احسان اللہ شائق
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مضمون معتدل نقطہ نظر کے بجائے معتقدانہ اسلوب میں تحریر کیا گیا ہے اور اس میں القاب کا بے جا استعمال کیا گیا ہے۔ (جانیں کہ اس سانچہ پیغام کو کیسے اور کب ختم کیا جائے) |
حضرت مولانامفتی احسان اللہ شائق صاحب دامت برکاتہم العالیہ یکم شوال1383ھ بمطابق 1963ء میں پیدا ہوئے ،قرآ ن کریم ناظرہ اور دینیات کی ابتدائی کتابیں اپنے والد ماجد الحاج مولانا شائق احمد رحمہ اللہ فاضل جامعہ اشرفیہ لاہور کے پاس پڑھیں ،1977ء میںجامعہ فاروقیہ کراچی میں داخلہ لے کر باقاعدہ تعلیم کا آ غاز کیا ،یہاں پر ایک ہی سال میں اعدادیہ اور درجہ اولیٰ کی تمام کتابیں پڑھ لیں۔یہاںپر حضرت مولانا محمد یوسف افشانی صاحب زید مجدہم سے خصوصی تعلق رہا ،درجہ ثانیہ کی کتابیں مدرسہ مدینہ العلوم شمالی ناظم آ باد میں پڑھنے کے بعد 1980ء میں جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا۔یہاں درجہ ثالثہ سے موقوف علیہ تک کی کتابیں پڑھیں،اس دوران حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی ؒ ،حضرت مولانا مفتی احمد الرحمان کاملپوری ؒ ،حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید ،اور حضرت مولانا مفتی عبد السلام چاٹگامی صاحب زید مجدہم سے خصوصی تعلق رہا۔اس دوران حضرت اقدس مفتی رشید احمد لدھیانوی ؒ سے خصوصی تعلق پیدا ہو گیا تھا،حضرت ؒ سے اصلاحی تعلق کے علاوہ شرف تلمذ بھی حاصل ہوا ،جس سے فقہ میں خاص مناسبت پیدا ہوئی۔پھر اپنے شیخ ہی کے مشورے سے دورہ حدیث کے لیے جامعہ دار العلوم کراچی میں داخلہ لیا اور 1986میں ممتاز نمبروں کے کے ساتھ سند فراغت حاصل کی،اس کے بعد جامعہ دار العلوم کراچی ہی سے تخصص فی الافتاء کیا ،اس دوران شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی سحبان محمود صاحب ؒ ،شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہم اور مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی زید مجدہ سے خاص تعلق رہا۔نیز تخصص کے ساتھ سرکاری بورڈ میں امتحان دے کر میٹرک بھی پاس کیا ۔
تخصص فی الفقہ سے فراغت کے بعد دو سال تک جامعہ اشرفیہ حقانیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔اس کے بعد 1990سے جامعہ حمادیہ شاہ فیصل کالونی کراچی میں تدریس اور افتاء کے منصب پر فائز رہے۔13 سال تک یہاں خدمات انجام دیتے رہے۔اس دوران شیخ الحدیث مفتی حبیب اللہ صاحب رحمہ اللہ تعالی کی نگرانی میں آ ٹھ سال تک افتاء کا کام سر انجا م دیتے رہے ،پھر پانچ سال تک دارالافتاء جامعہ حمادیہ کے مستقل ذمہ دارکی حیثیت سے فتویٰ کا کام کرتے رہے۔1423ھج بمطابق 2003ء تاحال ،جامعۃ الرشید احسن آ باد کراچی میں درجہ علیا کی کتابوں کی تدریس کے ساتھ دارلافتاء سے بھی منسلک ہیں،اس طرح اب تک تین ہزار سے زائد فتاویٰ تحریر فرماچکے ہیں ۔
