استاد احمد علی سائیں پشاوری حرفی اور چاربیتہ کے حوالے سے مقبول ہیں۔

ولادت ترمیم

1842ء کو پشاور میں پیدا ہوئے

صوفیانہ شاعری ترمیم

حرفی کی صنف کو استاد سائیں احمد علی پشاوری نے بامِ عروج پر پہنچادیا ۔ سائیں پشاوری کا زیادہ عرصہ مکھا سنگھ اسٹیٹ راولپنڈی میں گذرا۔ ان کی حر فیوں کو سن کر علامہ اقبال نے انھیں ہند کو /پنجابی کا غاؔلب قرار دیا۔ سائیں احمد علی پشاوری ہند کو زبان کے صوفی شاعرکی حیثیت سے ابھرے۔صوفیانہ شاعری میں وہ شاہ لطیف بھٹائی ،سچل سر مست ، رحمان بابا، میاں محمد بخش، وارث شاہ، بلھے شاہ اور مست تو کلی کی صف میں نظر آتے ہیں۔ سائیں پشاوری نے اپنی شاعری میں تصوف اور عشق کی حقیقی منازل کے حوالے سے حر فیاں تخلیق کیں۔ ان کی شاعری میں بے شمار ہند کو محا وروں کا استعمال ہند کو شاعری کو خوش کن بنا تاہے۔ اتھے مار دے ٹکراں خیال سائیاں جھتے پونچ نہ بادِ صبادی اے

شاعر ہفت زباں ترمیم

سائیں احمد علی پشاوری ہفت زبان شاعر تھے ۔ انھوں نے ہندکو، پشتو، اردو، فارسی، پنجابی، پوٹھوہاری اور کشمیر ی زبانوں میں شاعری کی ہے۔ وہ ان زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ غزل، حرفی، چاربیتہ ، نظم ، رباعی، قطعہ، حمدو نعت ، منقبت و سلام، مر ثیہ و نوحہ کے ساتھ ساتھ انہو ں نے آٹھ کلیوں اور بارہ کلیوں والے بیت زنجیر ے بھی لکھے وہ موضوعات کے حوالے سے قادر الکلام تھے۔ تصوف، اخلاقیات، فلسفہ ، رموز عشق ، حسن و خیال، ہجرو فراق اورمعاملہ بندی ان کی شاعری کا احاطہ کرتے ہیں۔ اولاً عالم ہست سیوں ہاتف آپ کا پکار یا بسم اللہ پھر قلم نوں حکم نوشت ہویا، سن کے قلم سر ماریا بسم اللہ نقشہ لوح محفوظ دا وچ سینے ، قلم صاف اتاریا بسم اللہ اس تحریرنوں سائیاں فر شتیاں نے پڑھ شکر گزار یا بسم اللہ سائیں احمد علی کی400حر فیوں کو سب سے پہلے افضل پرویزنے کہندا سائیں کے عنوان سے کتابی صورت دی بعد میں رضا ہمدانی نے سائیں احمد علی پشاروی کے عنوان سے ان کی تمام شاعری کو یکجا کر دیا۔ سائیں کے شاگردوں میں چڑ نگی، مسکین استاد گھائل سے لے کر جوگی جہلمی تک ایک سے بڑھ کر ایک معروف ہوئے

وفات ترمیم

1937ء میں پشاور میں وفات پائی[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. پاکستان کے صوفی شعراءصفحہ 467 اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد