پیر احمد دین صدیقی شاہ جمال نوری کی اولاد میں سے تھے۔ آپ کا شمار سلسلسہ قادریہ کے مدراس شریف کے خلفاء میں ہوتا ہے۔ آپ جامع مسجد اونچی گھنٹہ گھر گجرانوالہ کے بانی و خطیب تھے۔

پیدائش

ترمیم

آپ کا اسم گرامی احمد دین تھا۔ آپ کے والد کا اسم گرامی محمد دین صدیقی تھا۔ آپ پیر شاہ جمال نوری کی اولاد میں سے تھے اور خاندانی طور پر صدیقی قریشی تھے۔ پیر شاہ جمال نوری تک شجرہ نسب حسب ذیل ہے

احمد دین صدیقی بن محمد دین صدیقی بن میاں غلام رسول بن نظام الدین بن محمد سعید بن حافظ خدا بخش بن شاہ عبد الرحیم بن شاہ جمال نوری صدیقی قریشی

آپ کی پیدائش 1867ء کو موضع اولیاء پور میں اپنے ماموں کے گھر ہوئی۔

تعلیم و تربیت

ترمیم

احمد دین صدیقی نے ابتدائی عربی و فارسی کی تعلیم اپنے والد محترم مولانا مولوی محمد دین صدیقی سے حاصل کی۔ اس کے بعد جدید انگریزی تعلیم کے لیے بورو اسکول گوجرانوالہ میں داخلہ لے لیا۔ اس اسکول میں تمام امتحانات اچھے نمبروں کے ساتھ پاس کیے۔ جدید انگریزی کی تعلیم سے فراغت کے بعد سول انجینئری کے نقشہ نویسی کی برانچ میں داخلہ لے لیا۔ اس میدان میں بھی اچھے گریڈ کے ساتھ کورس مکمل کیا۔

تلاش مرشد

ترمیم

پیر احمد دین صدیقی نے تعلیم سے فرصت کے بعد محکمہ انہار میں بطور ہیڈ ڈرافٹسمین (سول) ملازمت کا آغاز کر دیا۔ حکومت وقت کی طرف سے دیگر مراعات کے علاوہ ایک گھوڑی بھی دی گئی۔ نوکری کے آغاز ہی میں طبیعت دنیا کی طرف سے سرد ہونے لگی اور عنایت غیبی کا ایسا غلبہ ہوا کہ ہر وقت کسی مرشد کامل کی تلاش میں سر گرداں رہنے لگے۔ اس زمانے میں ایک نقشبندی بزرگ سائیں توکل شاہ انبالوی کا بڑا شہرہ تھا۔ آپ کا قیام انبالہ میں تھا۔ احمد دین صدیقی ان سے کسب فیض کے لیے انبالہ تشریف لائے۔ احمد دین صدیقی نے سائیں توکل شاہ انبالوی کی صحبت اختیار کی۔ سائیں توکل شاہ انبالوی نے آپ کو بیعت تو نہ فرمایا لیکن فیضِ کثیر سے ضرور نوازا۔ احمد دین صدیقی کا ازلی نصیب چونکہ سلسلہ قادریہ ہی سے منسلک تھا اس لیے انبالہ میں ایک مرد حق آگاہ سے ملاقات ہوئی۔ یہ مرد حق آگاه بزرگ سائیں محمد عمربخش تھے جو ان دنوں انبالہ میں ہی تشریف فرما تھے۔ سائیں محمد عمر بخش درگاہ محمد الیاس مدراس شریف کے سجادہ نشین تھے۔ آپ کی نسبت سلسلہ قادریہ سے تھی۔ احمد دین صدیقی انبالہ سے مدراس تشریف لائے۔ یہاں پر ہی احمد دین صدیقی سائیں محمد عمر بخش کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔

گوجرانوالہ واپسی

ترمیم

پیر احمد دین صدیقی اپنے شیخ سے بیعت کرنے اور فیضان باطن حاصل کرنے کے بعد بحکم شیخ گوجرانوالہ واپس تشریف لائے۔ آپ گوجرانوالہ میں واپس آنے کے بعد حکومت وقت کی ملازمت کو ترک کر دیا اور گوشہ تنہائی اختیار کر لی۔ شیخ کامل کی صحبت سے تجرید و تفرید طبیعت کا لازمی حصہ بن گئی۔

مسجد کی تعمیر

ترمیم

پیر احمد دین صدیقی نے گھنٹہ گھر چوک سے ذرا آگئے محلہ طوطیانوالہ میں ایک مسجد تعمیر کروائی جو آج اونچی مسجد کے نام سے مشہور و معروف ہے۔ اس مسجد کے لیے جگہ بھی احمد دین صدیقی نے خود وقف کی اور اپنی رہائش گاہ کے لیے بھی ساتھ مکان بنوائے۔ اس سے پہلے آپ موجودہ اردو بازار میں گلی مولوی محمد اشرف صاحب والی میں رہتے تھے۔ آپ بچوں کو قرآن مجید پڑھانے اور ساتھ میں مسجد میں امامت اور خطابت کے فرائض بھی سر انجام دینے لگے۔ وہاں آپ کے پاس انسانوں کے علاوہ جنات کے کئی قبیلوں کے بچے بھی قرآن مجید کی تعلیم کے لیے آ تے تھے۔

وصال

ترمیم

پیر احمد دین صدیقی کا وصال 9 ستمبر 1926 کو گوجرانوالہ میں ہوا۔ جہاں آپ کی تدفین کی گئی وہاں آج کل ایک مسجد بنام فاروقی رضوی المعروف دارے والی ہے۔

اولاد

ترمیم

آپ کا ایک بیٹا تھا۔ جس کا نام اصغرعلی تھا۔ وہ عالم شیر خوارگی میں ہی وفات پا گیا اور ایک صاحبزادی تھی۔ ان کا وصال بھی آپ کی زندگی میں ہو گیا تھا۔ اس لیے آپ کا نسبی سلسلہ جاری نہ ہو سکا لیکن روحانی سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔

خلفاء

ترمیم

آپ کے خلفاء کی تعداد بہت زیادہ تھی لیکن ان میں تین بہت مشہور و معروف ہوئے۔

  1. حضرت میاں احمد دین عالی سرکار (گوجرانوالہ)
  2. حضرت سخی محمد عنایت اللہ صدیقی اُچا پنڈ نزد نارنگ منڈی)
  3. حضرت پیرزادہ انوار الحق صدیقی (کامونکی) [1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. اولیائے گجرانوالہ مرتب میاں علی رضا صفحہ 51 تا 54