احمد بن موسیٰ خیالی
احمد بن موسیٰ مشہور خیالی محقق مدقق اور جامع معقول و منقول عالم تھے ۔
نام و نسب
ترمیماحمد نام شمس الدین لقب تھا خیالی سے مشہور ہیں
تعلیم
ترمیممبانی علوم کے اپنے باپ سے پڑھے،پھر مولیٰ خضر بیگ کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے استفادہ کیا
تدریسی زندگی
ترمیماور مدرسہ سلطانیہ بروسا کے مدرس بنے،بعدہ بعض مدارس کی تدریس آپ کو تفویض ہوئی۔جب تاجد الدین ابراہیم المعروف بہ ابن الخطیب والد خطیب زادہ فوت ہوئے تو وزیر محمود پادشاہ نے سلطان محمد خاں سے آپ کے لیے سفارش کی کہ ان کو مدرسہ ازنیق کی تدریس کا کام دیا جائے،بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ کیا خیالی وہ شخص نہیں ہے جس نے شرح عقائد پر حواشی لکھے ہیں اور تیرا نام اس میں لکھا ہے؟ وزیر نے کہا کہ ہاں وہی شخص ہے۔پس بادشاہ نے کہا کہ وہ ضرور اس مدرسہ کا مستحق ہے لیکن خیالی نے ان دنوں واسطے حج کے تیاری کی ہوئی تھی۔پس جب یہ قسططنیہ میں آئے تو وزیر نے ان کو اس حال سے اطلاع دی انھوں نے فرمایا کہ اگر تو مجھ کو اپنی وزارت اور بادشاہ اپنی سلطنت دے دے تو بھی میں اس سفر کو نہ چھوڑوں گا۔پس آپ حج کو چلے گئے اور جب حج کر کے واپس آئے تو وہاں کے مدرس بنے
وفات
ترمیممدرس بننے کے تھوڑے ہی دنوں میں 33سال کی عرم میں 870ھ میں اس دار فانی سے انتقال کر گئے۔’’خوردہ دان‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔[1]
علمی مقام
ترمیمشرح عقائد نسفی پر آپ نے نہایت عمدہ اور مختصر حواشی تحریر کیے جو متداول بین الدرس والتدریس ہیں لیکن بعض مواقع پر اس وقت کو کام فرمایا ہے کہ بڑے بڑے علما فضلاء اس کے حل کرنے میں حیران رہ جاتے ہیں اس لیے ان حواشی کا حاشیہ مولانا عبد الحکیم سیالکوٹی نے ایسا عمدہ لکھا ہے کہ تمام معضلات و مشکلات کو حل کر کے طلبہ کے لیے آسان کر دیا چنانچہ اس موقع پر کسی نے یہ کیا خوب کہا ہے ؎
خیالات خیالی بس عظیم است برائے حل او عبد الحکیم است علاوہ اس کے اوائل شرح تجریدپر بھی حواشی تصنیف کیے اور اپنے استاد مولیٰ خضر بیگ کی کتاب نظم عقائد کی شرح کی۔[2]