تحریک کے فعال رکن رہے۔[4] "میرا داغستان" کا ترجمہ بھی کیا[5]

وفات ترمیم

6 اگست 1993ء کو دہلی میں انتقال ہوا۔[6][7]ref> https://tafacur.com/72685/[مردہ ربط] </ref>

حوالہ جات ترمیم