حضرت محترم تدریس وا فتاء کے علاوہ ماشاء اللہ صاحب قلم بھی ہیں۔سینکڑوں کی تعداد میں اصلاحی مضامین کے علاوہ اب تک چھوٹی بڑی 50کتابیں بھی تصنیف فرما چکے ہیں۔جن میں چند ایک یہ ہیں ۔
1) ازدواجی زندگی کے شرعی مسائل
2) تسہیل تعلیم الدین
4) تسہیل حیاۃ المسلمین
5) خون ریزی اور عصبیت
6) شرح العقیدۃالطحاویہ
7) صالحین کی خواشگوارراتیں
8) مال کمانے میں راہ اعتدال
9) مستندمجموعہ وظائف
10) خواتین کے جدیدمسائل
11) ڈیجیٹل تصویر اور اس کے شرعی احکام
12) ترک گناہ اور اصلاح معاشرہ
13) کنز العمال کاترجمہ
14) مظاہر حق شرح مشکوٰۃ کیاحادیث کی تخریج
15) طریق السالکین شرح ریاض الصالحین
16) عطر ہدایہ کی تسہیل حلال وحرام کے احکام
17) جنت کی ضمانت زبان کی حفاظت
18) خطبات الاحکام مع خطبات احسان
19) سبق آموز واقعات
20) سلام کے قدیم وجدیدمسائل
21) ڈاڑھی اور بالوں کے شرعی احکام
22) مقدمۃ الحدیث
23) ابتدائی دینی تعلیمات
24) زادمسافر
25) اسلامی مہینوں کے احکام اور ہماری کوتاہیاں
26) نکاح وطلاق کے شرعی احکام
27) دعا کے آداب واحکام
28) اردو شرح دروس البلاغہ
29) قرآن کریم کے .....احکام
30) مساجد کے ...... احکام
31) بچوں کے لیے ابتدائی دینی تعلیمات
32) اسلام کے پانچ بنیادی ارکان
33) دس تقریر
34) مال وقف اورہماری کوتاہیاں
35) خدمت خلق کے رہنما اصول
36) گانا بجانا قرآن وحدیث کی روشنی میں
37) خواتین کے احکام
38) اسلامی عقائد احادیث کی روشنی میں
39) خواتین کے احکام
40) خواتین کے نماز کے احکام
41) شراب اورجوئے کی حرمت
42) شرعی پردہ قرآن وحدیث کی روشنی میں
43) احسن التشریح لمشکوٰۃ المصابیح
44) جدید معاملات کے شرعی احکام
45) کفار اور زنادقہ کے ساتھ معاملات کے شرعی احکام
46) میراث کے احکام اورہماری ذمہ داری
جامعہ حمادیہ میں قیام کے دوران ایک رسالہ بنام ’’بچوں کی ابتدائی دینی تعلیمات ‘‘ لکھ کر اپنے پیر و مرشد حضرت فقیہ العصر مفتی رشید احمدلدھیانوی ؒ کی خدمت میں جمعہ کے دن پیش کیا۔اگلے جمعہ کو حضرت والا نے حفلۃ العلماء میں تبصرہ فرمایا :کہ انھوں نے ایک رسالہ مجھے دیا، کچھ دن تک تو یہ رسالہ میرے سرہانے رکھا رہا ،میں سوچتا تھا کہ یہ تو بچوں کے لیے ہے ۔ اور میں تو بچہ نہیں، اسے پڑھ کر کیا کروں گا ؟لیکن یو م الثلاثہ کے دن اسے اٹھا کر پڑھا تو ماشاء اللہ بہت خوب۔یہ تو بڑوں کے لیے ہونا چاہیے تھا ‘‘۔
پھر حضرت نے اس کا کچھ حصہ اہل مجلس کو خود پڑھ کر سنایا ،اس کے بعد کئی مدارس کے حضرات نے اسے اپنے اپنے مدرسوں کے مکاتب میں باقاعدہ داخل نصاب کر لیا ہے ۔