احمد جہاں گیرموجودہ دور کے ایک ابھرتے ہوئے شاعر

|پیدائشی ناممحمد جہاں گیر جبکہ قلمی نام احمد جہاں گیر ہے

ولادت

ترمیم

28اکتوبر1980 کو روشنیوں کے شہر کراچی میں پیدا ہوئے آپ کے والد عبد المجید ہیں جو یوپی الہ آباد سے ہجرت کرکے یہاں سکونت پزیر ہُوئے

اصناف ادب

ترمیم

احمد جہاں گیر نے شاعری کواپنی ذات کے اظہار کا دلنشین ذریعہ ہے نعت غزل و نظم کہتے ہیں[1]

|نعت | colspan="2" |سبز چمکتا در کھل جائے اور سنگھاسن ظاہر ہو ایک سخی آواز پکارے، سندھی شاعر حاضر ہو


سورج سہرا باندھ کے ابھرے جھل مل کرتی کرنوں کا

طوف نبھاتا، وجد میں آتا، اک سیّارہ ناظر ہو


پیغمبرؐ یہ حکم کریں کچھ مانگ ارے کیا مانگے گا

اور عجم کا جاٹ سراسر کچھ کہنے سے قاصر ہو


میں لفظوں کا تھال الٹ کر بازو بستہ عرض کروں

مولا کوئی حرف نہیں جو پیارا، یکتا، نادر ہو



جانے والے سب جاتے ہیں میرا بھی اسباب بندھے

باغیچے کی سمت روانہ سندھو دشت مسافر ہو


پانی ربّ کی حمد گزارے، غنچے شہؐ کی نعت پڑھیں

ہستی کے ایوان میں سب کچھ طیّب، روشن، طاہر ہو


احمد جہاں گیر |- |غزل | colspan="2" |خُسرو کا رنگین سِنگھاسن، جھومر شاہ بھٹائی کا تہذیبوں کے رنگ سے روشن چہرہ سندھو مائی کا


تو موہن جو داڑو کا گُل، خاک ہڑّپہ نگری کی

یعنی ایک تسلسل پیہم ہے جلوہ آرائی کا


تو باغِ لاہور کا سبزہ، خوشبو تخت کلاچی کی

اور شرف اس باغیچے میں مجھ کو شعر سرائی کا


گلگت اور کیلاش دریچے خُلد کی جانب کھلتے ہیں

مالا کنڈ کی جھیل میں تاباں منظر خواب کُشائی کا


گھاس کے میدانوں سے ابھریں ست رنگے پنجاب کے سُر

اک تارے کی تان سے پھوٹے نغمہ مجھ صحرائی کا


چاغی کے مینار پہ میرے عزم کی مشعل روشن ہے

شاہ بلوچستان ستارہ ہے میری انگنائی کا


کھیت میں ہوں یا سرحد پر سب، میرے پاکستان کے حُر

ہر گلفام کا ماتھا روشن، دل پیارا ہر بھائی کا


احمد جہاں گیر |}

حوالہ جات

ترمیم